پاکستان

حکومتی اتحادی جماعتوں کا اجلاس، تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار

افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، اجلاس کا اعلامیہ

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔

حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس ویڈیو لنک کے ذریعے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹوزرداری، مریم نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور رہنماﺅں نے شرکت کی۔

اجلاس نے ملک کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اور رہنماؤں نے مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی۔

اجلاس نے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخاب ہونے چاہئیں، یہ غیرجانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے جس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا جبکہ یہ صورتحال ملک کے معاشی مفادات پر بھی خود کش حملے کے مترادف ہو گی۔

اجلاس نے واضح کیا کہ بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنا دیا گیا ہے لیکن لشکر اور جھتوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دباﺅ پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ معاشی، سیکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امورکو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے، خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے، یہ آئین وقانون اور الیکشن کمیشن کے اختیار کے بھی منافی ہے۔

اعلامیے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 218(3) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ازخود نمبر 1/2023میں دے چکے ہیں۔

سلسلے میں مزید کہا گیا کہ اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتا ہے اور تقاضا کرتاہے کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، یہ طرز عمل ملک میں ایک سنگین آئینی وسیاسی بحران ہی نہیں بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہے جو ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اجلاس نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184(3) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے، متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔

اتحادی جماعتوں کے اجلاس نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209 کے تحت دائر کردہ ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔

اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ اجلاس نے واضح کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طور پر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہٰذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہوسکتے، اس حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں، یہ سب کچھ ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔

اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ ’وَن مین شو‘ کا تاثر ختم ہو۔

مشترکہ اجلاس نے آرٹیکل 63-اے کے معاملے پر تین رکنی فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کاباعث قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے آئین کو ری رائیٹ کیا گیا۔

اجلاس نے یہ بھی قرار دیا کہ اعلیٰ ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے لہٰذا عدالت عظمیٰ کو متنازع سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

اس سلسلے میں مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیا جائے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں، یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ سیاستدانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت دینے والے خود تقسیم ہیں اور انہیں اپنے اندر بھی اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔

اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں جبکہ عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں داد رسی کا حق دیاگیا ہے جو فطری انصاف اور آئین کی بنیادی منشا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184(3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے، پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہے ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے اور امید ظاہر کی کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شرکا کو ملک کی معاشی صورتحال پر بریفنگ بھی دی۔

الیکشن کی تاریخ کے تعین پر عمران خان سے مذاکرات نہیں کریں گے، مولانا فضل الرحمٰن

اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دھاندلی کے دو بڑے مجرم آج بھی دندناتے گھوم رہے ہیں لیکن آپ کوئی سوموٹو نوٹس نہیں لے رہے اور یہ چیزیں ریکارڈ پر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ووٹ ووٹر کا بنیادی حق ہے لیکن اگر کہیں کوئی ووٹرز ووٹ کے حق سے محروم ہو جائے یا جزوی طور پر ایسا واقعہ رونما ہو جائے کہ مرد ہو یا خواتین، وہ الیکشن میں ووٹ دینے کے حق سے محروم ہو جائیں تو اس وقت اگر اس آپشن کو لیتی ہے تو سوموٹو لے لیکن مجموعی طور پر پورے ملک یا صوبے میں انتخابات کرانا اور اس کی تاریخ کا تعین کرنا یہ تو الیکشن کمیشن کا انتظامی اختیار ہے، کس طرح آپ کسی ادارے کے انتظامی اختیار پر قبضہ کررہے ہیں اور اس کو ان اختیارات سے روک رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شیڈول دینا اور الیکشن دینا یہ الیکشن کمیشن کا انتظامی مسئلہ اور اس کا آئینی اختیار ہے اور اس کے آئینی اختیار پر عدالت کو اس طرح سے جھپٹنے کی جرات نہیں کرنی چاہیے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہم دوبارہ اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ سوموٹو کیس 3-4 سے مسترد ہو چکا ہے لہٰذا اس کی دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں لہٰذا ہم موجودہ بینچ، چیف جسٹس اور ان کے دونوں رفقا پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ آج کہا جا رہا ہے کہ آئین کا تقاضا ہے کہ 90 دن کے اندر اندر الیکشن کرائے جائیں، یہ آئین کا تقاضا اس دن کیوں نہیں تھا جب یہی سپریم کورٹ آمر جنرل مشرف کو تین سال میں الیکشن کرانے کی اجازت دے رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ملک میں مردم شماری ہو رہی ہے، مردم شماری کے بعد نئی ووٹر لسٹ بننی ہے، نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں، تو یہ سب امور مدنظر رکھنے ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے سیاسی لحاظ سے ملک کو ایک رکھنا ہے، ملک کو ایک رکھنے کے لیے ہم نے 1947 سے وطیرہ رکھا ہوا ہے کہ الیکشن سب ایک دن ہوتے ہیں ورنہ کل اگر پنجاب میں کسی کی اکثریت آجائے تو قومی اسمبلی میں اسی پارٹی کی حکومت آئے گی، یہ حادثات ہوتے ہیں اور کیا ہمیں بنگلہ دیش ٹوٹنے کا حادثہ بھول گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ احتیاط سے کام لیا جائے اور ضد نہ کی جائے، فریق بن کر کردار ادا نہ کیا جائے، سپریم کورٹ کو متحد اور غیرجانبدار رہنے دیا جائے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے اور نہ ہی ہم ایسے مجرموں کے ساتھ ڈائیلاگ کرنا چاہیں گے۔