ریپ سے متعلق ’انتہائی نامناسب‘ بیان دینے پر نبیل گبول کو شدید تنقید کا سامنا
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول کی جانب سے خواتین سے متعلق نامناسب گفتگو اور تبصرہ کرنے پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارٹی سےبرطرف کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
نبیل گبول کے اس بیان پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی بہن بختاور بھٹو زرداری، مصنفہ فاطمہ بھٹو، انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل نگہت داد اور دیگر نے مذمت کرتے ہوئے بیان کو ’گهناؤنا‘ اور ’قابل نفرت‘ قرار دے دیا۔
نامور یوٹیوبر شہزاد غیاث کے یوٹیوب چینل ’دی پاکستان ایکسپیریئنس‘ میں نبیل گبول کا انٹرویو 2 جنوری کو شیئر کیا گیا جس میں پاکستانی سیاست اور حالات پر گفتگو کی گئی۔
اس دوران میزبان نے نبیل گبول سے سوال پوچھا کہ ’کیا یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ہم سیاست دانوں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن اپنی ضرورت کے لئے انہیں اثاثہ بنایا جاتا ہے، اور جب ضرورت ختم ہوجاتی ہے تو انہی کے خلاف آپریشن شروع ہوجاتے ہیں، جس طرح ہم نے مشرف کے دور میں دیکھا کہ طویل عرصے تک جن لوگوں کو پناہ دی گئی تھی انہی کے خلاف آپریشن ہوا اور نہ کسی نے آواز اٹھائی اور نہ ہی احتجاج کیا۔‘
اس سوال کے جواب میں نبیل گبول نے ریپ اور جنسی استحصال سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’ اگر متاثرہ خاتون کو پتا ہے کہ اس کا ریپ ہونے والا ہے، بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو پھر اس صورت میں متاثرہ خاتون کو بھی اس صورتحال سے لطف اندوز ہونا چاہیے‘۔
جب میزبان نے اس کہاوت کی تردید کی تو نبیل گبول نے دعویٰ کیا کہ ’ حقیقت میں یہ کہاوت ہے’۔
انہوں نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ پر اتنی مجبوری ہے کہ آپ زیادتی کو برداشت کرسکتے ہیں، اگر آپ کے اندر برداشت کرنے کی قوت ہے، تو اس سے لطف اندوز ہوں اور اگر آپ کے اندر غیرت ہے تو آپ کھڑے رہیں اور برداشت نہ کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم برداشت کرتے ہیں تب ہی ہمیں استعمال کیا جاتا ہے، آپ دوسروں کے ہاتھوں استعمال کیسے ہوتے ہیں؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ کسی کے ساتھ زبردستی ہورہی ہے ، آپ کے ساتھ اگر زبردستی ہورہی ہے تو اپنی آواز بلند کریں، کھڑے رہیں، زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا ؟ آپ کو جیل میں ڈال دیا جائے گا ۔’
نبیل گبول کی جانب سے انتہائی نامناسب بیان دینے پر انہیں سوشل میڈیا صارفین اور پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
مصنفہ فاطمہ بھٹو نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’یہ بے ہودگی ہے، نبیل گبول نے سندھ حکومت کی مجرمانہ ذہنیت کو بے نقاب کر دیا ہے، انہوں نے لیاری کے لیے (جن کی وہ نمائندگی کرتےہیں) کچھ نہیں کیا، اور جس طرح وہ تشدد اور زبردستی کی بات کرتے ہوئے ہنس رہے ہیں، یہ انتہائی ہولناک بات ہے‘۔
سینیٹر اینی ماری نے لکھا کہ ’اگر کوئی شک ہے تو پیپلزپارٹی نبیل گبول یا پارٹی کےکسی دوسرے رکن کے غلط بیانات کی حمایت یا تائید نہیں کرتی، ایسے نامناسب بیانات قابل مذمت ہیں، پیپلزپارٹی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کھڑی ہے اور پاکستان کی واحد ترقی پسند جماعت ہے۔
بختاور بھٹو زرداری نے بھی مائیکروبلاگنگ سائٹ پرسینیٹر کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ ان کی جانب سے (قابل نفرت) بیان ان کی اپنی نمائندگی کرتا ہے، ان کے بیان سے ہماری پارٹی کا کوئی تعلق نہیں، ہم واضح طور پر خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے کھڑے ہیں، خواتین سے نفرت کرنے والوں کی ہمارے مذہب اور جماعت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل نگہت داد کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتوں کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ سیاستدان جن کے پاس عہدہ اور اثر و رسوخ ہے وہ اپنے الفاظ اور اعمال کے لیے جوابدہ ہوں، یہ شخص پہلے بھی دو انٹرویوز میں نفرت انگیز باتیں کہہ چکا ہے۔‘
انس نامی طور ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’پیپلزپارٹی کسی ٹوئٹر اکاؤنٹ والے شخص کو برطرف کردے گی لیکن نبیل گبول جیسے بدمعاشوں کو ٹکٹ دے گی۔
ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ نبیل گبول کو خواتین کے بارے میں اس طرح کے بےہودہ، غلیظ اور نامناسب بیان پر برطرف کردینا چاہیے۔
یاد رہے کہ اس قبل نبیل گبول نے ایک اور پوڈ کاسٹ میں فیم ٹک ٹاکر (میرا دل یہ پکارے آجا) عائشہ کا موبائل نمبر اور گھر کا پتا پوچھا تھا۔
یہی نہیں بلکہ نبیل گبول نے ایک اور جگہ خواتین سے متعلق انتہائی نامناسب بیان دیا تھا ۔
یاد رہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2021 میں ملک بھر میں 5ہزار 200 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے، اور ان مقدمات میں مجرمان کو سزا دینے کی شرح 3 فیصد سے بھی کم ہے۔