لاہور ہائیکورٹ: مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور سینئر صدر مریم نواز کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست خارج کردی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سینئر نائب صدر مسلم لیگ(ن) مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے اپیل پر سماعت کی۔
مقامی وکیل شاہد رانا نے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی لیکن سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ متعلقہ فورم سپریم کورٹ ہے جس سے رجوع کرنا چاہتا ہوں۔
درخواست گزار کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ سے اپیل کی درخواست واپس لے لی اور اسی بنیاد پر دو رکنی بینچ نے درخواست خارج کر دی۔
درخواست گزار نے درخواست میں کہا تھا کہ مریم نواز نے سرگودھا میں منعقدہ جلسے میں عدلیہ کی توہین کی۔
خیال رہے کہ 2 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر رانا شاہد کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ مریم نواز نے نیوزکانفرنس میں عدلیہ کی توہین کی اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے درخواست دائر کی لیکن سنگل بینچ نے مسترد کردیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سنگل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
قبل ازیں گزشتہ ماہ کے اوائل میں لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کنندہ کی مریم نواز اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان نے سماعت کی تھی جب کہ ایڈووکیٹ شاہد رانا نے عدالت میں مؤقف اپنایا تھا کہ کوئی بھی معاملہ ہو، میں اسے سنجیدہ لیتا ہوں، مریم نواز نے سرگودھا میں تقریر کی اور یہ معاملہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، مریم نواز نے چھ مواقع پر توہین عدالت کی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ درخواست میں نے اپنی مشہوری کے لیے نہیں کی، مجھے مشہوری کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہمیں توہین عدالت کے قانون پر عملدرآمد کروانا ہوگا، پاکستان کوئی بنانا ری پبلک نہیں ہے۔
درخواست گزار ایڈووکیٹ شاہد رانا نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ مدعا علیہ نے سرگودھا میں حالیہ جلسہ عام کے دوران اپنی تقریر میں عدالت عظمیٰ کے ججز کے خلاف ’توہین آمیز‘ الفاظ استعمال کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام ٹیلی ویژن چینلز اور پرنٹ میڈیا نے مدعا علیہ کی تقریر نشر کی۔
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ مریم نواز نے آئین کے آرٹیکل 204 (2) (بی) اور توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے آرٹیکل 2 (سی) کے تحت عدالت کی توہین کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ جج یا عدالت کی مبینہ بدانتظامی کا پرچار نہیں کر سکتیں لیکن آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کر کے صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل کو مطلع کر سکتی ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت عدالیہ مریم نواز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرے۔
لاہور ہائی کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد مریم نواز، اعظم نذیر تارڑ سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی تھی۔
واضح رہے کہ 23 فروری کو سرگودھا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’2014 میں جب عمران خان کا دھرنا ناکام ہوگیا اور پھر لاک ڈاؤن ناکام ہوا تو دوسرا طریقہ اپناتے ہوئے عدلیہ سے یہ جج اٹھائے، جو بھی کمپرومائزڈ اور کرپٹ جج تھا چاہے وہ کھوسہ ہو، ثاقب نثار ہو یا عظمت سعید ہو‘۔
مریم نواز نے کہا تھا کہ ’جب نواز شریف کو نااہل کیا جارہا تھا تو ایک جج بھی اس میں شامل تھا اور اس کو 5 برس گزر چکے ہیں مگر آج بھی اگر نواز شریف کے خلاف کوئی کیس آتا ہے تو وہ اس میں شامل ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کندھوں سے عمران خان کو اتار کر پھینک دیا تو یہ ٹوکرا آج ان دو تین ججز نے اٹھا لیا ہے‘۔
مریم نواز نے کہا تھا کہ ’آج جب عمران خان کا لانگ مارچ ناکام ہوا، اسمبلیوں سے باہر آنا پڑا، اس کو استعفے دینے پڑے اور اس کی ہر چیز ناکام ہوئی تو اس کو واپس لانے کا بیڑا ان دو ججوں نے اٹھالیا ہے‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ آج جب عمران خان کی سیاسی موت نظر آرہی ہے تو اس کی سیاسی موت کو زندگی دینے کے لیے دو جج پھر میدان میں آگئے ہیں، یہ فیض کی باقیات ہیں جو آج بھی کہیں بیٹھ کر آپریٹ کر رہا ہے’۔
مریم نواز نے کہا تھا کہ ’چیف جسٹس صاحب، سرگودھا کے عوام کو پتا ہے کہ بینچ فکسنگ ہو رہی ہے، آپ کو کیوں نہیں پتا کہ بینچ فکسنگ ہو رہی ہے‘۔