پاکستان

لاپتا افراد کمیشن کو مارچ میں جبری گمشدگی کے 141 نئے کیسز موصول

کمیشن کے قیام سے 31 مارچ تک جبری طور پر گمشدہ افراد کے 9 ہزار 534 کیسز موصول ہوئے،جن میں سے 7 ہزار 164 نمٹا دیے گئے، رپورٹ
|

لاپتا افراد کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس صرف مارچ کے مہینے میں جبری گمشدگی کے 141 نئے کیسز درج کرائے گئے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ماہانہ پیش رفت رپورٹ کے مطابق کمیشن کے قیام سے 31 مارچ تک اسے جبری طور پر گمشدہ افراد کے مجموعی طور پر 9 ہزار 534 کیسز موصول ہوئے۔

ان 9 ہزار 534 میں سے رواں برس فروری تک 7 ہزار 105 کیسز نمٹائے جاچکے تھے۔

بعدازاں مارچ میں نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد 59 رہی یوں اب تک مجموعی طور پر 7 ہزار 164 کیسز نمٹائے جاچکے ہیں۔

مارچ میں نمٹائے گئے مقدمات کی تفصیل کے مطابق 59 میں 52 افراد کا سراغ لگایا گیا جبکہ 7 مقدمات جبری طور پر گمشدہ افراد کے نہ ہونے کی بنا پر خارج کردیے گئے۔

ان 52 کیسز میں 47 لاپتا افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے البتہ 3 افراد کی لاشیں ملیں، ان کے علاوہ 2 افراد جیل میں قید پائے گئے۔

رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کمیشن کے پاس اس وقت زیرالتوا مقدمات کی تعداد 2 ہزار 370 ہے۔

لاپتا افراد کا معاملہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ بہت سنگین ہے، ان افراد کے اہلِ خانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو جبری طور پر سیکیورٹی ادارے لے جاتے ہیں اور پھر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی متعدد مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھاتی اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر وزارت داخلہ نے 2011 میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں اس وقت کے آئی جی خیبرپختونخوا پر مشتمل 2 رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔

تاہم اب کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال ہی ہیں جبکہ اراکین میں جسٹس (ر) فضل الرحمٰن، ریٹائرڈ آئی جی کے پی محمد شریف ورک اور جسٹس (ر) ضیا پرویز شامل ہیں۔

جنوری 2019 میں حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا، جس کے تحت جو افراد، شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی پی) کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتا کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

اس سے قبل جولائی 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب 2021 میں قومی اسمبلی میں پیش کردہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا بل تاریخی قرار دیتے ہوئے سراہے جانے کے بعد تاحال التوا کا شکار ہے کیونکہ مجوزہ قانون کو جن قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے اس سے نکلنے کے بارے میں آئین خاموش ہے۔

اسلام آباد میں ہندو میرج ایکٹ نافذ، ’اقلیتی افراد اپنی شادیاں مروجہ رسومات پر کرسکیں گے‘

فرے منریک: ایک پرتگیز پادری کی سفرِ سندھ کی کتھا (دوسرا حصہ)

’سوشل میڈیا پر بیرونی اسپانسرڈ زہریلا پروپیگنڈا پھیلانے سے قومی سلامتی متاثر ہوئی‘