پاکستان

جنرل (ر) باجوہ بھارت سے دوستی چاہتے تھے جس کیلئے مجھ پر دباؤ ڈالا گیا، عمران خان

سابق آرمی چیف ایک روز کچھ کہتے ہیں اور دوسرے روز بات سے مکر جاتے ہیں، ان کے خلاف احتساب فوج کے اندر سے ہونا چاہیے، چیئرمین پی ٹی آئی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل (ر) باجوہ بھارت سے دوستی کرنا چاہتے تھے جس کے لیے مجھ پر دباؤ بھی ڈالا گیا۔

لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے ملاقات کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ میرے گھر پر میری غیر موجودگی میں جو حملہ کیا گیا اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔

عمران خان نے کہا کہ گھر کے حملے کے حوالے سے کیس تیار کر لیا ہے جلد ہی درج کر دیا جائے گا۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ نگران حکومت کو نیوٹرل کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا جو وہ ادا نہیں کر رہے، محسن نقوی، آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور جرائم پیشہ افراد ہیں۔

عمران خان نے اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں واضح کیا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اب اسٹیبلشمنٹ اور ہمارے درمیان کسی بھی قسم کا کردار ادا نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی اور پرویز الہٰی کو الیکشن نہ کروانے کی صورت میں دیگر جماعتوں سے رابطے بحال کرنے کا ٹاسک دیا ہے، اگر 90 روز میں الیکشن نہ کروائے گئے تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ میڈیا پر ہمارا مکمل بلیک آوٹ کیا گیا ہے اور اب سوشل میڈیا کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ آخر کس قانون کے تحت یہ لوگ توڑی گئی پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں بحال کریں گے۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ ایک روز کچھ کہتے ہیں اور دوسرے روز اس بات سے مکر جاتے ہیں، ان کے خلاف احتساب فوج کے اندر سے ہونا چاہیے۔

عمران خان نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ بھارت سے دوستی چاہتے تھے اور اس کے لیے مجھ پر دباؤ بھی ڈالا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے سوموٹو کے ذریعے اسمبلیاں بحال کیں تو سوموٹو ٹھیک تھا، اب سپریم کورٹ سوموٹو کے ذریعے الیکشن چاہ رہا ہے تو یہ لوگ سوموٹو کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ اگر 90 روز میں الیکشن نہ ہوئے تو ملک میں آئین نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔

خیال رہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بارے میں عمران خان کوئی نیا بیان نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی وہ متعدد مرتبہ سابق آرمی چیف کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔

یکم جنوری کو سابق وزیراعظم عمران خان نے سابق آرمی چیف پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا ’سیٹ اپ‘ اسٹیبلشمنٹ میں اب بھی سرگرم ہے۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا لیکن اب وہ میرے لیے ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔

کچھ اسی طرح کا الزام انہوں نے 5 جنوری 2023 کو بھی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں قتل کراکے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

بعدازاں 12 فروری کو امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنی حکومت کو برطرف کرنے کی سازش کے الزام سے امریکا کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اس کا ذمہ دار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹھہرا دیا تھا۔

اس انٹرویو کے ایک ہفتے بعد معروف کالم نگاروں اور سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے ریکارڈنگز کو تسلیم کیا جو کہ ایک غیر قانونی اقدام ہے لہٰذا عسکری ادارے کو جنرل (ر) باجوہ کے اس اقدام کی انکوائری اپنے طور پر کروانی چاہیے۔

بعدازاں وائس آف امریکا (وی او اے) اردو کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے رجیم چینج کا خود اعتراف کیا ہے، ان کے خلاف فوج کے اندر انکوائری ہونی چاہیے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ ’جنرل باجوہ نے ایک صحافی کو بیان بھی دیا تھا کہ ہم نے حکومت ان وجوہات پر گرائی تھی تو وہ رجیم چینج کا مان گئے ہیں، انہوں نے مل کر حکومت گرائی تھی اور اس کے بعد سب اکٹھے رہے‘۔

4 دسمبر کو عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ باجوہ نے ڈبل گیم کھیلی، ان کا عجیب رویہ تھا لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوا لیکن بے نقاب تو ہوگئے۔

اسی طرح 18 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقدہ ’رول آف لا کانفرنس‘ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھاکہ جنرل ریٹائرڈ باجوہ فیصلہ کرتے تھے کہ نیب نے کس پر کب اور کتنا دباؤ ڈالنا ہے اور کب چھوڑنا ہے اور کب قید کرنا ہے، ہم بالکل بے بس تھے، وزیراعظم بے بس بیٹھا تھا۔

انہوں نے سابق آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے ساتھ تنازع ’ذاتی‘ نوعیت کا ہے اور اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو ان کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔

بھارت: نریندر مودی کی ڈگری کی معلومات طلب کرنے پر نئی دہلی کے وزیراعلیٰ پر 25 ہزار جرمانہ

بھارت: رام نومی تہوار پر مغربی بنگال میں جھڑپیں، مسلمانوں کی املاک نذر آتش

اس رمضان عمرے کی سعادت حاصل کرنے والی نامور شخصیات