نقطہ نظر

خواب جو کُچلے گئے۔۔۔

سائٹ کراچی کا ایسا علاقہ ہے جہاں زرگروں کے لیے سرمایہ اگلتی فیکٹریوں کے سائے تلے بھوک اور افلاس زندگی کرتے ہیں اور ہر روز مجبوری اپنے ہاتھ ان کارخانوں میں فروخت کرتی ہے۔

جب پتا چلا کہ فیکٹری میں زکوٰۃ بٹے گی تو اس کی آنکھوں میں کچلا جانے والا خواب پھر جی اٹھا ’بچوں کے عید کے کپڑے بن جائیں گے‘۔ اس خواب کے ساتھ کتنی ہی خواہشیں بھی جاگ اٹھیں ’کپڑے دیکھ کر کیسے جھوم اٹھیں گے، لپٹ جائیں گے مجھ سے۔۔۔‘ وہ سوچ کر مسکرا اٹھی۔

نئے کپڑے پہنے بچوں کے چہروں پر خوشی اور آنکھوں میں چمک دیکھنے کی تمنا، انہیں عید کے جوڑے پہنا کر چومنے کی آرزو اس کے چہرے پر کھل اٹھی، خیالوں میں مسکرانے لگی، اس کے قدم اور تیز ہوئے، اس منزل کی طرف جہاں اس کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا تھا اور پھر عید کے جوڑے پہنانے کا سپنا اس کی بجھتی آنکھوں میں دم توڑ گیا۔ بچوں کو نئے کپڑے پہنانے کی حسرت لیے کچلے جانے والی ماں کو موت نے نیا سفید لبادہ پہنا دیا تھا۔

یہ بس ایک ماں کی کہانی ہے، جو جمعے کو کراچی کے علاقے سائٹ کی ایک ڈائنگ فیکٹری میں ہونے والی بھگدڑ میں کچلی گئی۔ کہانی کہاں، یہ تو بس ایک زندگی کے آخری لمحوں کی جھلک ہے۔ زکوٰۃ اور راشن یا آٹے کے حصول کے لیے لگنے والی اس بھیڑ میں نہ جانے کتنی ہی ایسی کہانیاں ہوں گی۔ غربت، بھوک، مجبوری، بے بسی اور بے کسی کی کتھائیں، جنہیں سننے کی کسی کے پاس فرصت نہیں، جن میں سے کچھ اپنے انجام سے دوچار ہوئیں، کتنی ہی زخموں سے لہولہان، بہت سی دھکم پیل کی اذیت اور تقسیم کرنے والوں کے ہاتھوں ذلت جھیل کر خالی ہاتھ گھروں کو پلٹیں، جانے انہوں نے انتظار کرتے بچوں کو کیا جواب دیا ہوگا؟

یہ وہ زندگیاں ہیں جنہیں صرف رسمی طور پر قیمتی کہا جاتا ہے، ورنہ سرکار ہو یا سرمایہ دار کسی کی نظر میں ان کی کوئی قیمت نہیں، ان کی کوئی قدروقیمت ہوتی تو یوں چند روپوں اور تھوڑی سی خوراک کے لیے ان کی عزتِ نفس، یہاں تک کہ جسموں کو بھی پیروں تلے روندے جانے کے لیے چھوڑ نہ دیا جاتا۔

سائٹ کراچی کا ایسا علاقہ ہے جہاں زرگروں کے لیے سرمایہ اگلتی فیکٹریوں کے سائے تلے بھوک اور افلاس زندگی کرتے ہیں، ہر روز مجبوری اپنے ہاتھ ان کارخانوں میں فروخت کرتی ہے اور اس محنت کا صلہ اتنا بھی نہیں ملتا کہ عزت نفس کو زکوٰۃ، خیرات اور راشن کی قطاروں میں لگنے سے بچایا جاسکے۔

یہ المیہ کیسے پیش آیا؟ اس بارے میں خبریں کہتی ہیں کہ سائٹ ایریا میں نورس چورنگی کے قریب قائم ڈائنگ کمپنی نے اپنے ملازمین کے اہل خانہ کو کمپنی کے احاطے میں زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے مدعو کیا تھا، جہاں سیکڑوں خواتین آگئیں اور ایک بڑی بھیڑ کے خوف سے کمپنی کے عملے نے دروازے بند کردیے جب کہ اندر قطار بنانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا، اس کے علاوہ مقامی پولیس کو بھی اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

بھگدڑ کیسے مچیِ؟ اس بارے میں ابتدائی طور پر بجلی کا تار گرنے کو افراتفری کا باعث قرار دیا گیا، تاہم بعد میں یہ اطلاعات غیرمصدقہ ثابت ہوئیں۔ البتہ متاثرہ خواتین نے صحافیوں کو بتایا کہ فیکٹری کے عملے نے ان پر لاٹھیاں برسائیں۔ ان خواتین کو غلط بیانی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر یہ الزام درست ہے، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پر اپنی بدانتظامی اور غفلت کی سزا امداد وصول کرنے کے لیے آنے والوں کو دی جاتی ہے، وہ بھی پوری سفاکی اور نہایت سنگ دلی سے۔

اس واقعے کا یہ پہلو کس قدر دردناک ہے کہ اس بھگدڑ میں عورتیں اور بچے جان سے گئے۔ یہ وہ مائیں ہیں جو حالات اور مہنگائی کے ہاتھوں اتنی مجبور کردی گئی ہیں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سامان یا نقد رقم بانٹنے کے اجتماعات میں تذلیل ہوگی، تضحیک ہوگی، ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھنا ہوگا، ضرورت کی طرف سرپٹ دوڑتے قدموں تلے بری طرح کچلے جانے کا خطرہ ہوگا جب بھی ایسی کسی تقسیم کا اعلان سنتی ہیں اپنے بچوں کے زرد چہرے دیکھتی اور ہر مشکل ہر ذلت سہنے جاپہنچتی ہیں۔ دوسری طرف امداد کے نام پر مجبوریوں اور غربت کا تماشا لگایا جاتا ہے اور بعض اوقات تقسیم کے نام پر موت بانٹ دی جاتی ہے۔

سائٹ کے صنعتی علاقے میں پیش آنے والا یہ سانحہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ کے نتیجے میں جانوں کے ضیاع کا ایک سنگین واقعہ 14 ستمبر 2009ء میں کراچی ہی میں پیش آیا تھا، جب پرانے شہر کے مصروف ترین علاقے میں واقع کھوڑی گارڈن میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے کے باعث 20 خواتین اور بچے جان سے گزر گئے تھے۔ اس واقعے کا سبب لوگوں کی بھیڑ کے باعث حبس ہوجانا بتایا گیا تھا۔

خبروں کے مطابق ’کھوڑی گارڈن میں راشن تقسیم ہو رہا تھا جہاں پر 300 سے 400 افراد جمع تھے۔ اس ہجوم میں قطار بنانے کے مسئلے پر جھگڑا شروع ہوا جس کے وجہ سے بھگدڑ مچ گئی۔ چونکہ یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے اس لیے یہاں سے نکلنا بھی مشکل تھا اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں بھی کافی مشکلات پیش آئیں‘۔ امداد تقسیم کرنے کا یہ عمل کھوڑی گارڈن جیسے نہایت گنجان علاقے کی ایک 3 منزلہ حبس زدہ عمارت میں انجام دیا جارہا تھا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نیکی کے نام پر ہمارے ہاں انسانی جانوں کو کس طرح خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

کراچی کے سائٹ ایریا میں ہونے والا سانحہ تو ایک نجی کارخانے کی انتظامیہ کی بدنظمی کا نتیجہ ہے، لیکن خود حکومتی سطح پر مفت آٹے کی تقسیم کے لیے لگائی جانے والی قطاروں میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو غریبوں کی زندگی سے کتنی دل چسپی ہے۔ جب سے ان قطاروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ان میں بھگدڑ اور دیگر وجوہات کی بنا پر 8 افراد جان سے جاچکے اور 150 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ مفت آٹے کی تقسیم کے نام پر ایک طرف پچھڑے ہوئے طبقات کے افراد کی بے عزتی اور ہلڑبازی کا سامان کیا جارہا ہے تو دوسری طرف نادانستہ طور پر اور ان جانے میں لوٹ مار اور انارکی کی نفسیات کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ نہیں سوچا جارہا کہ آٹے کے ٹرکوں پر ہلا بولنے، چھیننے جھپٹنے اور دوسروں کو روند کر حاصل کرلینے کے اس کھیل کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہوں، فلاحی تنظیمیں یا غریبوں کی مدد کا جذبہ رکھنے والے اہل ثروت، انہیں لوگوں تک امداد پہنچانے کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا ہوگا جو مہذب ہو اور جس پر عمل سے عزت نفس اور جانیں محفوظ رہیں۔ دیالوپن کا دکھاوا کرنے اور اپنی شان دکھا کر غریبوں کا مذاق اڑانے کے بجائے ان کے گھروں پر راشن پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ حکومت راشن تقسیم کرنے کی اس سفاکانہ رسم پر پابندی لگادے کیونکہ یہ چلن غیرمحسوس طور پر عام آدمی کو سفاک، حریص اور لوٹنے کا عادی بنارہا ہے۔

جو متمول حضرات واقعی نیک نیتی سے اور اللہ کہ رضا کے لیے لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ سفید پوش مستحقین کے گھروں پر عزت سے راشن پہنچائیں اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ایسے افراد کو روزگار فراہم کرنے کی سبیل کریں۔ سیکڑوں کی عزت نفس کچل کر ان کی شخصیت اور فطرت مسخ کرنے کے بجائے چند کو برسر روزگار کردینا ان افراد اور معاشرے کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔