اسرائیل کا حالیہ سیاسی تنازع فلسطینیوں پر کیسے اثرانداز ہوسکتا ہے؟
20 سال قبل فروری کا آخری دن تھا جب 23 سالہ امریکی کارکن ریچل کوری جو غزہ کی پٹی ہر واقع رفح نامی علاقے میں موجود تھیں، انہوں نے اپنی والدہ کو لکھا کہ ’میرا خیال ہے میں اپنی زندگی میں ایک فلسطینی ریاست یا جمہوری اسرائیلی فلسطینی ریاست دیکھ پاؤں گی۔
’مجھے لگتا ہے کہ فلسطین کی آزادی دنیا بھر میں آزادی کی جدوجہد کرتے لوگوں کے لیے امید کے دروازے کھول سکتی ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ یہ مشرقِ وسطی میں مقیم عرب عوام کو بےحد متاثر کرسکتی ہے جو امریکی حمایت سے چلنے والی غیرجمہوری حکومتوں کے ماتحت رہ رہے ہیں‘۔
چند دنوں بعد انہوں نے اپنے والد سے پوچھا ’اگر آپ کے پاس کوئی مشورہ ہوکہ مجھے اپنی بقیہ زندگی میں آگے کیا کرنا چاہیے تو مجھے ضرور بتائیے گا‘۔ یہ ریچل کی آخری ای میل ثابت ہوئی۔ 16 مارچ 2003ء کو ریچل سے ان کی بقیہ زندگی ہی چھین لی گئی۔ وہ ایک گھر کی مسماری کے خلاف اسرائیلی بلڈوزر کے سامنے کھڑے ہونے کی وجہ سے کچل دی گئیں۔ یہ اسرائیل کی مزاحمت میں کھڑے ہونے والے فلسطینی خاندانوں کے لیے معمول کی سزا ہے۔
گزشتہ مئی میں فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جوکہ مغربی کنارے میں واقع جنین پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی افواج کے چھاپے کی کوریج کررہی تھیں۔ ’دنیا کی سب سے مہذب عسکری فوج‘ نے سب سے پہلے فلسطینی مسلح افراد پر الزام عائد کرنے کی کوشش کی۔ ان کا یہ بیانیہ امریکی خبررساں اداروں کی جانب سے کی جانی والی تحقیقات کے بعد فرضی ثابت ہوا تو اسرائیل نے اعتراف کرتے ہوئے اسے ’حادثے‘ کا نام دیا جبکہ تمام شواہد ٹارگٹ کلنگ کی جانب اشارہ کررہے تھے۔
دونوں ہی صورتوں میں اسرائیل کے چیف اسپانسر یعنی امریکا کی جانب سے کوئی خاطر خواہ ردعمل نہیں دیا گیا۔ مارچ 2003ء میں بش انتظامیہ عراق پر حملہ کررہی تھی اور اس کے پاس انسانی حقوق کے امریکی کارکنوں کے لیے وقت نہیں تھا۔ مئی 2022ء میں بھی بائیڈن انتظامیہ کبھی کبھار کی جانے والی لفاظی کے علاوہ زیادہ تر خاموش ہی رہی۔ اپنے پورے سیاسی کیریئر میں جو بائیڈن نے صیہونی منصوبے کے حامی ہونے پر فخر محسوس کیا ہے اس بات سے قطع نظر کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔
صیہونی منصوبے کے حامیوں (جو کبھی کبھار اس پر تحفظات بھی ظاہر کرتے ہیں) چاہے وہ امریکا میں تھامس فریڈمین اور ایلن ڈیرشوِٹز یا برطانیہ میں لیبر ایم پی مارگریٹ ہوج جیسے لوگ ہوں ان سب میں اسرائیل کے حوالے سے موجود حالیہ غصہ انتہائی دلچسپ ہے۔ نیتن یاہو کی انتظامیہ کے ساتھ ان کی حالیہ تکرار بنیادی طور پر صرف ان کی عدالتی اصلاحات تک ہی محدود ہے۔
گزشتہ پیر نیتن یاہو نے اپنے وزیرِ دفاع کو عہدے سے برطرف کردیا جس کے بعد اسرائیل میں حالیہ ہفتوں میں جاری مظاہروں کے سلسلے میں شدت آگئی اور عام ہڑتال کا امکان پیدا ہوگیا۔ وزیرِ دفاع نے اپنی برطرفی سے ایک روز قبل وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ نئی قانون سازی پر احتیاط سے کام لیں کیونکہ فوجی اور ریزرو فوج کے سپاہی احتجاج کررہے ہیں۔
نئی قانون سازی کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ اسرائیل کی عدلیہ کافی سرگرم اور سیکولر ہے اور عدالتی بینچوں پر تقرری کا معاملہ کنیسٹ کی اکثریت کو سونپ کر یہ معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔ یوں عدالتوں کے لیے مشکل ہوجائے گا کہ وہ کسی بھی قانون سازی کو چیلنج کرسکیں۔
اسرائیلیوں کی بڑی تعداد نے اپنے حقوق سلب کیے جانے کے خلاف بغاوت کی ہے اور وہ جمہوریت کامطالبہ کررہے ہیں۔ نیتن یاہو کا الٹرا آرتھوڈکس اور شدید قوم پرست اتحاد یہ امید کررہا تھا کہ اپریل کے آغاز تک وہ تمام تبدیلیوں کو نافذ کردیں گے۔
اسرائیل کے حوالے سے ان کے تصور میں پناہ گزینوں یا خواتین یا ایل جی بی ٹی آئی کیو کمیونٹی کے لیے مساوی حقوق شامل نہیں ہیں، نہ ہی وہ مغربی کنارے کو ضم کرنے میں کسی رکاوٹ کو خاطر میں لاتے ہیں۔ اسی لیے وہ عدالتوں کو بھی اپنی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہتے۔
امکان یہی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا پیچھے ہٹنا وقتی ثابت ہوگا اور وہ ایک بار پھر اپنے ایجنڈے پر لوٹ آئیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ان کا اتحاد جس میں فاشسٹ بیزلیل سموٹریچ اور ایٹامار بین گویر جیسے لوگ موجود ہیں، وہ ٹوٹ جائے گا۔ اس کے علاوہ عدالتوں کو قابو میں کرنا نیتن یاہو کا ذاتی اقدام ہے کیونکہ وہ برسوں سے بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کرتے رہے ہیں اور یہ اب بھی ان کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا باعث بن سکتے ہیں۔
تاہم اس سے غزہ میں محصور فلسطینیوں کو کیا فرق پڑے گا یا ان لوگوں کو جو مغربی کنارے میں روزانہ کی بنیاد پر گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں یا پھر انہیں جو غیرقانونی آبادکاروں کی جانب سے دی جانے والی محرومیوں کا نشانہ بنتے ہی؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ’انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا‘۔
عدلیہ سے متعلق حالیہ ایجنڈے اور 2018ء کے قومی ریاستی قانون جو 2018ء میں نیتن یاہو کی گزشتہ حکومت میں منظور کیا گیا تھا۔ اس کے پیچھے ایک امریکی تھنک ٹینک کوہیلیٹ پالیسی فورم تھا۔ 2018ء کے اس قانون نے یقینی طور پر اسرائیل کو نسل پرست ریاست میں تبدیل کردیا تھا۔
1948ء کے بعد سے صیہونیوں کے تمام جرائم، جو نازیوں سے مماثلت رکھتے ہیں، ان پر شاذونادر ہی اسرائیل کے مغربی اتحادیوں نے توجہ دی ہو۔ ان میں سے متعدد ممالک نے تو نسل پرستی کے خلاف بائیکاٹ اور اسرائیل پر پابندیوں کی مہم کو تقریباً جرم ہی بنادیا ہے۔
نیتن یاہو سمیت متعدد اسرائیلی بلڈوزر اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ کیا یہ کبھی سبق سیکھ پائیں گے؟ مجھے شبہ ہے کہ میری زندگی میں شاید ہی ایسا ہونا مشکل ہے۔
یہ مضمون 29 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔