کیماڑی میں 18 اموات خسرہ نہیں زہریلی گیسوں کے باعث ہوئیں، میڈیکل بورڈ
کیماڑی میں 18 افراد کی اموات کی وجوہات جاننے کے لیے محکمہ صحت کی جانب سے تشکیل دیا گیا میڈیکل بورڈ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ قریبی غیر قانونی صنعتی علاقے سے زہریلی گیسوں کا اخراج ان اموات کی بڑی وجہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پوسٹ مارٹم، ہسٹوپیتھولوجی، ٹاکسیکولوجی اور وائرولوجی رپورٹس کے نتائج کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا جس کے لیے متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی ہدایت پر بورڈ نے 8 لاشیں بھی نکالی گئی تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ موت کا طریقہ غیر فطری تھا اور خسرہ جیسے عوامل موت کی وجہ میں کم کردار ادا کرتے ہیں‘۔
5 اور 31 جنوری کے درمیان کیماڑی کے علی محمد گوٹھ میں مختلف عمر کے 18 لوگوں کی اموات کی اطلاع ملی تھی جن میں زیادہ تر دو سے چار سال کی عمر کے بچے تھے۔
یکم فروری کو صوبائی حکومت نے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر نسیم احمد کو اس کا سربراہ مقرر کیا تھا، دیگر اراکین میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر مخدوم پرویز احمد، سول اسپتال کراچی کے ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلو اور پولیس سرجن سمعیہ سید شامل تھے۔
بورڈ نے اس امکان کو مسترد کر دیا کہ متاثرین کی موت خسرہ سے ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’علاقے میں خسرہ کا کوئی طبی کیس نہیں تھا تاہم مثبت سیرولوجی علاقے میں ویکسینیشن کی سخت مہم کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‘
بورڈ ممبران نے انکوائری کے عمل کے دوران بعض مشکلات اور رکاوٹوں کی بھی شکایت کی۔
بورڈ کے اراکین نے صنعتی سرگرمیاں بند ہونے کے بعد علاقے کا دورہ کیا لہذا ہوا کے نمونے حاصل کرنا اور ممکنہ خطرناک زہریلی گیسوں کا حصول ممکن نہیں تھا جو 26 جنوری کو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی ٹیم کی جانب سے بتایا گیا تھا۔
بورڈ نے ڈی ایچ او کیماڑی اور ان کے عملے کو انکوائری کے دوران ان کے عدم تعاون کے رویے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
ساتھ ہی مستقبل میں اس طرح کے سانحے سے بچنے کے لیے میڈیکل بورڈ نے رہائشی علاقے سے تمام صنعتی سرگرمیوں کو فوری طور پر روکنے/پابندی/ہٹانے سے لے کر رہائشیوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے فوری منصوبہ بندی جیسی بہت سی سفارشات تجویز کی ہیں۔
دیگر سفارشات میں ڈسپنسری/موبائل ہیلتھ کیئر سہولت کی فراہمی اور غذائی بحالی پروگرام کے ذریعے غذائی قلت کے شکار بچوں کی غذائی حالت کو بہتر بنانا شامل ہے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں بنیادی ڈھانچے اور اسکولوں کی ترقی اور خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ جگہوں کی فراہمی وغیرہ کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادہ تر اموات 5 جنوری کو اس علاقے میں ایک فیکٹری کے کام کرنے کے بعد ہوئیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پلاسٹک جلانے والی فیکٹری بند ہونے کے بعد اموات رک گئیں۔
حتمی انکوائری رپورٹ میں صنعتی تجزیاتی مرکز جامعہ کراچی کی مٹی کے نمونوں کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں ’چاروں نمونوں میں ہائیڈرو کاربن، فیتھلیٹس (پلاسٹکائزرز)، پولی سائکلک آرومیٹک ہائیڈرو کاربن، ایسٹرز، آکسیرین اور ڈائی آکسولن کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا‘۔