نقطہ نظر

اسد قیصر سے راجا پرویز اشرف تک: گزشتہ سال قومی اسمبلی میں کیا کچھ ہوا؟

اپوزیشن کی غیر موجودگی کے باعث حکومت کافی خوش بھی ہے، کیونکہ وہ جو بھی قانون سازی کرتی رہی ہے اسے کوئی چیلنج کرنے والا یا اس پر بات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

صرف ایک سال پہلے 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب تھی کہ جب غیر معمولی طور پر سپریم کورٹ کے تمام دفاتر کی لائٹیں آن ہوگئی تھیں اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جج صاحبان سپریم کورٹ پہنچ چکے تھے۔ جب قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی آگے بڑھنے لگی اور یہ صاحبان واپس اپنی رہائش گاہوں کی طرف روانہ ہوئے تو قومی اسمبلی اجلاس میں شریک قائدین ان کے شکر گزار نظر آئے اور یوں عمران خان کا دورِ حکومت انجام کو پہنچا۔

یہ سب کچھ عمران خان کے سیاسی عدم تدبر کے باعث ہورہا تھا، ان کی مٹھی سے اقتدار کی ریت نکل چکی تھی، اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ’گیم از اوور‘۔

عمران خان کی حکومت کے بعد برسرِ اقتدار آنے والی پی ڈی ایم حکومت اب ایک سال پورا کرچکی ہے۔ یہ کس طرح پورا ہوا اور ملکی سیاسی نظام میں عمران خان کی الہڑ ٹیم نے اپنے دور میں کیا کچھ کیا اور مسلم لیگ (ن) نے اس کی کیا قیمت ادا کی؟ یہ ایک طویل موضوع ہے، لیکن قومی اسمبلی میں اس عرصے کے دوران جو کچھ ہوتا رہا، وہ بھی کافی اہم ہے۔

قومی اسمبلی پر بات کرنے سے پہلے 18 ماہ قبل ہونے والی پیش رفت کا تذکرہ ضروری ہے۔ تب پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کا رومانس عروج پر تھا، عمران خان کے سیاسی بیانات میں وہی چور اور ڈاکو کا تذکرہ تھا، کوئی وزیر اسمبلی میں کھڑے ہوکر اپوزیشن کو کہا کرتا تھا کہ ’بس نہیں چلتا، ورنہ ان کو تو ڈی چوک پر لٹکا دیا جائے‘ نیب کی کارروایاں عروج پر تھیں، لیکن نیت احتساب کے ذریعے نظام کو بہتر بنانا نہیں بلکہ ذاتی انتقام لے کر خود کو تسکین بخشنا تھی۔

20 ستمبر 2020ء کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں اسلام آباد کے ریڈ زون کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں اپوزیشن کی جماعتوں کا اجلاس ہو رہا تھا، اس اجلاس میں پی ڈی ایم نے جنم لیا اور ڈیڑھ سال کے عرصے میں عمران خان حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔

اس وقت وزیراعظم عمران خان کو اس نئے سیاسی محاذ کی کوئی زیادہ پریشانی نہیں تھی، وہ اسٹیبلشمنٹ کے آہنی خیمے میں محفوظ بیٹھے ہوئے تھے۔ اسمبلی کا محاذ بھی انہوں نے اسٹیبشلمنٹ کے حوالے کردیا تھا، کسی اہم قانون سازی یا بجٹ منظوری کے وقت ارکان کو اکٹھا کرنے کا کام بھی اس کے حوالے تھا، ایسے میں جن ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر وہ وزیراعظم بنے تھے ان میں سے بیشتر کو اہمیت دینے کی انہوں نے ضرورت ہی محسوس نہ کی۔

عمران خان کی پالیسیوں نے ایک طرف اپوزیشن کو متحد کیا تو دوسری جانب ان کے اتحادیوں کی بیزاری میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا، مارچ 2022ء میں اچانک صورتحال تبدیل ہوگئی، اسلام آباد میں سیاسی بیٹ کور کرنے والے صحافیوں کے لیے 8 مارچ 2022ء سے شروع ہونے والے ایام بہت ہی تھکادینے والے تھے۔

8 مارچ 2022ء کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا لانگ مارچ اسلام آباد میں پہنچ چکا تھا، شام کو ڈی چوک پر بلاول بھٹو زرداری نے لانگ مارچ سے اختتامی خطاب کرنا تھا، لیکن اچانک مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما قومی اسمبلی سیکریٹریٹ پہنچ گئے اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی۔

کچھ دیر بعد یہ خبر آئی کہ پی ڈی ایم کے اہم رہنما مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کریں گے، ابھی پارلیمنٹ سے صحافی فارغ ہی مشکل سے ہوئے تھے کہ مقامی ہوٹل کی طرف دوڑیں لگ گئیں، اس سارے منظرنامے میں اہم سوال یہ تھا کہ یہ تمام سرگرمیاں اس دن کیوں ہوئیں جب پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ چکا تھا اور تحریک عدم اعتماد والی خبر لانگ مارچ کی پوری خبر کو ہی کھا گئی تھی۔

مجھے ایک سینیئر اور باخبر صحافی نے بتایا کہ ’عمران خان آرمی چیف کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرچکے تھے، وہ فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں یومِ خواتین پر خطاب کے بعد سیدھے جی ایچ کیو گئے تھے، جہاں معاملات نہ بنے اور ان کی 15 سیکنڈ کی ایک کال ٹریس کی گئی جس میں وہ ایک شخصیت کو برطرف کرنے کے لیے سمری تیار کرنے کا حکم دے رہے تھے‘۔

تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد عمران خان وزیراعظم کی حیثیت میں اب اس طرح کا کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لہٰذا یہ ضروری تھا کہ آرمی چیف کو بچایا جائے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ کس طرح گیم تبدیل ہوئی۔ عمران خان نے سائفر سے معاملہ شروع کیا اور اسے استعمال کرکے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی ایک بے ڈھنگی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔

جس وقت اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپنی نشست پر بیٹھ کر مستعفی ہونے کا اعلان کر رہے تھے اس وقت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا عملہ اپنے اپنے دفاتر میں پہنچ چکا تھا، شاہراہ دستور پر قیدی وین تک پہنچادی گئی، ٹی وی چینلز کو ’ذرائع‘ سے یہ خبر دی گئی کہ ہوائی اڈوں اور اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔

عمران خان چاہتے تو تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا سکتے تھے، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر یا اپنے غرور کے سامنے سرنڈر کرنے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ عمران خان نے جتنے بھی بڑے سیاسی فیصلے کیے اس کا بعد میں نقصان ہی ہوا ہے، شہباز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دے کر اور بعد میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ کر، اب جب گیم الٹی ہوگئی ہے تو ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں رہا۔

اس ایک سال میں حکومت اور پارلیمان کی کارکردگی کیسی رہی، یہ وہ سوال ہے جس پر اب بات کرنا ضروری ہے۔

گزشتہ ایک سال سے قومی اسمبلی کور کرنے والے رپورٹرز کی یہ رائے ہے کہ اس ایوان میں کور کرنے کے لیے اب کچھ بھی باقی نہیں رہا، کوئی اپوزیشن تو دور کی بات، اپوزیشن لیڈر کی تقاریر سنیں تو لگتا ہے اپوزیشن لیڈر نہیں حکومت کا نمائندہ بول رہا ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان کی جانب سے اجتماعی استعفوں کے بعد بھی جو جو نشتیں خالی ہوئیں ان پر جب ضمنی انتخابات ہوئے تو اب تک محمود مولوی اور محسن لغاری ہی دو ایسے ارکان ہیں جو ایوان میں موجود ہیں۔

اپوزیشن کی غیر موجودگی کے باعث حکومت کافی خوش بھی ہے، کیونکہ وہ جو بھی قانون سازی کرتی رہی ہے اسے کوئی چیلنج کرنے والا یا اس پر بات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو یک طرفہ کارروائی چل رہی ہے۔

رواں سال مارچ کے آخری ایام میں جب عدالتی اصلاحات پر قومی اسمبلی بل منظور کر رہی تھی تو قائد حزب اختلاف راجا ریاض صرف دو منٹ ہی بول سکے اور اس دو منٹ کے دوران بھی انہوں نے حکومت کے موقف کی حمایت کی۔ گزشتہ سال جب جون میں اور اس کے بعد منی بجٹ پر بھی یہ 5 منٹ سے زیادہ نہ بول سکے۔ قومی اسمبلی کور کرنے والے ایک سینیئر دوست نے شکوہ کیا کہ ’ایسی اسمبلی جس کا اپوزیشن لیڈر اپوزیشن کے بجائے حکومت کا نمائندہ ہو اس میں باقی مشاہدے کے لیے کیا رہ جاتا ہے‘۔

یہ ہی حال حکومت کا بھی ہے، اس کے اپنے ارکان کو مختلف اوقات میں مختلف معاملات پر مخالفت کرنی پڑتی ہے، تاکہ پتا چلے کہ اسمبلی چل رہی ہے۔ عمران دور کی طرح اس دور میں بھی وزرا کی تعداد ایوان میں معمول سے کم ہی رہی ہے۔ اب تو مشترکہ اجلاسوں کی بھی کوئی وقعت نہیں رہی، ایک دور تھا جب مشترکہ اجلاس ہوتا تو ایوان کے اندر اور باہر رونق لگی رہتی تھی، اب تو سب کچھ بے رنگ ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف ایوان میں موجود نہیں، پی ٹی آئی کے 20 کے قریب وہ ارکان ایوان میں موجود ہیں جنہیں منحرف کہا جاتا ہے، ان ارکان سے تحریک عدم اعتماد اور وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ووٹ تو نہیں لیا گیا لیکن ان کو یہ یقین ضرور دلایا گیا ہے کہ 3 بڑی جماعتیں انہیں آنے والے انتخابات میں واپس اسی ایوان میں آنے کا موقع ضرور دیں گی۔

اتحادی حکومت کے بہت سارے رہنما اب بھی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غلط فیصلہ قرار دیتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے ایک وفاقی وزیر مجھے بتا رہے تھے کہ ’میں نے تو اپنی قیادت کو کہا تھا کہ عمران 6 ماہ کے اندر سیاسی طور پر ڈوب جائیں گے، تحریک عدم اعتماد انہیں مزید پاپولر کردے گی‘۔

میں نے مریم نواز سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ کیا عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اتحادی جماعتوں کی سیاسی خود کشی نہیں تھی؟ اس پر انہوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا کہ ’نہیں، ہمارا فیصلہ درست تھا، 12 سال کا پلان بن چکا تھا، اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو کسی کے پلے کچھ نہ رہتا‘۔

گزشتہ سال اپریل سے لے کر رواں سال جنوری میں پنجاب اسمبلی سے پرویز الہیٰ کے اعتماد کا ووٹ لینے تک اسپیکر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے منظور کرنے کے لیے تیار نہ تھے، ان کا اصرار تھا کہ جب تک مستعفی ارکان فرداً فرداً ان کے چیمبر میں آکر انہیں اس بات کا یقین نہیں دلاتے کہ ان پر استعفیٰ کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے، تب تک وہ استعفے قبول نہیں کریں گے۔ دو بار پی ٹی آئی کے وفود بھی راجا پرویز اشرف سے ملے کہ ان کے استعفے منظور کیے جائیں لیکن وہ اس مطالبے کو ٹالتے رہے تاکہ تحریک انصاف کی واپسی کی کوئی راہ ہموار ہوسکے۔

لیکن جنوری کے بعد حکومت نے یکسر پالیسی تبدیل کردی، اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 مراحل میں پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے منظور کرکے ایوان سے نکال دیا اور پارلیمنٹ لاجز میں ارکان کے فلیٹس بھی خالی کروالیے گئے۔ اس بار اسپیکر کا مؤقف پہلے سے برعکس تھا۔

9 رکنی بینچ سے لےکر معاملہ جب تین رکنی بینچ تک پہنچا اور جب اس بینچ کا فیصلہ آیا تو قومی اسمبلی کا رویہ ہی تبدیل ہوگیا، وہ اسپیکر، جو کسی رکن کی جانب سے کسی جسٹس یا فوجی افسر کے خلاف کسی رکن کو بات کرنے کی اجازت بھی نہ دیتے تھے، اب اس ایوان میں ایک طرف بلوچستان میں ایف سی کی ہونے والی کارروائی پر کھل کر بات ہورہی ہے تو 3 رکنی بینچ کے پنجاب الیکشن التویٰ کیس پر بھی ارکان کھل کر بول رہے ہیں۔ اور تو اور اس معاملے پر قرارداد منظور ہوئی اور قانون سازی بھی ہوئی۔

وزیراعظم شہباز شریف بھی مارچ کے آخری ایام اور اپریل کے ان دنوں میں اجلاسوں میں متواتر شرکت کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ بھی ایوان کو اپنے درشن نہیں کراتے تھے۔

آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی بھی اسی ماہ منائی جارہی ہے۔ حکومت ایک ماہ تک گولڈن جوبلی کے پروگراموں کا انعقاد کرے گی۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں میں سنجیدگی کے ساتھ دیگر نئے قوانین لانے کے لیے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ سیاسی آئینی اور اقتصادی بحران گہرا ہوتا جارہا ہے اور کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

سیاسی منظرنامے میں جو سب سے بڑا خلا ہے، وہ یہ ہے کہ ایسا کوئی سیاسی لیڈر موجود نہیں جو عمران خان، حکمران اتحاد، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان کوئی کردار ادا کرکے ملک کو بحران سے نکال سکے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا اور ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا پڑے گا، لیکن فی الوقت اس کا امکان نظر نہیں آتا۔ 3 دہائیوں تک قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت میں رہنے والے ایک سینیئر سیاسی رہنما کا کہنا تھا کہ ’ملک بند گلی میں چلا گیا ہے، ہمیں بھی معلوم نہیں کہ اسے واپس کون لائے گا‘؟

عبدالرزاق کھٹی

عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔