نقطہ نظر

سی پیک سیاحت: گلگت کی گلیوں میں (ساتویں قسط)

گلگت کی گلیاں پرسرار ہیں، یہاں کئی بار بھٹکنے کے بعد کہیں مطلوبہ راستہ ملتا ہے۔

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


شاہراہِ قراقرم پر دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں کا مقام اتصال اور اس کی یادگار آدھی رات کے اندھیرے میں گزر گئی اور ہم گلگت کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ ذرا سا اور آگے بڑھے ہوں گے کہ اسکردو موڑ آگیا۔ یہاں شاہراہِ قراقرم سے دائیں ہاتھ کو ایک پتلی سی سڑک الگ ہوکر نیچے گہرائی میں دریائے گلگت کی جانب جاتی نظر آئی۔

یہ سڑک کافی نیچے جاکر ایک آہنی پل پر سے دریا کو عبور کرتی ہے اور دوسری طرف کے بلند و بالا سنگلاخ پہاڑوں سے چمٹی ہوئی دائیں طرف چلی جاتی ہے اور ذرا آگے دریائے گلگت اور دریائے سندھ کے سنگم پر پہنچ کر بائیں سمت دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اس طرف مڑ جاتی ہے جہاں سے دریا آرہا ہے۔ یہ اسکردو روڈ ہے۔

اُن دنوں اس مقام سے اسکردو تک 7، 8 گھنٹے کا سفر ہوا کرتا تھا۔ اسکردو روڈ دنیا کی چند خطرناک ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔ یہاں دریائے سندھ کی راہگزر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان بہت تنگ ہے اور اسی تنگ جگہ میں سے اسکردو روڈ کو بھی گزارا گیا ہے۔ یہاں دریائے سندھ سڑک کے ساتھ ساتھ عمودی گہرائیوں میں گرجتا گونجتا جھاگ اڑاتا شور مچاتا بہتا ہے اور اسکردو روڈ پر گاڑیاں اس کے غیض و غضب سے بچتی بچاتی سہمتی سمٹتی آگے بڑھتی ہیں۔ یہاں سے اسکردو کا فاصلہ پونے 200 کلومیٹر ہے۔

اُس وقت تو آدھی رات ہو رہی تھی اس لیے دریائے گلگت پر معلق ’عالم پل‘ اور دریا پار جانے والی اسکردو روڈ، دونوں اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے، البتہ 2 سال بعد 1988ء میں اسی روڈ پر ایک ویگن میں اسکردو گیا تھا۔ اسکردو روڈ کی تنگی و اونچائی اور دریائے سندھ کی گہرائی و غضب ناکی سے بچتی بچاتی ویگن میں 7، 8 گھنٹے کا وہ تھکا دینے والا سفر کرکے جب میں شام کو اسکردو پہنچا تو یوں لگا جیسے اب یہاں سے واپس جانا ممکن ہی نہیں۔

اُس وقت کا اسکردو دنیا سے کٹا ہوا ایک خاموش اور پراسرار سا قصبہ تھا کہ جہاں مقامیوں کے علاوہ صرف غیر ملکی کوہ پیما ہی آیا کرتے تھے۔ یہیں سے وہ کے ٹو کی چوٹی سر کرنے، کنکورڈیا میں مارے مارے پھرنے اور خپلو، شگر اور کھرمنگ کی دور افتادہ دل فریب وادیوں میں بھٹکنے جاتے تھے۔ میں یہاں اپنے ایک دوست کے واقف کار سواتی تاجروں کے ڈیرے پر مہمان ٹھہرا۔ دن بھر میں اسکردو اور اس کے مضافات میں آوارہ گردی کرتا اور شام کو ڈیرے پر واپس پہنچ جاتا۔

ایک دن میں شنگریلا ہوٹل اور کچورہ جھیل دیکھنے کے لیے اسکردو سے نکلا اور پیدل ہی رواں دواں ہوگیا، حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ کچورہ جھیل اسکردو سے تقریباً 20 کلومیٹر دور ہے لیکن میں پھر بھی ویران سڑک پر خراماں خراماں چلتا رہا۔ خاصی دیر پیدل چلنے کے بعد ایک جگہ سستانے کے لیے رکا۔ میرا اندازہ تھا کہ 8، 10 کلومیٹر چل لیا ہوں گا۔ وہاں کھڑے ہوئے چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ اسکردو کی طرف سے ایک تیز رفتار سوزوکی پک اپ آئی اور میرے قریب آکر کھڑی ہوگئی۔ گاڑی میں فل والیوم پر کوئی فلمی گانا بج رہا تھا۔ ڈرائیور ایک نوجوان تھا۔ اس نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز کم کی اور بولا:

’کدھر جانا ہے بھائی جان؟‘

’شنگریلا‘ میں بولا۔

’وہ تو ابھی بہت دور ہے ۔ آپ گاڑی میں بیٹھو میں آپ کو اس کے قریب چھوڑ دوں گا۔‘

میں تو پیدل چلتے چلتے ویسے ہی تھک چکا تھا۔ جھٹ دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس نے ٹیپ ریکارڈر کا والیوم پھر فل کیا اور گاڑی شنگریلا کی طرف فراٹے بھرنے لگی۔

میری منزل سے 2، 3 کلومیٹر پہلے اسے ایک گاؤں کی طرف مڑ جانا تھا۔ اس نے مجھے سڑک پر اتارا اور سامنے والے پہاڑ کی طرف اشارہ کر کے بولا:

’شنگریلا ہوٹل اس پہاڑ کے نیچے ہے، زیادہ دور نہیں‘۔

میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر سڑک پر چل پڑا ۔ تھوڑی دیر میں میں اس پہاڑ کے قریب پہنچا۔ یہاں ایک کچی سڑک اوپر کی جانب جارہی تھی۔ میں اس پر چڑھنے لگا۔ تھوڑا سا ہی اوپر آیا ہوں گا کہ یکایک ایک دلکش و دلفریب منظر آنکھوں کے سامنے پھیل گیا۔ سبزے میں گھری ہوئی نیلگوں پانی کی ایک خوبصورت جھیل اور اس کے اطراف میں درختوں کے جھنڈ میں نیم پوشیدہ چینی طرز کی تکونی چھتوں والی خوبصورت عمارات جن کے پس منظر میں چھائے ہوئے بلند و بالا پہاڑ۔ یہ شمالی علاقوں کا مشہور و معروف شنگریلا ہوٹل تھا۔

شنگریلا ہوٹل ایئر مارشل اصغر خان کے بھائی بریگیڈیئر اسلم نے 1983ء میں قائم کیا تھا۔ اس کا نام ’شنگریلا‘ انگریز ناول نگار جیمز ہلٹن (James Hilton) کے مشہور ناول Lost Horizon سے لیا گیا ہے۔ یہ ناول ایک ایسے ہوائی جہاز کے مسافروں کی کہانی ہے جو نامعلوم بلند و بالا پہاڑی وادیوں میں گر جاتا ہے۔ اس کے زندہ بچ جانے والے مسافروں کو یہاں کچھ بدھ بھکشو مل جاتے ہیں جو انہیں ایک ایسی دل فریب جنت نما جگہ لے جاتے ہیں جہاں انہیں انواع و اقسام کی نعمتیں ملتی ہیں۔ اس جگہ کا نام ’شنگریلا‘ ہوتا ہے۔

بریگیڈیئر اسلم نے نہ صرف یہ کہ اپنے ہوٹل کا نام شنگریلا رکھا بلکہ ناول سے مزید مماثل کرنے کے لیے اوریئنٹ ایئر لائن کا ایک خراب جہاز بھی خرید کر یہاں لا کھڑا کیا۔ اس جہاز کے اندر میز کرسیاں لگا کر اسے ایک انوکھے ریسٹورنٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ بریگیڈیئر اسلم کا شنگریلا ہوٹل یا جیمز ہلٹن کی گمشدہ جنت میرے سامنے تھی۔

شنگریلا ایک مہنگا ہوٹل ہے۔ 1988ء میں جب کسی عام ہوٹل میں 100، 50 روپے کا کمرہ مل جاتا تھا، اس وقت شینگریلا میں کمرہ 3 ہزار روپے کا تھا۔ (آج کل 40، 50 ہزار روپے ہے غالباًً)۔ میں کچھ دیر یہاں گھومتا پھرتا رہا، جہاز کے ریسٹورنٹ میں جھانکا، جھیل کے گرد ایک چکر لگایا، البتہ کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس بھی نہیں توڑا اور چنانچہ صحیح سلامت واپس نکل آیا۔ شام گہری ہوگئی تھی اس لیے اسکردو واپسی کے لیے پیدل ایڈونچر کا خیال ترک کیا اور ایک لوکل پک اپ میں بیٹھ کر شہر واپس آگیا۔

گلگت سے اسکردو آتے ہوئے خطرناک روڈ پر سفر کے بعد اب اسلام آباد واپسی کے لیے دوبارہ اسی راستے پر واپس جانے سے ہول اٹھ رہا تھا، اس لیے میں نے پی آئی اے آفس جاکر اسلام آباد کے لیے اگلے دن کا ایئر ٹکٹ خرید لیا (جو غالبًا 300 روپے کا تھا)۔

اگلی صبح میں اسکردو ایئرپورٹ پر موجود دیگر مسافروں کے ساتھ اسلام آباد سے آنے والے جہاز کی آمد کا منتظر تھا۔ وقت آگیا، وقت گزرتا رہا اور بالآخر وقت گزر بھی گیا، مگر جہاز نہیں آیا۔ پہاڑوں کی برفانی چوٹیوں پر موسم خراب ہو جانے کے باعث آج کی فلائٹ معطل ہوچکی تھی۔ بکنگ آفس سے ہمیں ٹکٹ کے پیسے واپس کر دیے گئے اور ہم مایوس ہوکر شہر واپس آگئے۔ اگلے دن کی فلائٹ کا بھی کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ میں نے طوعاً و کرہاً بس اڈے پر جا کر گلگت کا ٹکٹ لے لیا اور ویگن کی اگلی سیٹ پر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔ 7، 8 گھنٹے کا خوفناک سفر ایک بار پھر میرا منتظر تھا۔

لیکن یہ تو میں نے 2 سال بعد کا قصہ سنا دیا۔ اِس وقت تو میں پہلی بار گلگت جارہا تھا اور یہ آدھی رات کا وقت تھا۔ اسکردو موڑ پیچھے رہ گیا تھا اور ہم دریائے گلگت کے ساتھ ساتھ پڑی بنگلہ کے ویران سے قصبے سے گزرتے ہوئے گلگت کی طرف بڑھ رہے تھے۔

گلگت شہر سے پہلے شاہراہِ قراقرم دائیں طرف مڑ گئی جہاں اسے دریا کو عبور کرکے دوسری طرف قراقرم کے پہاڑوں میں چلتے ہوئے وادی ہنزہ اور درّہ خنجراب سے ہوتے ہوئے چین کی طرف نکل جانا تھا۔ گلگت شہر شاہراہ قراقرم سے ذرا ہٹ کر آباد ہے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم گلگت شہر میں داخل ہوگئے۔ بس کسی اندھیرے اسٹاپ پر آکر رک گئی۔ اونگھتے جاگتے مسافر قدموں کو بس کے فرش پر مارتے دھپ دھپ کرتےنیچے اترنے لگے۔ بس میں سے اترنے والے سب سے آخری مسافر ہم 4 تھے۔ہمارے اترتے ہی بس بھی خدا جانے کہاں چلی گئی۔ رات کے 3 بج رہے تھے۔ سارے مقامی مسافر گلگت کی اندھیری گلیوں میں گم ہوگئے۔ ہم سڑک پر اکیلے کھڑے رہ گئے۔

سیاح کا کسی نئے مقام پر رات گئے پہنچنا عام طور پر پریشان کُن ہوتا ہے۔ ایک تو وہ علاقے سے واقف نہیں ہوتا، دوسرے ہوٹل وغیرہ بھی بند ملتے ہیں۔ چنانچہ وہ شدید کسمپرسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ گلگت میں بھی ہمارے ساتھ یہی ہوا۔ شاہراہِ قراقرم کے خوفناک پہاڑی راستے پر موڑ درموڑ گھومتی ہوئی بس میں سفر کرتے کرتے ہمارا دماغ ویسے ہی گھوم چکا تھا اور اب یہاں آدھی رات کو گلگت میں تھکن اور غنودگی سے لڑکھڑاتے باہر نکلے تو یہاں کوئی ہمارا منتظر نہ تھا۔ سارے مسافر اپنا اپنا سامان اٹھائے غائب ہوگئے اور ہم چاروں اپنے اپنے تھیلے لٹکائے ویران سڑک پر کھڑے ہوکر ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگے۔

یہ گلگت کی مرکزی سڑک ایئرپورٹ روڈ تھی مگر اس وقت یہاں ہو کا عالم تھا۔ کہیں کہیں کسی اسٹریٹ لائٹ کا پیلا بلب اپنی کمزور روشنی کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہوئے ماحول کو مزید پراسرار بنا رہا تھا۔ اس طرح چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ دور سے وسل کی آواز سنائی دی۔ غور کیا تو کچھ فاصلے پر ایک ہیولا ساحرکت کرتا نظر آیا۔ یہ رات کے گشت پر کوئی سپاہی تھا۔ ہم تیزی سے اس کی طرف لپکے۔

وہ سپاہی بڑا مدد گار ثابت ہوا۔ اس نے ہمیں ساتھ لیا اورکچھ دور پیدل چل کر ایک جدید خوبصورت عمارت کے سامنے پہنچ گیا۔ یہ گلگت کا معروف ’پارک ہوٹل‘ تھا۔ہوٹل کا مرکزی دروازہ بند تھا۔ پولیس والے کے بار بار کھٹکھٹانے پر دروازہ کھلا اور ہوٹل کا ایک ملازم آنکھیں ملتا ہوا باہر نکلا۔ ہمیں سامان لٹکائے دیکھ اس کے چہرے پر بیزاری آئی اور وہ منع کرکے پیچھے ہٹنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر سپاہی پر پڑی۔ وہ ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ سپاہی نے اسے اپنی زبان میں کچھ کہا تو اس نے شرافت کے ساتھ ہمارا سامان اٹھالیا۔

ہم نے سپاہی کا شکریہ ادا کیا اور ملازم کے ساتھ ہوٹل کی دوسری منزل پر ایک 4 بستروں والے سجے سجائے شاندار کمرے میں آگئے۔ ہوٹل کی عالیشان عمارت اور اس خوبصورت کمرے کا کرایہ سوچ کر ہماری نیند اڑ جانی چاہیے تھی مگر ہم اتنے تھکے ہوئے تھے کہ بستروں پر گرتے ہی انٹا غفیل ہوگئے۔

صبح سب سے پہلے میری آنکھ کھلی۔ میں سیڑھیوں سے اوپر ہوٹل کی چھت پر پہنچ گیا تاکہ ارد گرد کا جائزہ لوں۔ یہاں ایک بالکل مختلف ماحول تھا۔ ہوٹل کے چاروں طرف بلند و بالا خشک پہاڑ تھے اور ایک طرف ان خشک پہاڑوں کے پیچھے سے ایک خوبصورت برف پوش چوٹی بھی جھانک رہی تھی۔ میں نے جھٹ اسے ’کے ٹو‘ کا نام دیا اور خوش ہوگیا کہ کے ٹو بھی دیکھ لیا (حالانکہ اسے آج تک دیکھنا نصیب نہیں ہوا)۔

کچھ دیر میں سب دوست بیدار ہوگئے اور میں نے انہیں چھت پر بلا کر نام نہاد کے ٹو کی چوٹی دکھائی۔ اب سب سے پہلی فکر یہی دامن گیر ہوئی کہ ہوٹل کا کرایہ کیا ہوگا؟ ۔۔۔ خیر وہ بھی پتا چل گیا۔ 300 روپے تھا۔ ہم نے ناشتہ کیا اور سامان اٹھا کر ایک اور ہوٹل میں منتقل ہوگئے جس کا کرایہ 100 روپے تھا۔

اب ہماری گلگت کی اولین سیاحت کا آغاز ہوا۔ گلگت اپنے شاندار محل وقوع، اہم جغرافیائی حیثیت اور صدیوں پرانی تاریخ کے باعث دنیا کے منفرد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان کو چین سے ملانے والی عجوبہِ عالم سڑک شاہراہِ قراقرم کو رونق اور اہمیت بخشنے میں بھی گلگت کا کردار بنیادی ہے۔ شاہراہِ قراقرم کی تعمیر سے پہلے بھی یہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔ اس زمانے میں کہ جب پہاڑی ڈھلوانوں سے چمٹے ہوئے خطرناک اور دشوار گزار پگڈنڈی نما راستوں سے سفر کرکے تاجر دونوں اطراف سے گلگت پہنچتے تھے۔ یوں یہ چین اور ہندوستان کے درمیان ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ شاہراہ قراقرم کے تعمیر ہونے سے گلگت کو مزید ترقی ملی اور تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔

گلگت دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں کے مرکز میں واقع ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی چوٹیاں، کے ٹو، نانگا پربت اور راکاپوشی وغیرہ گلگت کے قرب وجوار میں سر اٹھائے کھڑی ہیں۔ دنیا بھر سے آنے والے کوہِ پیماؤں اور سیاحوں کے لیے گلگت ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے۔

گلگت کا قدیم نام سارگن تھا۔ پھر یہ ’گری گرت‘ کہلایا جس کا مطلب ہے ’پہاڑوں سے گرا ہوا‘، پھریہی لفظ زبان کے ردوبدل سے گلگت بن گیا۔ یہ شہر مختلف تہذیبوں کے زیرِ اثر رہا ہے۔ یہاں پائے جانے والے قدیم آثار بتاتے ہیں کہ 250 سال قبلِ مسیح میں یہ بدھ مت کا مسکن تھا اور پھر یہ اسلام کی آمد سے روشن ہوا۔ گلگت کی آبادی مختلف النسل لوگوں کا مجموعہ ہے۔

ان میں گلگت کے اصل باشندوں کے علاوہ گوجال، چترالی، بلتی، پٹھان، پنجابی، کاشغری، کرغیز، تاجک، ازبک، چینی، تبتی، لداخی، واخی، کوہستانی اور بلخی وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کی مقامی زبان شینا ہے مگری ہنزہ والوں کی بھی اکثریت ہے، اس لیے ان کی زبان بروشسکی اور گوجالی بھی کثرت سے بولی جاتی ہیں۔ کھوار بھی بولی جاتی ہے جوکہ چترال والوں کی زبان ہے۔

گلگت میں آمدورفت کے لیے صرف 2 ذرائع استعمال ہوسکتے ہیں۔ اسلام آباد سے بذریعہ ہوائی جہاز گلگت تک آیا جاسکتا ہے جس کا انحصار موسم کے ٹھیک ہونے پر ہوتا ہے۔ اگر مطلع صاف ہو تو روزانہ 3 اور کبھی کبھی 4 پروازیں بھی مسافروں کو لے آتی ہیں۔ لیکن موسم خراب ہو جائے تو کئی کئی دن فلائٹ نہیں ہو پاتی۔ دوسرا ذریعہ بسیں، ویگنیں اور جیپیں ہیں جو راولپنڈی سے چل کر شاہراہِ قراقرم کی خوفناک اونچائیوں اورخطرناک گہرائیوں سے کھیلتی ہوئی 18 گھنٹوں میں گلگت پہنچا دیتی ہیں۔

درّہ بابوسر کی سڑک تعمیر ہونے کے بعد یہ سفر 4، 5 گھنٹے کم تو ہوجاتا ہے مگر صرف گرمیوں کے موسم میں اور جب درّہ بابوسر کھلا ہو کیونکہ سردیوں میں جب بابوسر برف سے ڈھکا ہوتا ہے تو یہ راستہ بند رہتا ہے اور اکتوبر سے اپریل تک گاڑیاں اسی پرانی شاہراہ قراقرم سے بشام، داسو اور چلاس کے راستے گلگت پہنچتی ہیں۔ برسات کے دنوں میں شاہراہ قراقرم پر لینڈ سلائڈ ہوجائے تو گلگت سے زمینی رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور سفر کا واحد ذریعہ ہوائی جہاز ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسے دنوں میں خدا نخواستہ موسم خراب ہوجانے سے پروازیں بھی بند ہوجائیں تو گلگت دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ بن کر رہ جاتا ہے۔

گلگت کی سرگرمیوں کا مرکز ایئرپورٹ روڈ ہے۔ اس کے اطراف میں چھوٹے بڑے کئی بازار، ہوٹل، بیکریاں، ڈرائی فروٹ شاپس اور ملکی و غیر ملکی خصوصاً چینی سازوسامان کی دکانیں سٹرک کی رونق ہیں۔ گلگت قدیم تجارتی مرکز ہے۔ چین اور ہندوستان کے درمیان تجارت کے لیے گلگت کو صدیوں سے مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور جب سے ہندوستان کی جگہ پاکستان نے لی ہے تو خصوصاً شاہراہِ قراقرم بننے کے بعد اس تجارت کو مزید فروغ ملا ہے۔

گلگت دین اسلام سے پہلے مختلف مذاہب کا گہوارہ رہا ہے۔ 250 سال قبل مسیح میں گلگت بدھ مت کے زیراثر تھا۔ اس دور کی یادگار مہاتما بدھ کے وہ چٹانی مجسمے ہیں جو آج بھی گلگت میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ 8ویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد سے گلگت ایک مہذب دور میں داخل ہوا۔ اُس ابتدا اور اِس انتہا کے درمیان مختلف دور آئے۔ ڈوگرہ راج نے پہلے اکیلے اور پھر انگریزوں کے ساتھ مل کر حکومت کی، پھر انہیں مسلمانوں نے بھگا دیا۔ اب یہ پاکستان میں شامل ہے اور ملک کا ایک اہم شہر ہے۔

ایئرپورٹ روڈ بڑی دور تک چلتی چلی جاتی ہے اوربالآخر ایک جگہ دو شاخوں میں تقسیم ہو کر راجا بازار اور جماعت خانہ بازار میں بٹ جاتی ہے۔ راجا بازار اور جماعت خانہ بازار گلگت کی روایتی زندگی کے عکاس ہیں۔ ہنزہ کی مخصوص کڑھائی والی زنانہ ٹوپیاں، شالیں، سمور کی واسکٹیں، گول حلقوں والی مردانہ ٹوپیاں، دھاتی زیورات، چینی پی کیپ اور خشک میوے سیاحوں کے لیے خاص کشش رکھتے ہیں۔ جبکہ پھل، سبزیاں، کریانہ، دوائیں، لالٹینیں، گھڑیاں، ریڈیو، ٹیپ اور ٹی وی وغیرہ مقامی آبادی کے لیے مخصوص ہیں (1986ء میں یہ سب چیزیں اہم تھیں)۔ ہم ایئرپورٹ روڈ پر چلتے ہوئے جماعت خانہ بازار میں پہنچے اور وہاں سے ایک گلی کے راستے جنرل پوسٹ آفس کے پہلو سے نکل کر راجا بازار میں داخل ہوگئے۔

گلگت کی گلیاں پرسرار ہیں۔ کئی بار بھٹکنے کے بعد کہیں جاکر مطلوبہ راستہ ملتا ہے۔ ہمیں راجس بازار کے اردگرد پھیلے ہوئے مکانات کی چھتوں پر سے جھانکتا ہوا ایک پل کا بلند محرابی دروازہ بار بار نظر آرہا تھا۔ ہم اس پل تک جانا چاہتے تھے مگر راستہ نہیں مل رہا تھا۔ خاصی دیر تک بھٹک کر ایک گلی میں داخل ہوئے تو وہ پل اچانک سامنے آگیا۔ ہم اشتیاق سے بھرے اس قدیم پل کی طرف بڑھے اور اس کے عظیم محرابی دروازے سے گزر کر، اس کے رسوں کے ذریعے لٹکتے ہوئے طویل، تختہ در تختہ، چوبی وجود کے عین اوپر پہنچ گئے۔ اس پل کے بارے میں بھی یہاں ایک بات مشہور ہے، جی ہاں آپ سمجھ گئے، یہ ایشیا کا طویل ترین معلق پل ہے۔

ہم پل کے عین درمیان میں کھڑے ہوگئے۔ پل کے نیچے دریائے گلگت کا شور مچاتا پانی نئی منزلوں کی طرف بہے چلے جارہا تھا۔ دریا جب شہر کے قریب پہنچتا ہے تو اپنے وسیع پاٹ کو صرف اس کی پل کی خاطر سمیٹ کر کم کرلیتا ہے اورشرافت کے ساتھ گلگت شہرمیں سے گزر جاتا ہے۔ جب بھی کوئی جیپ یا ٹریکٹرپل پر سے گزرتا ہے تو یہ اپنے پورے وجود سے ہلتا ایک سانس لیتا ہوا پل بن جاتا ہے۔ یہ پل دریا کے دوسرے کنارے پر پہاڑ کے دامن میں موجود چھوٹی سی آبادی کو گلگت سے ملاتا ہے۔ پل کے نیچے سبزی اور پھلوں کے باغات دریا کے پہلو بہ پہلو دور تک چلتے چلے گئے ہیں۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔