دنیا

برطانوی حکومت کے تین شہریوں کی گرفتاری پر طالبان سے مذاکرات

افغانستان کی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزام عائد کیا کہ برطانوی شہری ملکی قوانین اور اقدار کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث تھے اور مذاکرات کے بعد رہا کردیا گیا۔

برطانیہ کے وزیرداخلہ سوئیلا بریورمین نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے تین شہریوں کی گرفتاری کے بعد حکومت نے مذاکرات شروع کردیے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق گرفتار افراد کی شناخت 53 سالہ کیون کورنویل، امدادی کارکنوں کے لیے ایک ہوٹل کے منیجر جن کا نام معلوم نہ ہوسکا اور یوٹیوبر مائلز روٹلیڈج کے نام سے ہوئی ہے۔

برطانوی وزیر داخلہ نے کہا کہ شہریوں کی سلامتی کے لیے حکومت مذاکرات کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیرمنافع بخش ادارہ پریدیڈیم نیٹ ورک نے ٹوئٹر پر بتایا کہ وہ ان میں سے دو افراد کے اہل خانہ سے رابطے میں ہے۔

برطانیہ کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ہم افغانستان میں زیر حراست برطانوی شہریوں تک قونصلر رسائی کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں اور ہم متعلقہ خاندانوں سے تعاون کر رہے ہیں۔

پریسیڈیم نیٹ ورک کے نمائندے اسکاٹ رچرڈز نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ ہمیں یقین ہے کہ وہ خیریت سے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس حوالے سے یقین کرنے کے لیے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ تشدد جیسا منفی رویہ اپنایا جا رہا ہے اور ہمیں بتایا گیا کہ وہ ٹھیک ہیں جیسا کہ اس طرح کے حالات میں ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکام کے درمیان کوئی نتیجہ خیز رابطہ نہیں ہوا اور دو افراد سے پریسیڈیم تعاون کر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ دو افراد کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ انہیں طالبان نے جنوری سے اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے جبکہ تیسرے آدمی کے بارے میں درست معلومات نہیں ہیں کہ انہیں کب گرفتار کر لیا گیا تھا۔

’غلط فہمی‘

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پریسیڈیم نے طالبان پر زور دیا کہ جو کچھ ہم سمجھ رہے ہیں اس سے غلط فہمی سمجھ کر ان افراد کو رہا کردیا جائے۔

طالبان نے اس سے قبل گزشتہ برس ایک ٹی وی کیمرا مین اور دیگر 4 برطانوی شہریوں کو 6 ماہ حراست میں رکھنے کے بعد رہا کردیا تھا۔

لندن میں حکومت نے بتایا تھا کہ پیٹر جووینل طالبان کی حراست میں رہنے والے برطانیہ کے شہریوں میں سے ایک ہیں۔

برطانیہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ پانچوں افراد افغانستان میں برطانوی حکومت کے کسی کردار پر نہیں تھے اور وہ برطانوی حکومت کی سفری پابندی کے باوجود افغانستان گئے تھے۔

دوسری جانب افغانستان کی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی شہریوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ملک کے قانون اور اقدار کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ امارت اسلامی افغانستان اور برطانیہ کے درمیان مسلسل ملاقاتوں کے بعد ان افراد کو رہا کردیا گیا اور ان کے ملک کے حوالے کردیا گیا ہے۔

کوئی ادارہ غیرمنظور شدہ فنڈز خرچ نہیں کرسکتا، وزارت خزانہ

کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا لڑکی لاہور پہنچ گئی، ’اغوا کار سے شادی‘ کا دعویٰ

عمران خان کے بیانات نشر نہ کرنے کا معاملہ: لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین پیمرا سے جواب طلب کر لیا