پاکستان

چیف جسٹس سمیت تین ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ ہو سکتا ہے، وزیر داخلہ

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر دو ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجنے کی بات زیر بحث ہے لیکن اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا، رانا ثنااللہ

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے تین ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا معاملہ زیر بحث ہے اور ان کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے انڈیپنڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ جہاں تک ریفرنس دائر کرنے کی بات ہے تو یہ بات زیر بحث ہے لیکن اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن یہ فیصلہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے اس ممکنہ فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ تین معزز جج صاحبان ان کا ایک لمبا ریکارڈ ہے کہ انہوں نے ایسے فیصلے دیے ہیں جو مسلم لیگ(ن) کے خلاف گئے ہیں اور ان میں ایک فیصلہ ایسا ہے جسے صرف مسلم لیگ(ن) ہی غلط نہیں کہتی بلکہ پر وہ شخص جو تھوڑا یا زیادہ قانون جانتا ہے، ہر شخص نے یہ کہا ہے کہ یہ آئین ری رائٹ کرنے کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 63-اے کے بارے میں ہے جس کی بنیاد پر صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم کی گئی اور اب بھی بظاہر ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ تینوں صاحبان ہر قیمت پر اس فیصلے کو خود ہی نمٹانے پربضد ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 9 کا بینچ بنا تھا، پھر سات رہ گیا، پھر پانچ کا رہ گیا، پھر چار کا رہ گیا، پھر تین کا رہ گیا، اب تینوں جج صاحبان نے فل کورٹ کی استدعا مسترد کردی ہے اور اکثریت میں موجود اپنے ساتھی ججوں کی بات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور صورت بچتی نہیں ہے کہ ہم اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔

چیئرمین تحریک انصاف کو مائنس کرنے کے آپشن سے بارے میں سوال پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں مائنس کرنے کا آپشن الیکشن ہی ہوتا ہے اور اس پر تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں، جب عمران خان ہمارے سیاسی وجود کی نفی چاہتے ہیں تو ہم کیوں نہیں چاہیں گے۔

اکتوبر سے قبل انتخابات کے حوالے سے سوال مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل ہوتی ہیں اور اس کے 90 روز بعد انتخابات ہونا چاہیے لیکن عمران خان نے اسمبلیاں غلط توڑی ہیں جو آئینی تقاضوں کے مطابق غلط اور غیر جمہوری عمل ہے۔

وزیر داخلہ کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ملک کو طویل عرصے سے درپیش معاشی و سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ اب عدالتی بحران کا بھی سامنا ہے۔

پنجاب میں انتخابات کے التوا کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ سے 2 ججز (جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل) علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔

گزشتہ 3 روز کے دوران اس معاملے پر سوموٹو کیس پر اختلافی نوٹس اور ججز کے درمیان تکرار کے بعد اب پی ٹی آئی کی درخواست 3 رکنی بینچ کے زیرسماعت ہے جوکہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی زیرسربراہی جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل ہے۔

دوسری جانب حکومت اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ کررہی ہے۔

آج وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوا جس میں تمام جماعتوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔