اسلام آباد میں ہندو میرج ایکٹ نافذ، ’اقلیتی افراد اپنی شادیاں مروجہ رسومات پر کرسکیں گے‘
اسلام آباد کی انتظامیہ نے ہندو میرج ایکٹ 2017 کے قواعد 5 سال سے بھی زائد عرصے کے بعد نوٹیفائی کردیے، جس کے نتیجے میں اقلیتی ارکان اپنی شادیاں مروجہ رسومات کے عین مطابق کر سکیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری ہندو میریج رولز 2023‘کے عنوان سے جاری نوٹیفکیشن کی بدولت پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی 2017 میں منظور ہونے والے ایکٹ کے نفاذ کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے۔
ڈان کو اسلام آباد انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت کے تمام یونین کونسلوں کو نوٹیفکیشن بھیج دیا گیا ہے تاکہ اس پر عمل درآمد ہو۔
قواعد کے مطابق اسلام آباد کی متعلقہ یوسیز ایک ’مہاراج‘ رجسٹر کریں گے جو شادیوں کے لیے ’پنڈت یا مہاراج‘ کا انتظام کریں گے، جو ہندو مذہب کی آگاہی رکھنے والا مرد ہوگا۔
مقامی پولیس کی جانب سے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کے حصول کے ساتھ ساتھ ہندو برادری کے کم ازکم 10 ارکان کی تحریری منظوری کے بعد ’مہاراج‘ کا تقرر ہوگا۔
مسلمانوں کے رجسٹرڈ نکاح خواں کی طرح یوسیز مہاراج کو’شادی پرت’ (شادی کا سرٹیفکیٹ) جاری کریں گی جو متعلقہ یوسیز میں شادی رجسٹر کرے گا، تمام شادیاں یونین کونسلز میں رجسٹرڈ ہوں گی۔
قواعد کے مطابق میریج ایکٹ کے تحت مقرر ’مہاراج‘ حکومت کی مقررہ فیس کے علاوہ شادی کے امور پر پیسے نہیں لے گا، ’مہاراج‘ کے انتقال یا اس کے لائسنس کی منسوخی کی صورت میں ان کے پاس رکھا ہوا ریکارڈ متعلقہ یوسیز میں جمع کرادیا جائے گا جو ان کے بعد مقرر ہونے والے کے سپرد کر دیا جائے گا۔
قواعد کا سیکشن 7 شادی کے خاتمے یا دوبارہ شادی سے متعلق ہے، قواعد میں اسلام آباد میں رہنے والے ہندو افراد کو شادی میں کسی تنازع کی صورت میں ویسٹ پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ 1964 کے تحت عدالت سے رجوع کرنے کی اجازت ہوگی۔
’اہم اقدام‘
قواعد کا ڈرافٹ تیار کرنے والے اسلام آباد انتظامیہ کے ضلعی اٹارنی محفوظ پراچا نے ڈان کو بتایا کہ اقلیتی برادری کا حق یقینی بنانے کے لیے نوٹیفکیشن ’اہم اقدام‘ تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا بھی ان قواعد کو اپنا سکتے ہیں۔
محفوظ پراچا نے کہا کہ ’سیاسی اور ٹیکنیکلی صوبوں کے لیے اسلام آباد میں نافذ کیا گیا قانون نافذ کرنا آسان ہے بجائے اس کے کہ ہر سطح پر نئی قانون سازی کی جائے۔
ہندو شادی کے قواعد کی منظوری کے لیے بنیادی کوششیں ’نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار منارٹی رائٹس‘ (این ایل ڈی) نے کی ہیں۔
این ایل ڈی کے رکن جے پرکاش کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں بڑی تعداد میں ہندو مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں اور یہ ضروری تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ مقامی برادری کے فائدے کے لیے اس قانون پر عمل درآمد کرتی۔
رپورٹ کے مطابق سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے سیکیورٹی خدشات کے باعث ہجرت کی وجہ سے اسلام آباد میں گزشتہ دہائی میں ہندو برادری کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔