نقطہ نظر

پنجاب کے انتخابات: ایک ہفتے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران عدالت میں کیا کچھ ہوا؟

سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے لیکن جب عدالت خود اپنے فیصلے سرکلر کے ذریعے اڑا کر رکھ دے تو عمل ہوگا یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

آئین نے تمام اداروں کے اختیارات کی ایک اسکیم واضح کی ہے جس کے تحت کوئی ادارہ کسی اور ادارے میں نہ مداخلت کر سکتا ہے اور نہ اس کی اجازت ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام اسی کو کرنا ہے، سپریم کورٹ کا کام حکومت نہیں کرسکتی اور پارلیمنٹ کا کام سپریم کورٹ کو کرنے کی اجازت نہیں۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کا مقدمہ آئینی اور قانونی لحاظ سے اپنی جگہ پر ایک سیاسی مقدمہ تھا۔اس لیے ایک جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سیاسی عروج کے دور میں عدالتوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یکم مارچ کو سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ وہ حکم تھا یا نہیں تھا، سپریم کورٹ گزشتہ سماعت تک اس میں الجھی رہی۔ 27 مارچ کو شروع ہونے والی سماعت یکم مارچ کے مقدمے کا تسلسل تھی۔ اس معاملے پر کُل 6 سماعتیں ہوئیں اور فیصلہ بھی ہوچکا اب فیصلہ پر عملدرآمد کا انتظار ہے۔

الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے حکم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں 5 ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا۔ کسی مقدمے میں سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل اہم ہوتی ہے، حالیہ دنوں میں اس حوالے سے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی آبزرویشن اور فیصلے بھی آئے ہیں۔ بینچ کی تشکیل سے مقدمہ سننے والی عدالت کے موڈ کا پتا لگانا اس لیے آسان بن چکا ہے کہ کورٹ کے اندر اور باہر کے حالات ہی کچھ اس طرح کے ہیں کہ فیصلہ آنے سے پہلے فیصلے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ انصاف کے سب سے بڑے ادارے کو ایک یا دوسری جماعت نے سیاست میں دھکیل دیا ہے، اب وہ تاثر زائل ہی نہیں ہوتا۔ گزشتہ برس جس جماعت نے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا اب وہ جماعت چیف جسٹس کی حامی ہے اور اُس وقت کی حامی جماعت اب سپریم کورٹ کی سب سے بڑی ناقد ہے۔ یہ تاثر ادارے کے سربراہ مکمل انصاف سے ہی زائل کرسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کا جو بینچ پنجاب کے انتخابات کا مقدمہ سن رہا تھا اس میں چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے، پہلے دن یعنی 27 مارچ کو مختصر سماعت ہوئی اور تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر سے عدالت نے پہلا سوال یہ کیا کہ الیکشن کمیشن نے جو نئی تاریخ 8 اکتوبر مقرر کی ہے وہ کس طرح غلط ہے؟

تحریک انصاف فوری انتخابات چاہتی ہے۔ اس کے وکیل نے عدالت میں الیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور آئینی ادارے کو غیر آئینی اقدامات کرنے کا مرتکب قرار دے ڈالا۔ اس سماعت کے دوران سب سے اہم سوال جسٹس جمال مندوخیل نے اٹھایا کہ پہلے یہ واضح کیا جائے کہ سپریم کورٹ کے کون سے فیصلے کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ یہ سوال سپریم کورٹ کے اندرونی اختلافات کی نشاندہی پر مبنی تھا۔

جج صاحب نے فرمایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا اختیار ہائیکورٹ کو بھی ہے۔گویا جسٹس مندوخیل اپنے ان الفاظ میں واضح تھے کہ یکم مارچ کا کون سا فیصلہ درست ہے؟ اور اس مقدمے پر یہی سوال حاوی رہا۔ اس کا جواب پھر اس کے بارے میں فیصلہ بھی غیر واضح رہا۔ اس سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل کے ساتھ چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر ایک صفحے پر تھے، جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی الیکشن کمیشن کو سی سی پی او کیس میں حکم دیے بیٹھے تھے، جسٹس جمال خان مندوخیل کے اس سوال پر کبھی جج تو کبھی روسٹرم پر کھڑے تحریک انصاف کے وکیل ایک سی وضاحت کررہے تھے۔

بیرسٹر علی ظفر یکم مارچ کے فیصلے پر فرما رہے تھے کہ 3 ججوں کا فیصلہ فیلڈ میں ہے، اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے اپنے ساتھی جج کو ہی وضاحت دی کہ عدالت کا ایک ہی فیصلہ ہے، ایسا نہیں کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے آئے ہیں، ایک ہی فیصلہ ہے جس پر 5 ججوں کے دستخط موجود ہیں۔

اس پہلی سماعت کا اختتام الیکشن کمیشن کے نوٹس اور جواب طلبی پر ہوا کہ انتخابات کی تاریخ میں توسیع کس قانون کے تحت دی گئی ہے۔ لیکن اسی دن 2 ججوں کے تفصیلی اختلافی نوٹ نے پھر عدالتی معاملات کو الجھن میں ڈال دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ یکم مارچ کو پنجاب کے انتخابات کے حوالے سے جو فیصلہ آیا تھا اس بینچ میں موجود 2 ججوں، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے تفصیلی اختلافی نوٹ کو 2 اور ججز کے فیصلے کے تسلسل کے طور پر اکثریتی فیصلہ قرار دے کر جاری کردیا۔

اس فیصلے میں دنوں جج صاحبان نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کا یکم مارچ کا اکثریتی فیصلہ وہ ہے جو 4 ججوں نے تحریر کیا۔ چار ججوں میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں اور چاروں ججوں نے اس مقدمے کو خارج کیا تھا۔ اس اختلافی فیصلے میں قرار دیا گیا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار آئین اور قانون کے مطابق طے ہوتا ہے کسی جج کی خواہش یا مفاد کے تحت یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہوگا تو ہم شاہانہ یا سامراجی سپریم کورٹ کی طرف چلے جائیں گے۔

اسی نوٹ میں لکھا گیا کہ اگر سپریم کورٹ ایک سیاسی ادارہ بن گیا تو عوام کا اعتماد کھو دیں گے۔ چیف جسٹس کے بینچز کی تشکیل اور ازخود نوٹس کے اختیارات کو بھی اس فیصلے میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے لکھا کہ یہ فیصلہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا تسلسل ہے، اس اختلافی فیصلے سے یہ تاثر عام ہوگیا اور ایک جماعت کو چھوڑ کر باقی تمام جماعتوں نے مان لیا کہ یکم مارچ کے فیصلے میں 7 ججوں میں سے 4 ججوں نے انتخابی درخواستوں کو مسترد کردیا اور 3 ججوں کا فیصلہ اقلیتی ہے، یہ ایسا نکتہ تھا جس میں ججوں اور وکلا کے مابین سوال جواب ہوتے رہے۔

منگل کے دن بھی 5 ججوں پر مشتمل بینچ نے سماعت کی جس میں الیکشن کمیشن سے خوب سوالات ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی انٹری بھی اسی دن ہوئی انہوں نے استدعا کہ وہ اس اہم مقدمے میں فریق بننا چاہتے ہیں اور ہم اس حوالے سے درخواست فائل کر رہے ہیں، ایک دن پہلے پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم نے اس مقدمے میں فریق بننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ عثمان منصور بھی بطور اٹارنی جنرل پہلی سماعت میں پیش ہوئے جس کو بینچ کی طرف سے خوش آمدید کہا گیا۔

اٹارنی جنرل نے پہلی دلیل ہی یکم مارچ کے فیصلے کے حوالے سے دی کہ پہلے یہ تعین ہو کہ یکم مارچ کا کون سا فیصلہ درست ہے۔ 3 ججوں کا فیصلہ مانا جائے یا 4 ججوں کا؟ یہ معاملہ پہلے حل ہو تو آگے بڑھا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ 2 ججوں نے ایک رائے دی ہے، فیصلہ اکثریت کا ہوتا ہے۔ آپ اس کی بات نہ کریں وہ معاملہ ہم بعد میں دیکھ لیں گے۔

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تو عدالت نے اسے مسترد کردیا۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس مندوخیل اس بینچ کا حصہ تھے جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال پوچھا کہ صدر مملکت نے جو 30 مارچ کی تاریخ دی ہے کیا وہ آئینی اعتبار سے 90 دنوں کے اندر آتی ہے؟ مطلب اگر آئین 90 دن میں انتخابات کی بات کرتا ہے تو صدر کی دی ہوئی تاریخ تو 90 دن کے بعد کی ہے۔

جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن اور چیف جسٹس الیکشن کمیشن کی دی گئی نئی تاریخ سے پہلی سماعت سے غیر مطمئن تھے اور ان کے سوالات اسی دائرے میں گھومتے رہے کہ کس قانون کے تحت تاریخ دی گئی، کیوں دی گئی، اس تاریخ کو کیا ہوگا؟ جسٹس جمال خان اور جسٹس امین الدین الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات پر اپنی آبزرویشن دے رہے تھے۔ چیف جسٹس نے فنڈز کے معاملہ پر ججوں کی تنخواہ میں کٹوتی کی بھی تجویز دی، یہ سماعت اس اہم آبزرویشن پر ختم ہوئی کی صرف ایمرجنسی میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں اور یہ کہ انتخابات تو دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی ہوئے تھے۔

اس سماعت میں باقی معاملات تو انتخابات کی تاریخ دینے، الیکشن کمیشن کے اختیارات، الیکشن قوانین کی حد تک تھے لیکن سیاسی جماعتوں کو تلقین بھی ہوتی رہی۔ اسی دن سینئیر وکیل عرفان قادر کی انٹری ہوئی، انہوں نے عدالت کو اپنے مخصوص تلخ لہجے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے وہ پیش ہونا چاہتے ہیں جس پر عدالت کی طرف سے انہیں بتایا گیا کہ پہلے کمیشن کی طرف سے سجیل سواتی پیش ہوتے رہے ہیں، ’ٹھیک ہے پھر میں چلا جاتا ہوں‘ یہ کہہ کر عرفان قادر عدالتی کمرے سے باہر نکل گئے اور پیچھے سے ان کی استعفے کی خبر آگئی، وہ وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے۔

بینچ میں موجود جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایک دن پہلے دی ہوئی اپنی آبزرویشن پر وضاحت دے کر یکم مارچ کے فیصلے پر بھاری بھرکم قانونی سوال اٹھا دیا۔ جج صاحب نے ایک دن پہلے یہ فرمایا تھا کہ یکم مارچ کا فیصلہ کتنے ججز کا ہے وہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے اسے ہم خود دیکھ لیں گے۔ اس پر چیف جسٹس بھی خوش ہوئے کہ بڑا اندرونی خطرہ ٹل چکا ہے لیکن اس سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے یہ کہتے ہوئے پورے بینچ اور مقدمے کو ہلاکر رکھا دیا کہ یکم مارچ کو جب کوئی فیصلہ ہی نہیں آیا تو صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ کیسے دی ہے؟ وہ بولے الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول کیسے جاری کیا؟ اور بغیر کسی فیصلے کے الیکشن کمیشن باقی تمام تر کارروائی کیسے کرسکتا ہے؟

جسٹس مندوخیل کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے تمام درخواستوں کو 4 جج مسترد کرچکے ہیں تو صدر انتخابات کی تاریخ کیسے دے سکتے ہیں؟ انہوں نے اپنے چیف جسٹس کو سماعت کے دوران چیلنج کردیا کہ یکم مارچ کا وہ آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے جس پر تمام ججز کے دستخط ہوں۔

اس دن چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ بات سمجھ میں آچکی تھی الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کی جو تاریخ مقرر کی ہے اس کے پیچھے کیا منطق ہے اس لیے بار بار وہ یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ 8 اکتوبر ہی کیوں، چیف جسٹس نے یہاں تک کہا کہ کیا 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل سے عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ کمیشن نے تمام تر صورتحال کا جائزہ لے کر 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔ لیکن عدالت کے اکثر جج ان دلائل سے غیر مطمئن تھے۔

اسی دن سپریم کورٹ کا ایک اور بڑا فیصلہ آگیا اور حقیقی معنیٰ میں چیف جسٹس کو ایک اور دریا کا سامنے تھا۔ ابھی تک یہ بحث زوروں پر تھی کہ یکم مارچ کا کون سا فیصلہ اکثریتی اور کون سان اقلیتی ہے کہ اسی دوران ایک فیصلہ آگیا یہ ازخود نوٹس کی کارروائی کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے سینئیر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین ججزپر مشتمل بینچ کا فیصلہ تھا جو 2-1 جج کی اکثریت سے جاری ہوا تھا۔ یہ فیصلہ اصل میں 15 مارچ کا تھا لیکن جاری 29 مارچ کو ہوا۔

اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جب تک قواعد نہیں بنتے تب تک ازخود نوٹس، عوامی اہمیت کے حامل معاملات اور آئین کی شق 184 (3) کے تحت چلنے والے تمام مقدمات کی کارروائی روکی جائے۔ یہ عدالتی فرمان تھا جیسے باقی فیصلے ہوتے ہیں۔ انتخابات کا مقدمہ سننے والے 5 ججوں پر مشتمل بینچ میں موجود جج جسٹس امین الدین کے بھی اس فیصلے پر دستخط تھے۔ اب تک تو یوں ہوتا چلا آیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عدالت تو من و عن عمل کرتی ہے لیکن اس بار یہ نہیں ہوا، اس بار عدالت نے اپنے فیصلے کو نظرانداز ہی نہیں بلکہ غیر مؤثر کر دیا۔

اس دن کی سماعت مقررہ وقت سے آدھا گھنٹے دیر سے شروع ہوئی۔ عدالت نے گزشتہ دن ساڑھے 11 تک سماعت ملتوی کی جب سماعت اس وقت شروع نہیں ہوئی تو عدالتی عملے نے آگاہ کردیا کہ اب سماعت کا وقت 12 بجے مقرر کیا گیا ہے، لیکن یہ شک و شبہات موجود تھےکہ اس مقدمے کا کیا بنے گا۔ اس بینچ میں ایک وہ جج بھی شامل ہے جنہوں نے عوامی مفادات کے مقدمات روکنے کا حکم دیا تھا۔ آیا وہ جج بینچ میں ہوں گے یا نہیں ہوں گے، ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ 5 ججوں پر مشتمل بینچ کی عدالتی کمرے میں آمد ہوئی اور ججوں کے بیٹھنے کے بعد وکلا کے دلائل سے پہلے ہی چیف جسٹس نے فرمایا کہ ہمارے ایک جج امین الدین خان کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

اس کے بعد جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیا ہے اس کے باجود ساتھی جج یہ مقدمہ سننا چاہتے ہیں، لیکن میں یہ مقدمہ سننے سے معذرت کرتا ہوں۔ ایک جج کی معذرت کے بعد روایتی انداز میں سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا۔ چیف جسٹس نے یہ اعلان کیا لیکن آرڈر نہیں لکھوایا اور جج اپنی نشستوں سے اٹھ کر چیمبرز میں چلے گئے۔ عدالتی کمرہ ججوں سے خالی ہوگیا۔ اب انتظار رہا کہ نیا بینچ کب بنتا ہے، یہ عام روایت ہے کہ اگر ایسا موقع آتا ہے تو بینچ کے سربراہ عدالت کے اندر آرڈر لکھواتے اور پھر جاری کرواتے ہیں لیکن ایسا نہ کرنے سے اگلے دن ایک اور تنازع سامنے آگیا۔

یہ سماعت بغیر کارروائی کے ختم ہوگئی، فاروق نائیک نے اس صورتحال کو آئینی بحران سے تشبیہ دی، ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پہلے سیاسی بحران موجود تھا اب آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے، اس کا حل سیاسی جماعتیں نکال سکتی ہیں، اگر سیاسی جماعتیں آپس میں نہیں بیٹھیں گی تو ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔

جسٹس امین الدین ایک دن قبل بینچ سے الگ ہوئے اور اب 5 کی جگہ 4 جج عدالتی کمرے میں آئے۔ اس دن بھی وہی ہوا جو ایک دن پہلے ہو چکا تھا یعنی 4 ججوں کا بینچ بھی ٹوٹ گیا۔ وہ صرف اس لیے ہوا کہ بینچ کے ٹوٹنے کا آرڈر عدالتی کمرے میں نہیں لکھوایا گیا تھا۔ عدالتی مشق تو یہ ہے کہ اگر اس طرح کوئی بینچ ٹوٹتا ہے تو وہ آرڈر اسی وقت ڈکٹیٹ کروایا جاتا ہے، لیکن اب کی بار یہ آرڈر چیمبر سے لکھوایا گیا اور شاید شام کو دیر سے آیا۔ اس آرڈر میں لکھا گیا کہ چونکہ جسٹس امین الدین خان نے یہ مقدمہ سننے سے معذرت کردی ہے، اس لیے اب نیا 4 ججوں پر مشتمل بینچ اس مقدمے کی سماعت کرے گا۔

31 مارچ کو سماعت جیسے ہی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے لیکن بینچ کے اندر بڑا تنازع تھا جو اس وقت سامنے آیا جب چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روکتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ بظاہر جسٹس جمال خان مندوخیل کے الفاظ سادہ تھے لیکن عدالتی سربراہ پر عدم اعتماد کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں کل بھی بات کرنا چاہتا تھا لیکن جج صاحبان میرے بات کرنے سے پہلے اٹھ کر چلے گئے۔ بینچ ٹوٹنے کا آرڈر عدالت میں نہیں لکھوایا گیا اور نہ آرڈر پر مجھے سے کوئی مشاورت ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے مشاورت کو ضروری نہیں سمجھا گیا اس لیے میں بینچ میں مس فٹ ہوں۔

جسٹس مندوخیل نے کہا مجھ سمیت 15 کے 15 ججز قانون کے پابند ہیں اللہ اس ادارے کی خیر کرے اور یہ بینچ ایسا فیصلہ دے جو سب کو قبول ہو۔ چیف جسٹس کو ان کی بات ناگوار گزری اس لیے شکریہ کہہ کر انہوں نے جسٹس مندوخیل کو خاموش کروانے کی کوشش کی۔ اسی دوران ججوں نے کرسیاں چھوڑ دیں۔ مطلب یہ کہ اختلاف رائے رکھنے والے معزز جج کو بات مکمل کرنے نہیں دی گئی۔ جب کہ سیاسی جماعتوں کو آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کرنے کی ہدایات جاری کی جارہی تھیں۔

ایک ہی مقدمے میں دو بار بینچ کا ٹوٹنا بھی غیر معمولی واقعہ ہے، لیکن اب کی بار چیف جسٹس نے اسی دن بینچ کے باقی ججوں کو مقدمہ سننے پر قائل کرکے پیغام پہنچا دیا کہ جو جج رہ گئے ہیں وہی مقدمہ سنیں گے۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا، اکثر یوں ہوتا ہے کہ جتنے جج پہلی سماعت کرتے ہیں بینچ ٹوٹنے کے بعد ان کی تعداد کے برابر ججوں کو بینچ میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ یہ تاثر ملے کہ تمام جج ایک حیثیت اور اہمیت کے حامل ہیں لیکن یہاں جو جج بینچ سے نکلتا گیا اس کو وہیں چھوڑ کر بینچ آگے بڑھتا گیا۔ یکم مارچ والے مقدمے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے اس دن جمعے کی نماز سے پہلے ہی ایسا تین رکنی فولادی بینچ بنا دیا جس کا کوئی توڑ بھی نہیں، گزشتہ سوا سال میں سپریم کورٹ کے بیشتر سیاسی مقدمات ان کے حوالے رہے ہیں، یا وہی چیف جسٹس کے ساتھ ان مقدمات کی سماعت کرتے رہے ہیں اور چیف جسٹس سے مکمل اتفاق کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ان ججوں کو ’ہم خیال جج‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

لیکن سماعت سے پہلے اس سرکلر کا ذکر ضروری ہے جس نے عدالتی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے۔ عدالتی فیصلے پر رجسٹرار کا انتظامی حکم نامہ حاوی ہوگیا اور انتظامی فیصلے نے عدالتی فیصلے کو مات دے دی۔ 3 ججوں پر مشتمل بینچ کی سماعت سے پہلے سپریم کورٹ نے ایک سرکلر جاری کیا جوکہ رجسٹرار کے دستخط سے جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عدالتی فیصلے کو غیر مؤثر کردیا گیا تھا۔

رجسٹرار کے جاری کردہ سرکلر کے ذریعے واضح کیا گیا کہ زیر التوا انتخابات کے مقدمے سمیت اس عدالت کے کسی بینچ پر جسٹس قاضی فائز کا فیصلہ اثرانداز نہیں ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ کا آرڈر تھا دوسری طرف رجسٹرار کا سرکلر تھا۔ یوں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی عدالت کا فیصلہ اپنی وقعت، اثر، اہمیت سب کچھ کھو بیٹھا۔ جب بھری عدالت میں اس سرکلر پر اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیا آپ اس سرکلر کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں؟ وہ ہمارا انتظامی معاملہ ہے۔ یہ انتظامی معاملے کے ذریعے عدالتی فیصلے کو غیر مؤثر کرنے کا اعتراف تھا جو چیف جسٹس کر رہے تھے۔

چیف جسٹس نے فل کورٹ کی استدعا پر بھی اپنی وضاحت دی کہ چونکہ کبھی کبھی جج نہیں ہوتے تو فل کورٹ نہیں بن سکتا۔

چیف جسٹس نے تسلیم کیا کہ جسٹس مظاہر کو بینچ میں بٹھانا کسی کو پیغام دینا تھا، جج پیغام دیتے اور لیتے ہیں، یہ بات پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ اس دن سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کو دیے جانے والے فنڈز اور سیکیورٹی کے امور پر بات ہوئی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکومتی اتحاد کی جماعتوں کے وکلا کا موقف بھی سنیں گے۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل کرواکر چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع اور خزانہ کو پیر کے دن عدالت طلب کرلیا۔

3 اپریل کی سماعت کے لیے پہلے ہی اندازہ تھا کہ عدالت میں آج بہت کچھ ہونے والا ہے، کیونکہ ایک دن پہلے حکومت میں شامل جماعتیں 3 ججوں کے اس بینچ کو مسترد کرنے کا اعلان کر چکی تھیں کہ ان پر اعتراض اٹھایا جائے گا۔ میڈیا میں یہ خبر چل چکی تھی کہ بینچ کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس بات کو چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر نے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لیا۔ معزز جج اکثر و بیشتر یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ ہم میڈیا کا اثر نہیں لیتے لیکن اس سماعت میں جوں ہی عدالت کی نظر فاروق ایچ نائیک پر پڑی تو جج صاحبان نے فرمایا کہ آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ آپ کی جماعتوں نے تو اس بینچ کا بائیکاٹ کیا ہے جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ انہوں نے بائیکاٹ نہیں کیا۔ مسلم لیگ نواز کے وکیل اکرم شیخ نے بھی کہا کہ وہ عدالت کے سامنے ہیں تو اس کا مطلب عدالت پر اعتماد کرنا ہے۔

جج صاحبان نے حکومتی جماعتوں کے وکلا سے کہا کہ یہ لکھ کر دیں کہ بائیکاٹ ختم کرکے آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے وکلا سے سیاسی زبان میں ہی بات ہو رہی تھی، جسٹس منیب اختر نے تو مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی بھی بات کی اور اس اعلامیے کی بات کی جو سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری ہوا ہے۔ یہ سوال کیا گیا کہ وہ اعلامیہ واپس لیا گیا یا نہیں؟

سماعت کے دوران سیکیورٹی کی بات ہوئی تو چیف جسٹس نے نیوی اور ایئر فورس کے ساتھ ریٹائرڈ فوجیوں کی ڈیوٹی پولنگ اسٹیشنز پر لگانے کی تجویز دی۔ تحریک انصاف کے وکیل بھی کچھ ایسی ہی تجویز دے چکے تھے۔ اس دن الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اور جج صاحبان کے درمیان کافی گرماگرم بحث ہوئی جب عرفان قادر نے کہا کہ اگر آپ یہ ذہن بنا کر ہی بیٹھ گئے ہیں کہ تاریخ آپ نے دینی ہے، انتخابات آپ نے ہی کروانے ہے تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ سینیئر وکیل اکرم شیخ نےتو یہاں تک کہہ دیا کہ میں اس عدالت میں مزید تذلیل نہیں کروانا چاہتا اگر مجھ سے دلائل نہیں سنے جاتے تو کیا میں آرٹیکل لکھوں؟

یہ بڑا دن تھا، سیکیورٹی معاملات پر سیکریٹری دفاع نے ان کیمرا بریفنگ دینے کی استدعا کی مگر وہ رد کردی گئی، اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کی پھر سے استدعا کی لیکن نہیں مانی گئی، وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکریٹری سے مالی معاملات پر سوال ہوئے، اسد عمر اپنی جماعت کے وکیل کی موجودگی کے باوجود عدالت کو مالی معاملات سمجھاتے رہے اور جج صاحبان تسلی سے سنتے رہے، دوسری طرف حکومتی جماعتوں کے وکلا کو یہ کہہ کر سننے سے انکار کیا گیا کہ آپ کی جماعتوں نے اس بینچ کا بائیکاٹ کردیا ہے اس لیے آپ کو نہیں سنا جائے گا۔

اس دن بھی بینچ یکم مارچ کے فیصلے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے، عدالتی فیصلے کو سرکلر کے ذریعے ختم کرنے والے معاملات میں الجھتا رہا اور وضاحتیں دیتا رہا۔ آخر میں سیکریٹری دفاع کو یہ حکم دے کر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا کہ سیکیورٹی کی صورتحال پر اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دیں۔

فیصلے کے دن 11 بجے وزیر داخلہ سپریم کورٹ پہنچے اور ایمرجنسی کی آئینی شق کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ وزیر قانون پولیس سے لڑتے بھڑتے سپریم کورٹ پہنچے۔ ساڑھے 12 بجے 3 جج صاحبان عدالتی کمرے میں براجمان ہوئے۔

اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن، سیکریٹری دفاع و خزانہ کے تمام مؤقف اور دلائل ایک طرف کرتے ہوئے عدالت نے یکم مارچ کا اپنا وہ فیصلہ بحال کردیا جس کے لیے اب بھی ابہام ہے کہ وہ 3 ججوں کا فیصلہ ہے یا 4 کا۔ اور سپریم کورٹ نے الیکشن شیڈول میں ترمیم کرکے پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو کروانے کا حکم جاری کردیا۔

وفاقی کابینہ نے عدالتی فیصلہ مسترد کردیا ہے، عدالت خود تقسیم ہے جس کا اندازہ صرف جج صاحبان کے اختلافی نوٹس سے ہی نہیں عدالت کے فیصلوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ قوم کا کوئی پرسان حال نہیں، ادارے اپنی اپنی کمزور پچ پر کام کر رہے ہیں یا کھیل رہے ہیں کوئی پتا نہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے لیکن یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب عدالت خود اپنے فیصلے سرکلر کے ذریعے اڑا کر رکھ دے تو عمل ہوگا یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ابراہیم کنبھر

مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔