اگر پارلیمان میں آمریت تسلیم نہیں کرتے تو عدالت میں بھی نہیں کریں گے، بلاول بھٹو
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر ہم پارلیمان سمیت ملک میں کہیں اور آمریت کو تسلیم نہیں کرتے تو سپریم کورٹ میں بھی کسی کی آمریت کو تسلیم نہیں کرتے۔
نوڈیرو میں سابق وزیراعظم شہید ذولفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کارکنان جیل میں گئے، سابق صدر آصف علی زرداری کو 2005 تک جیل میں رکھا گیا جس پر آج تک ہمیں انصاف نہیں دیا گیا اور نہ ہی معافی مانگی گئی۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایک بار جنرل جنرل (ر) پرویز مشرف نے معافی مانگنے کی کوشش کی تھی، اس نے ایک دفعہ غلطی تسلیم کرنے کی کوشش کی تھی کہ شہید بے نظیر بھٹو کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے تھے اور اس نے یہاں تک کہا کہ جب میں نے آصف علی زرداری کی فائل نکالی تو پھر پتا چلا کہ کون سے بے کار مقدمات میں یہ آدمی گیارہ برس جیل میں رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے معافی تو مانگی لیکن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے وہ معافی اڑا دی، پھر پورے ملک میں این آر او کا شور مچنا شروع ہوگیا اسی طرح افتخار چوہدری نے عدلیہ کے لیے تاریخ قائم کی کہ پاکستانی عدلیہ کو فوجی حکومت پر اعتراض ہے مگر ان کی ایک حد ہے کہ ایک فوجی حکومت کو برداشت کریں گے دوسرے کو نہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جب ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوئی اور چیف جسٹس کو نکالا گیا تو پھر ان کو خیال آیا کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے اور ہم نے اس چیف جسٹس کو ہیرو بناکر پاکستان کی عدلیہ کو تباہ کردیا اور اس وقت سے پاکستان کی عدلیہ میں آمرانہ سوچ قائم ہے جہاں عدلیہ ون مین ون شو پر چل رہی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ہم پارلیمان سمیت ملک میں کہیں اور آمریت کو تسلیم نہیں کرتے تو سپریم کورٹ میں بھی کسی کی آمریت کو تسلیم نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ افتخار چوہدری کو مشرف نے ہٹایا جس کو ہم نے بحال کیا مگر اس کو غدار اور آئین شکن مشرف نظر نہیں آیا لیکن آصف زرداری اور میمو گیٹ نظر آیا، مشرف کو آئین توڑنے کی سزا نہیں دی لیکن یوسف رضا گیلانی کو آئین نہ توڑنے پرگھر بھیج دیا۔
وزیر خارجہ نے کارکنان سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ تو ہر جبر اور ظلم برداشت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سویلین سپرمیسی اور جمہوریت کو بچانا چاہتے ہیں، ادارے اور سپریم کورٹ کو بچانا چاہتے ہیں لیکن اب سپریم کورٹ کو سپریم کورٹ سے کون بچائے گا، اب اعلیٰ عدلیہ کو اپنے آپ کو بچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھی مسئلے آئے ہیں لیکن اس طرح پہلے کبھی واضح طور پر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا جہاں باقی ججز تین ججز کے خلاف اعتراضات اٹھا رہے ہیں، ہم نے بہت کچھ برداشت کیا ہے لیکن میرا خیال نہیں کہ پاکستان کے عوام مزید برداشت کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم کیسے جواب دے سکتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں چیف جسٹس چاہیں تو ڈیم بنا سکتے ہیں اور اس پر ازخود نوٹس لے سکتے ہیں جس کی سزا سے بچنے کے لیے کہتے ہیں کہ چیف جسٹس ڈیم فنڈ میں پیسے جمع کریں تو معاف کریں گے ورنہ نہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریک انصاف کی مہم چلائی تھی، اگر 2018 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو سابق اسٹیبلشمنٹ نے بھی دھاندلی کرائی تو سابق سپریم کورٹ نے بھی دھاندلی کرائی۔
انہوں نے کہا کہ ایک الیکشن میں عمران خان کے لیے دھاندلی کرائی گئی مگر کسی اور الیکشن میں ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے، یہ فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے کہ اس کا حکمران کون بنے گا، کسی جج کا کام نہیں کہ ایسا فیصلہ کرے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جب سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور سینیٹر کی اکثریت ہمارے حق میں تھی تو اس معاملے پر عدالت نے کہا کہ یہ پارلیمان کا کام ہے ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن جب تخت لاہور کا سوال آیا تو کسی سے وعدہ پورا کرنے کے لیے آئین شکنی کرائی گئی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے پنجاب حکومت چھین کر غیرآئینی طریقے سے پرویز الہٰی کو دی گئی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس غیرآئینی فیصلے کے نتیجے میں پاکستان آئینی بحران میں ہے، ہمارے اتحادیوں کا اعتراض ہے کہ اس وقت جو قوم کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک کو اس بحران سے نکالنے، آئینی بحران کو روکنے اور جمہوریت کو خطرے سے بچانے کے لیے عدالت کو صرف اتنا ہی کرنا ہے کہ لارجر بینچ تشکیل دیں اور پوری عدالت کو بٹھائیں سوائے ان دو ججز کے جو اپوزیشن سے فون پر بات کرتے ہوئے پکڑے گئے اور پوری عدالت کل ہی انتخابات کا فیصلہ کرے تو پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم انتخابات کے لیے کل بھی تیار تھے آج بھی تیار ہیں لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ عدالت اور جمہوریت کو بچائیں، آئینی بحران سے نکالیں اور فل کورٹ تشکیل دیں جس کے فیصلے کو پورا پاکستان تسلیم کرے گا، اگر کوئی بدنیتی نہیں ہے تو بتایا جائے اس مطالبے میں مسئلہ کیا ہے۔