پاکستان

انتخابات از خود نوٹس کیس چار تین سے مسترد ہوا، جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ نے ماضی سےکوئی سبق نہیں سیکھا، ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا،جسٹس اطہرمن اللہ کا تفصیلی نوٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے کیس میں اپنا 25صحفات پر مشتمل تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس کو 3-4 کے تناسب سے مسترد کیا گیا۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی انتخابات کیس کے حوالے سے جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرنے پر 25 صفحات پر مشتمل اپنا تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کردیا۔

انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ اس قسم کے اعتراضات سے عوام کے عدالت پر اعتماد پر اثر پڑتا ہے اور تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرنا قبل ازوقت تھی۔

انہوں نے کہا کہ درخواست پر کارروائی شروع کر کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی اور عدالتی کارروائی کے دوران بھی عدالت میں اعتراضات داخل کرائے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی۔

تفصیلی نوٹ میں کہا گیا کہ سوموٹو کی کارروائی شروع کرنے سے ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے والے سائلین کے حقوق متاثر ہوئے اور اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ ہر جج نے آئین کے تحفظ اور اسے محفوظ بنانے کا حلف اٹھا رکھا ہے اور 23فروری کو میں نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ بنانے کی تجویز دی، عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جاتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آرٹیکل 63-اے کی تشریح کے دور رس نتائج مرتب ہوئے، تحریک انصاف نے استعفوں کی منظوری کے لیے پہلے عدالتوں سےر جوع کیا، پھر سیاسی حکمت عملی کے تحت استعفے دیے اور استعفوں کی منظوری کے بعد تحریک انصاف پھر عدالت چلی گئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ حکمت عملی کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر بھی سوالات اٹھتے ہیں، کیا ایسی سیاسی حکمت عملی آئین اور جمہوریت کے تحت مطابقت رکھتی ہے؟، کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟

انہوں نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کے لیے اپنا فورم استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہیے؟ اور کیا عدالت کو غیر جمہوری روایات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ میں سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی فورم شاپنگ کا نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا؟، کیا غیرجمہوری روایات کی حوصلہ افزائی سے عوام کا سپریم کورٹ پر اعتماد مجروع نہیں ہوگا؟۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرکے عدلیہ غیرارادی طور پر پارلیمنٹ کو کمزور کرے گی، سیاسی فریقین کو پذیرائی دینے سے قبل ان کو نیک نیتی ثابت کرنی چاہیے۔

اختلافی نوٹ میں انہوں نے مزید لکھا کہ سپریم کورٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ایک سیاسی تنازع پر ازخود نوٹس لے کر سپریم کورٹ پر انگلی اٹھانے کی دعوت دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے وقار کی بحالی اور عوام کے اعتماد کی ذمہ داری چیف جسٹس کی بنیادی ذمہ داری ہے، یہ دونوں کام نہیں ہو رہے۔

انہوں نے لکھا کہ یہ سیاسی بحران تحریک عدم اعتماد میں شکست کے بعد عمران خان کے لیڈر آف اپوزیشن کا کردار نہ لینے سے شروع ہوا، ‏مجاز اتھارٹیز کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینا باقی تھا کہ پی ٹی آئی لاہور ہائی کورٹ چلی گئی۔

سپریم کورٹ کے جج نے تحریر کیا کہ سیاستدانوں کی پیدا کردہ دلدل سے ملک کو نکالنے کے لیے ایک بار پھر عدالت کو دعوت دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‏ایک سال قبل سپریم کورٹ کا عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر از خود نوٹس لینا بھی غلط تھا، ‏تشویشناک بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت کے غیر سیاسی طرز عمل سے ملک مزید عدم استحکام اور سیاسی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‏عوام کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے، ‏سیاسی قیادت میں طاقت کی لڑائی عوام کی فلاح و بہبود اور معاشی حالات کو مزید کمزور کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز نے آئین کے تحفظ کا ایک جیسا ہی حلف اٹھا رکھا ہے، آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق نہیں ہوتا اس لیے مناسب ہوتا ہے ہائی کورٹ کو معاملہ سننے دیا جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات ازخود نوٹس کیس چار تین کے تناسب سے مسترد کیا گیا، میں نے سماعت سے معذرت کی نہ ہی بینچ سے الگ ہونے کی کوئی وجہ تھی۔

سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ ججز اپنے فیصلوں میں غیرجانبداری اور شفافیت سے عزت کماتے ہیں، سیاسی نوعیت کے مقدمات میں عدالت کے انتظامی اور عدالتی اقدامات شفافیت پر مبنی ہونے چاہئیں اور کسی سیاسی فریق کو عدالتی عمل کی غیرجانبداری اور شفافیت پر شک نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے لکھا کہ میں بالخصوص پٹیشنز کے حتمی نتیجے کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کی رائے سے متفق ہوں اور از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا کیونکہ 27 فروری کو چائےکےکمرے میں اتفاق رائے ہوا کہ میں بینچ میں بیٹھوں گا جبکہ 23 فروری کی سماعت کے حکم میں جسٹس یحیٰی آفریدی کا الگ نوٹ بھی شامل تھا جنہوں نے ناقابل سماعت ہونےکی بنیاد پر ازخود نوٹس اور درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے واضح کیا کہ میں بینچ سے الگ ہوا نہ ہی اپنے مختصرنوٹ میں ایسی کوئی وجوہات دی تھیں، میں نے بھی اپنے نوٹ میں درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کے بارے میں بلا ہچکچاہٹ رائے دی، جسٹس منصور اور جسٹس مندوخیل کی تفصیلی وجوہات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم قانون کی رپورٹس سے فیصلوں کو نہیں مٹا سکتے لیکن کم از کم عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ماضی کو کسی حد تک بھلا دیا جائے، جب سیاست دان مناسب فورمز سے رجوع نہیں کرتے اور اپنے تنازعات کو عدالتوں میں لاتے ہیں تو سیاستدان تو جیت جاتے ہیں لیکن لامحالہ عدالت ہار جاتی ہے۔

چیف جسٹس کا ازخودنوٹس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے 22 فروری کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے انتخابات کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے پر ’وضاحت کا فقدان‘ ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی بینچ بھی تشکیل دیا تھا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

تاہم 27 فروری کو چیف جسٹس نے لارجر بینچ کو پانچ رکنی بینچ میں تقسیم کر دیا تھا، سپریم کورٹ نے ایک تحریری حکم بھی جاری کیا، جو 23 فروری کو عدالت میں اس وقت جاری کیا گیا جب جسٹس جمال مندوخیل نے آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی شروع کرنے پر اعتراض کیا تھا۔

نو ججوں کے دستخط شدہ بینچ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ 23 فروری کے حکم نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے چار ججوں کے اضافی نوٹ منسلک ہیں، چیف جسٹس کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ کے اٹھائے گئے سوالات کو شامل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے جواب میں چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل نو کرتے ہوئے اس میں اپنے ساتھ ساتھ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کو بینچ کا حصہ بنایا۔

یکم مارچ کو، سپریم کورٹ نے تین دو کے فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی کہ وہ پنجاب میں انتخابات کے لیے صدر عارف علوی اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے گورنر غلام علی سے مشاورت کرے۔