کوئی ادارہ غیرمنظور شدہ فنڈز خرچ نہیں کرسکتا، وزارت خزانہ
وفاقی وزارت خزانہ نے دو صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے مالی رکاوٹوں پر سپریم کورٹ کے سوالوں کی روشنی میں نوٹیفائی کیا ہے کہ ’کوئی ادارہ‘ فیڈرل کنسولڈیٹڈ فنڈ یا وفاق کے پبلک اکاؤنٹ سے کسی قسم کا خرچہ اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک مالی بجٹ اور پارلیمانی عمل کے ذریعے باقاعدہ طور پر اسے اختیار نہیں دیا جاتا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے خزانہ ڈویژن اور اور الیکشن کمیشن کے سیکریٹریز کو پیر کو بینچ کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا ہے جہاں وہ فیڈرل کنسولڈیٹڈ اکاؤنٹ میں کتنے فنڈز دستیاب ہیں، اس حوالے سے سوالوں کے جواب دیں گے۔
انہیں وضاحت دینا ہوگی کہ صدرمملکت عارف علوی کے اعلان کے مطابق 30 اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے 20 ارب روپے مختص کیوں نہیں کیے گئے۔
وزارت خزانہ کے بجٹ ونگ نے تفصیلی نوٹیفکیشن میں تمام حکام، دفاتر، تنظیموں، اداروں، کمیشنز اور دیگر اداروں کو عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کے تعاون کے تحت پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے 2019 میں نافذ کیے گئے پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ کی شرائط کی یاد دہانی کرائی ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’ایکٹ کے سیکشن 23 کے تحت کوئی ادارہ فیڈرل کنسولڈیٹڈ فنڈ اور وفاق کے پبلک اکاؤنٹ سے کسی قسم کا خرچہ یا فنڈ کا استعمال اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک اسے متعلقہ حکام کی جانب سے اختیار نہیں دیا جاتا اور مجاز اخراجات کے شیڈول یا ضمنی گرانٹ اور ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ یا دوبارہ مختص فنڈ کے تحت مالی سال کے لیے اخراجات کی اجازت دی گئی ہو۔
وفاقی وزارت نے بتایا کہ ’کوئی بھی ادارہ حکومت کے اکاؤنٹ سے سرکاری پیسہ سرمایہ کاری یا ڈپازٹ کے لیے منتقل نہیں کرےگا، جس میں وفاقی حکومت سے درکار منظوری کے بغیر اسائنمنٹ اکاؤنٹس سمیت دیگر بینک اکاؤنٹس شامل ہیں۔
اس سے بظاہر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے 19 کروڑ پاؤنڈ کی حصولی کی طرح خصوصی انتظامات پر توجہ دی جاسکے گی، جس کے بارے میں وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں حکام نے خزانے میں آنے سے متعلق خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
خزانہ ڈویژن نے واضح کیا کہ پیچیدہ عمل کے لیے فنڈز کیسے مختص، بااختیار اور جاری کیے جاتے ہیں اور فنڈز استعمال اور سرکاری پیسے کے مؤثر انتظام کے لیے کیسے ٹرانسفر کیے جاتے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ 1973 کے رولز آف بزنس میں خزانہ ڈویژن کو وفاقی حکومت کے فنانسز اور مالی امور کے انتظام کا اختیار دیا گیا ہے جو مجموعی طور پر ملک پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اسی سے تمام پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کو سرکاری پیسہ خرچ کرتے ہوئے دستیاب وسائل کے منظم انتظامات کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے اس طرح کی ہدایات ایک ایسے موقع پر جاری کی گئی ہیں جب فنڈز گزشتہ برس مئی میں پیش کیے گئے بجٹ کے اندازوں کے مطابق مختص کیے جا رہے ہیں، اس حوالے سے فنڈ جاری کرنے کی حکمت عملی جولائی اور اگست 2022 اور پھر رواں برس جنوری میں تیار کی گئی تھی اور کنٹرول گائیڈ لائنز فروری میں دی گئی تھیں۔
مالی درستی برقرار رکھنے کے لیے خزانہ ڈویژن نے حکم دیا ہے کہ تمام اخراجات واضح منصوبے کے تحت ہونے چاہیئں اور مختص اور جاری کیے گئے بجٹ کے اندر ہونے چاہیئں۔
وزارت خزانہ نے تمام پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران اور دیگر بااختیار افسران اور اکاؤنٹنگ دفاتر کو ہدایت کی ہے کہ کسی بھی فنڈ کی بجٹ کے میکنیزم کے تحت فنڈز کی دستیابی کے بغیر منظوری نہیں دیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کا مالی عمل کی وضاحت آئین کے آرٹیکلز 78 سے 84 تک کی گئی ہے اور واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ فیڈرل کنسولڈیٹڈ فنڈ سے اس وقت تک کوئی اخراجات نہیں ہوں گے جب تک اس کی قومی اسمبلی اور شیڈول کے تحت دو طرفہ اجازت نہیں ملتی، جس کی تصدیق وزیراعظم کی جانب سے کی جاتی ہے۔مزید برآن وفاقی حکومت کے پاس وفاقی کنسولڈیٹڈ فنڈ سے مالی سال کے دوران اضافی اخراجات (سپلیمنٹری گرانٹ) جاری کرنے کے اختیارات ہیں۔