مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی حملے سے تشدد بڑھنے کا خطرہ ہے، عرب لیگ
عرب لیگ نے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد الاقصی پر اسرائیلی پولیس کے چھاپے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے علاقائی استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی پولیس کے حملے کے بعد صورتحال پر غور کے لیے ہنگامی عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں مسجدالاقصیٰ پراسرائیلی فورسز کے حملوں کی مذمت کی گئی۔
سعودی خبر رساں ادارے کے مطابق اردن نے مصر اور فلسطینی حکام کے ساتھ مل کر تنظیم کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی۔
اردن کی وزارت خارجہ نے کہا کہ عرب لیگ کی جانب سے اسرائیلی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کوششیں جاری ہیں اوریہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کی کارروائیوں کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق عرب لیگ نے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد الاقصی پر اسرائیلی فورسز کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پرتشدد کارروائیوں سے علاقائی استحکام کو خطرہ ہے۔
مسجد الاقصی میں نہتے نمازیوں کے خلاف اسرائیلی قابض افواج کی کارروائیوں کو جرائم قرار دیتے ہوئے عرب لیگ نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ علی الصبح مسجد پر حملے سے تشدد کی لہر اٹھنے کا خطرہ ہے، جس سے خطے اور دنیا میں سلامتی اور استحکام کو خطرہ ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس نے بدھ کوعلی الصبح مسجد اقصیٰ کے احاطے میں درجنوں نمازیوں پر حملہ کیا، خلیج تعاون کونسل نے اسرائیلی فورسز کی مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر حملے کی مذمت کی ہے۔
جی سی سی کے سیکریٹری جنرل جاسم محمد البداوی نے کہا کہ اس کارروائی سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور یہ مذہبی مقامات کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی اور بین الاقوامی قانون کی مسلسل خلاف ورزیاں کشیدگی میں اضافے کا سبب ہیں اور ایک خطرناک سمت کی نشان دہی کرتی ہیں کہ اسرائیل اس تمام صورت حال کے سنگین نتائج کا ذمہ دار ہے۔
ترکیہ نے مسجدالاقصیٰ پر اسرائیلی فورسز کے حملے اور اس کے اندر ہونے والی جھڑپوں کی مذمت کرتے ہوئے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسجد کے تقدس کی پامالی ہیں۔
ترک وزیرخارجہ مولود چاوش اوغلو نے برسلز میں نیٹو کے اجلاس کے موقع پرکہا کہ ہم ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ یہ صورت حال ”شدت پسندوں“ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جو ہتھیاروں اور پتھروں کے ساتھ مسجد کے اندر موجود تھے۔
قبل ازیں اسرائیلی پولیس نے بدھ کے روز طلوع آفتاب سے قبل مسجد اقصیٰ کے احاطے میں درجنوں نمازیوں پر حملہ کرنے کے بعد 350 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔
پولیس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق پولیس نے کہا کہ انہوں نے مسجد کے اندر سے 350 سے زائد افراد کو گرفتار کر کے باہر نکالا ہے جنہوں نے پرتشدد رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ گرفتار ہونے والوں میں نقاب پوش افراد، پتھر پھینکنے اور آتش بازی کرنے والے اور مسجد کی بے حرمتی کرنے والے افراد شامل ہیں۔
اسرائیلی پولیس نے فجر سے قبل مسجد اقصیٰ کے احاطے میں درجنوں نمازیوں پر حملہ کیا جسے اسرائیلی پولیس نے ’فسادات کا ردعمل‘ قرار دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ کے مطابق اس واقعے کے ردعمل میں مقبوضہ مغربی کنارے میں شدید احتجاج دیکھنے میں آیا، اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ جنوبی قصبوں میں سائرن بجنے کے بعد غزہ سے اسرائیل کی جانب 9 راکٹ فائر کیے گئے۔
مقبوضہ مغربی کنارے اور یروشلم میں گزشتہ ایک سال کے دوران تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور رواں ماہ کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان، یہودیوں کا مذہبی تہوار ’پاس اوور‘ اور مسیحیوں کا تہوار ’ایسٹر‘ لگ بھگ ایک ساتھ منایا جارہا ہے۔
فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسرائیلی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ربڑ کی گولیاں داغے جانے اور تشدد سے 7 فلسطینی زخمی ہوئے جبکہ اسرائیلی فورسز اس کے طبی عملے کو مسجد اقصیٰ جانے سے روک رہی ہیں۔
مسجد کے باہر موجود ایک بزرگ خاتون نے خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کو روتے ہوئے بتایا کہ ’میں ایک کرسی پر بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی کہ انہوں نے اسٹن گرینیڈ پھینکے اور ان میں سے ایک میرے سینے پر بھی لگا‘۔
اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ آتش بازی، لاٹھیوں اور پتھروں سے لیس نقاب پوش مشتعل افراد کی مسجد میں موجودگی کے سبب انہیں مجبوراً مسجد کے کمپاؤنڈ میں داخل ہونا پڑا۔
مسجد اقصیٰ کے احاطے میں حالیہ چند برسوں کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، اس احاطے کو یہودیوں کے لیے ’ٹمپل ماؤنٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فلسطینی گروہوں کی جانب سے نمازیوں پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی گئی ہے جنہوں نے اسے جرم قرار دیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے کہا کہ ’ہم مقدس مقامات پر حدود کی پاسداری نہ کرنے والوں کو خبردار کرتے ہیں، یہ اقدام ایک بڑے دھماکے کو جنم دے گا‘۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے مسجد میں ہونے والے تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضروری ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں کشیدگی کو کم کریں۔
اسرائیلی حکام نے کہا کہ الاقصیٰ مسجد پر تشدد کے پہلے واقعے کے بعد غزہ سے اسرائیل پر کم از کم 9 راکٹ فائر کیے گئے، انہوں نے الزام لگایا گیا کہ فلسطینی گروہ اس فعل کے ذمہ دار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے جوابی فضائی حملوں میں فلسطینی گروپ حماس کے لیے ہتھیاروں کی تیاری کے مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔
غزہ کی سرحد کے دونوں جانب سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے، حماس نے راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن کہا کہ یہ حملے الاقصیٰ پر حملے کا ردعمل تھا۔
کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ
مشرق وسطیٰ امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر ے کہا کہ “تمام فریقوں کے رہنماؤں کو ذمہ داری سے کام کرنا چاہیے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو کشیدگی بڑھا سکتے ہیں۔
سفارت کاروں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور چین نے اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل سے بند دروازوں کے پیچھے صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کا کہا۔متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ “نمازیوں کو مسجد اور عبادت گاہوں کے اندر ہتھیاروں اور دھماکا خیز مواد لے کر محصور نہیں ہونا چاہئے۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا کہ مسجد الاقصیٰ کے احاطے پر اسرائیلی جارحیت فلسطینیوں کے اپنے مقدس مقام میں آزادی سے عبادت کرنے کے بنیادی حق پر سنگین حملہ ہے۔