تحریک انصاف کا سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے والے وزرا کے خلاف نااہلی ریفرنس بھیجنے کا اعلان
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہوزیراعطم سمیت جن وزرا نے اس اجلاس میں شرکت کی جس کے اعلامیے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کیا گیا، ان سب وزرا کے خلاف آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت الیکشن کمیشن پاکستان کو ریفرنس بھجوا رہے ہیں۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ انتخابات تاخیر کیس میں جس طرح سے سپریم کورٹ نے آئین کا دفاع اور تحفظ کیا ہے، اس پر ہم اس کو سلام پیش کرتے ہیں، آج نماز تراویح کے بعد پورا پاکستان اظہار تشکر کے لیے باہر نکلے گا اور آئین و سپریم کورٹ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ آج پانچویں دن چیف جسٹس ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں، چیف جسٹس کے خلاف جس طرح کی گھٹیا مہم چلائی گئی، چیف جسٹس نے اس کی پروا کیے بغیر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا، پورا پاکستان چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کرے گا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کیبنٹ میٹنگ ہوئی جس میں کہا گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کا مطلب پاکستان کے آئین سے بغاوت کرنا ہے اور انارکی پھیلانا ہے، ہم نے ان وزرا کی تفصیلات طلب کی ہیں جنہوں نے اس اجلاس میں شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعطم سمیت جن وزرا نے اس اجلاس میں شرکت کی جس کا اعلامیہ یہ آیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، اگر انہوں نے آئندہ بارہ گھنٹوں تک یعنی آج رات تک اپنے اس اعلامیے سے اظہار لا تعلقی نہیں کیا تو ان سب وزرا کے خلاف ہم آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت الیکشن کمیشن پاکستان کو ریفرنس بھجوا رہے ہیں کہ انہیں ڈی سیٹ کیا جائے کیونکہ یہ آرٹیکل ٹو اے، آرٹیکل 68 اور آئین کی بنیادی شقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیونکہ انہوں نے نظریہ پاکستان کے خلاف جا کر یہ کام کیا ہے ، پاکستان کا نظریہ آرٹیکل ٹو اے میں بیان کیا گیاہے، اس کے دو حصے ہیں پہلا حصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدار اعلیٰ اللہ کی ذات ہے اور اس کے اختیارات منتخب نمائندے استعمال کریں گے، جن لوگوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کیا ہے، انہوں نے نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی کی ہے، لہذا ان کو ڈی سیٹ کیا جائے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بطور پارٹی رکنیت منسوخی کے لیے درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ایک مفرور شخص لندن سے بیٹھ کر عملی طور پر پارٹی کو چلا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کل بھی نواز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ فیصلے کے اوپر تین ججز کے خلاف ریفرنس فائل کیا جائے، کبھی کیس کے اوپر فیصلے کی بنیاد پر بھی ججپر ریفرنس فائل کیا جاسکتا ہے، سیشن جج روزانہ قتل کے مجرموں کو سزا سناتے ہیں، اپیل میں وہ سزا ختم ہوجاتی ہے تو کیا اس جج کو سزائے موت دی جاتی ہے کہ اس نے غلط فیصلہ دیا، یہ ایک بنیادی چیز ہے اور ان بے وقوف لوگوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ کبھی کسی جج کے اوپر کسی فیصلے کی بنیاد پر ریفرنس فائل نہیں کیا جا سکتا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف کی پارٹی جو اس وقت عملی طور پر ایک مفرور مجرم کے ہاتھوں یرغمال ہے، یہ الیکشن ایکٹ اور آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے، اس لیے ہم اس جماعت کی منسوخی کے لیے کارروائی شروع کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں جو ٹائم لائن دی ہے، اس کے مطابق کام ہوگا، اگر اس مقررہ وقت سے ادھر ادھر ہوں گے تو پھر توہین عدالت کے تحت نا اہلی ہوسکتی ہے اور وزیراعظم، ان کی کابینہ کے لوگ 3 سال کے لیے جیل بھی جا سکتے ہیں، یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے برخواست ہونے تک سزا ہوئی تھی لیکن اگر سپریم کورٹ چاہے تو شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے وہ لوگ جو اس اجلاس میں شریک تھے، جس میں کہا گیا کہ فیصلے کو نہیں مانتے، وہ 3 سال کے لیے جیل بھی جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان کی نا اہلی کے لیے درخواست دائر کریں گے اور اگر وہ ٹائم لائن پر عمل نہیں کرتے تو ہم سپریم کورٹ سے درخواست کریں گے کہ ان کو نا اہل کرنا کافی نہیں، انہیں جیل میں بھی ڈالا جائے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کا نام لیں تو یہ حکمران ایسے بھاگتے ہیں جیسے کالا چور چوری کے بعد بھاگتا ہے، اگر ان حکمرانوں کو ڈرانا ہو تو ان کے کمروں میں آواز لگادیں کہ الیکشن آ گئے ہیں تو یہ اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، سیاسی جماعتیں ایسے کیسے کام کرسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں شہباز شریف کو کہتا ہوں کہ مریم نواز آپ کے خلاف ایسے ہی سازش کر رہی ہے جیسے کہ آصف زرداری نے یوسف گیلانی کے خلاف کی، اب مریم نواز شہباز شریف کو نا اہل کروا کر اپنا راستہ صاف کرنا چاہتی ہے، یہ ان کے مشوروں پر عمل نہ کریں، آُپ اپنا دماغ استعمال کریں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں تمام اداروں کے اپنے اختیارات ہیں، حکومت کے پاس اختیار نہیں کہ وہ کہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرے، عدلیہ کے فیصلے پر اعتراض ہے تو نظر ثانی کی اپیل کرسکتی ہے، مریم نواز اور عرفان قادر جیسے لوگوں کے مشوروں پر چلیں گے تو اپنے آپ کو ڈبوئیں گے، آپ نے 5 سال کے لیے نا اہل ہونا ہے اور پھر نہیں لگتا کہ آُپ سیاست میں واپس آسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح میں کابینہ ارکان کو کہوں گا کہ بلاول بھٹو سیانے نکلے کہ اس دن اجلاس میں شریک نہیں تھے، شیریں رحمٰن بھی شریک نہیں تھیں، اس لیے باقی ارکان بھی اپنا خیال کریں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز حکومتی اتحاد نے واضح طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جس میں پنجاب میں انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس کے دوران سپریم کورٹ کے فیصلے کو واضح طور پر مسترد کر دیا گیا تھا، ساتھ ہی سپریم ایگزیکٹو باڈی نے اپنی قانونی ٹیم کو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو واپس لینے کے طریقے تلاش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
کابینہ اجلاس کے بعد اس ضمن میں قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم نے مجھے اور اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانونی رائے دینے کی ہدایت کی ہے جس نے ملک کے عدالتی نظام کی نفی کردی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے فیصلہ ملک میں آئینی اور سیاسی بحران کو مزید گہرا کرے گا۔
وزیر قانون نے مزید کہا تھا کہ ہمیں فیصلے پر تحفظات ہیں اور ہماری قانونی ٹیم مشاورت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرے گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ حکومت ملک بھر میں بیک وقت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات چاہتی ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں جب کہ آرٹیکل 254 کے مطابق کسی غیر معمولی صورتحال کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔