قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات بل منظور کرلیا
قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کا مقصد سوموٹو نوٹس کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو انفرادی حیثیت میں حاصل اختیارات کو کم کرنا ہے۔
بل کو وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا جسے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔
اس سے قبل اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کل اس ایوان میں ایک بل پیش کیا گیا اور ایوان کا خیال تھا کہ یہ بل عوام دوست ہے، جس سے پاکستان کے لاکھوں، کروڑوں عوام کو سپریم کورٹ میں قانونی کارروائی کے حوالے سے کچھ حقوق حاصل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کی بنیاد کا مطالبہ بارکونسلز کا مطالبہ بھی ہے اور اسی لیے بارز کے عہدیداران اور ارکان نے بلاامتیاز اس بل کی حمایت کی، بل کمیٹی کو سونپ دیا گیا تھا۔
وزیر قانون نے کہا کہ کمیٹی نے اس بل پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے بعد بل کو واضح کردیا اور کچھ ترامیم تجویز کی گئیں اور اس دوران قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جبکہ اعظم نذیر تارڑ نے بل کے حوالے سے قرارداد کی منظوری دی۔
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان میں موجود تھے۔
جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ قانون سازی اس ایوان کا حق ہے، قانون سازی سے کوئی عدالت یا ادارہ روک نہیں سکتا لیکن یہ بل کل رات کو پیش کیا گیا پھر کمیٹی میں گیا اور صبح ساڑھے 9 بجے کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے اس کی منظوری دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس بل کو ڈیڑھ بجے قومی اسمبلی سے منظور کروایا جارہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی جلدی کی ضرورت کیا تھی، کیا اس پر مزید لوگوں، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جاتی، اٹارنی جنرل، سابق چیف جسٹسز سے بھی مشاورت کی جاتی تو بہتر نتیجہ نکل آتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی شدید مسائل اس وقت موجود ہیں، لوگ مفت آٹا حاصل کرنے کے لیے شہید ہو رہے ہیں، ملک میں صورت حال یہ ہے کہ اس وقت رمضان المبارک میں افطاری کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں مل رہا ہے۔
عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ سیلاب زدہ لوگوں کو اب تک مناسب ریلیف نہیں ملا، کم از کم خیبرپختونخوا میں میرے علاقے میں لوگوں کو ریلیف صحیح طرح نہیں ملا لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو پاکستان کے اہم مسائل پر بھی گفتگو کرنے کے لیے ہمیں ہدایات دینی چاہیے تھی لیکن ایک مسئلے پر اور جن لوگوں سے آپ نے مشاورت کی ہے، ان کے لیے دوسرا بل لے کر آئے ہیں اور لوگ کہتے ہیں رشوت کے طور پر ان کو دیا گیا ہے، یہ دوسرا بل وکلا کو رشوت کے طور پر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں یہ باتیں سنی ہیں، ہمیں اپنے اداروں کو مستحکم کرنا چاہیے، اداروں کا استحکام ہم سب کے لیے بہتر ہے، سپریم کورٹ یا عدلیہ اپنا قانون تقاضے کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرتا، یہ حقیقت ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔
محسن داوڑ کی تجویز کردہ ترمیم بل میں شامل، متاثرہ شخص کو اپیل حق ملےگا
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مراعات اور تنخواہوں کے لحاظ سے دنیا میں ہمارا نمبر پانچواں ہے اور کارکردگی کے لحاظ سے 128 نمبر پر ہے، اس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم چیف جسٹس کو مقید کریں گے لیکن کل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب آرہے ہیں، اس کا کیا کریں گے، ان کے ہاتھ پاؤں بھی باندھیں گے۔
اس دورران اسپیکر نے تحریک ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دے دی جس کے بعد انہوں نے بل کی شق وار منظور لی، شق 5 کی ذیلی شق ون میں محسن داوڑ نے ترمیم پیش کی، وزیر قانون نے اس کی مخالفت نہیں کی اور اسے مناسب ترمیم قرار دیا، محسن داوڑ نے کلاز فائیو سب کلاز ٹو میں ترمیم پیش کی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ قانون اپنی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو گا تاہم اس سے قبل جو لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں، انہیں اس کا ازالہ کیسے ملے گا کیونکہ انہیں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بار کی سینئر قیادت نے بھی یہ تجویز دی تاکہ اس قانون سے متاثر شخص 30 دن میں اپنی نظرثانی کی اپیل دائر کر سکتا ہے، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ ترمیم تو اچھی ہے تاہم اس کو بعد میں زیر غور لایا جا سکتا ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ جب قانون بن رہا ہوتا ہے تو وہ آنے والے وقتوں کے لیے ہوتا ہے، محسن داوڑ کا نکتہ نظر درست ہے، اس قانون کے نافذ العمل ہونے کے بعد ملتوی اور نظرثانی کی اپیل کے لیے 30 دن کا وقت دیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان نے کہا کہ ہم پاکستان کے عوام کی نمائندگی کے لیے یہاں موجود ہیں، پاکستان کی پارلیمان نے آرٹیکل 25 آئین پاکستان میں شامل کیا تو اس کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے۔
خرم دستگیر خان نے کہا کہ یہ آرٹیکل پاکستان کے ہر شہری کو قانون کے مطابق برابر قرار اور یکساں تحفظ دیتا ہے، ہم قانون کے سامنے جوابدہ بھی ہیں اور تحفظ بھی حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمان اپنی خود مختاری، قانون سازی اور پاکستان کے عوام کے حق حاکمیت کے حوالہ سے ایک اہم سنگ میل حاصل کرنے جا رہا ہے تو ہمیں بار بار اس کا اعادہ کرنا چاہئے کہ پاکستان کے آئین کے ابتدائیہ میں یہ لکھا گیا کہ اﷲ کی حاکمیت کے بعد پاکستان میں اس ملک کے منتخب نمائندوں کو حاکمیت دی گئی ہے، کسی اور ادارے کو یہ اختیار نہیں دیا گیا۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ ہم اپنے علاقے کے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہاں کھڑے ہیں، صحیح کام کرنے کیلئے ہر وقت صحیح ہے، آئین ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، عدلیہ جو آئین کا ایک ستون ہے اس قانون سے شفافیت بھی لائی جا رہی ہے۔
رمیش کمار ونکوانی نے کہا کہ یہ بل بہت اچھا ہے، یہ کام سپریم کورٹ اگر خود کرتی تو اچھا ہوتا، تین سال فل کورٹ نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمان کو یہ قانون سازی کرنا پڑی۔
وزیر قانون نے کہا کہ اگر محسن داوڑ کی ترمیم ہائوس منظور کرتا ہے تو اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم بھی اس شق کی حمایت کرتے ہیں۔
اسپیکر نے محسن داوڑ کی ترمیم ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دے دی، شق وار منظوری کے بعد وزیر قانون نے ترمیم کے ساتھ بل ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔
بل کی شقیں
بینچز کی تشکیل کے حوالے سے قومی اسمبلی سے آج ترامیم کے بعد منظور کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن اسمبلی احمد حسین دیہڑ نے بل پر ایوان، وزیراعظم، اسپیکر اور وزیرقانون کو مبارک باد دی اور کہا کہ اس سے عوام کو حق ملے گا اور یہ وکلا کا دیرینہ مطالبہ تھا اور اس سے انصاف ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ اختیارات عدلیہ کو دیے گئے ہیں، عدلیہ سے لے کر کسی اور کو نہیں دیے گئے، اس میں بینچ اور وکلا کی عزت ہے، سینئر تین جج بیٹھ کر از خود نوٹس اور بینچ کی تشکیل پر فیصلہ کرتے ہیں تو ہمیں انصاف کے قریب نتائج ملیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کہتے ہیں قانون غلط نہیں ہونا چاہیے، قانون پر عمل ہونا چاہیے، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس قانون کوبنانے والا ذوالفقار علی بھٹو کو انہوں نے سزائے موت دی، آج یہ جواب دیں، یہ قانون کی تشریح کیسے کریں گے، تین دفعہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف کو سزا دے کر ملک سے باہر بھیجا تو یہ کیا انصاف دیں گے۔
رکن اسمبلی صالح محمد نے کہا کہ بل پر پہلے بحث ہوتی تاکہ ترامیم کا موقع مل جاتا، حیران ہوں کہ تراویح کے دوران یہاں اجلاس چل رہا تھا پتا نہیں سحری کے وقت کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا اور وزیر قانون ایک دم بل پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھی اصلاحات کے حق میں ہیں، ہم کہتے ہیں عدلیہ میں اصلاحات ہوں لیکن عدلیہ پر ڈاکا ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں، بل کے مناسب وقت دینا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جو قانون سازی ہو رہی ہے یہ عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے، یہ اصلاحات ذاتی بنیاد پر ہیں۔
یہ بل قانون کی حکمرانی کا ہے، قائد حزب اختلاف راجا ریاض
قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے کہا کہ میں ایوان اور وزیرقانون کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بل قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور اس سے ون مین شو ختم ہوگا اور تین سینئر جج بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کی متفقہ طور پر یہ بل لایا، جو پورے ملک کے وکلا کی ترجمانی کر رہا ہے، جو صحیح بات ہے وہ ایک گھنٹے اور ایک منٹ میں منظور کرلی جائے تو بہتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے اور اس سے عدلیہ بھی مضبوط ہوگی اور غریب کو انصاف ملے گا اور عدلیہ کے ون مین شو پر نظر ثانی ہوگی۔
اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو سیاست میں لے کر آئی، بلاول بھٹو زرداری
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت بہت مسائل کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان میں ہم نے کئی بحران دیکھے اور اس سے نکل آئے، جمہوری اور آئینی بحران دیکھا، آمریت دیکھی مگر ان آمروں کا مقابلہ کرکے جمہوریت قائم کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور پاکستان کے عوام ایک ساتھ تاریخی معاشی بحران، مہنگائی، تاریخی بے روزگاری اور غربت کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ ہمارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے اور کچھ اس لیے ایک ایسا نااہل اور نالائق وزیراعظم کو ہم پر مسلط کیا گیا تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے معیشت کا گلا گھونٹا اور پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیل دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھی پنجاب میں راجن پور، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کے عوام اس تاریخی قدرتی آفت کی وجہ سے پیدا مسائل کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہماری معیشت کے مسائل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا کردیا گیا ہے، دہشت گردوں نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے، اسی نالائق وزیراعظم نے پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جب ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیا تو اسی وقت غیر جمہوری قوتوں نے ایک ہائبرڈ جنگ شروع کردی، یہ ہائبرڈ جنگ جمہوریت، سیاسی اتفاق رائے، میثاق جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے خلاف تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ہر طرف سے ہو رہا تھا، میڈیا کے ذریعے تھا، ہر سیاسی رہنما کی کردار کشی کی گئی، ہمارے سامنے جو بحران پیدا ہوا ہے، اس کا ماضی ہے، 1996 میں جس طریقے سے جنرل (ر) حمید گل اس سلیکٹڈ کو انگلی پکڑ کر سیاست میں لے کر آئے وہ کیوں لے کر آئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جو کردار جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام اور جنرل فیض حمید کا تھا وہ آپ کے سامنے ہیں، عوام کے سامنے ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ بھی سیاسی اتفاق رائے کے خلاف، 18ویں ترمیم کے خلاف، جمہوریت کے خلاف ایک گٹھ جوڑ تھا، جو اس ہائبرڈ جنگ میں شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ اتحادی بھول جاتے ہیں کہ ایک اور چیف جسٹس بھی اس میں شامل تھا، جسٹس افتخار چوہدری نے اس روایت کی بنیاد ڈالی، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی آمریت افتخار چوہدری نے قائم کی اور وہ بھی اس ہائبرڈ جنگ میں شامل تھا جو شروع تو پیپلز پارٹی سے ہوا لیکن ہدف ہم نہیں تھے بلکہ اس کا مقصد میثاق جمہوریت کو ختم کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو تبدیل ہوتے ہی رہے، پاشا آیا، ظہیر آیا سب چلے گئے لیکن ایک چیز مستقل ہے اور وہ کون ہے، وہ عمران خان نیازی ہے، اس کرکٹر کو ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لے کر آئی اور 30 پاکستان کے ادارے اس جرم میں شامل تھے کہ وہ ایک فریکنسٹائن بنا رہے تھے، یہ ہر وقت ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اداروں میں کچھ آئنسٹائن بیٹھتے ہیں اور اس ملک کے فیصلے کرتے ہیں، اسٹریٹجک اثاثے بناتے ہیں اور پھر آخر میں یہ ہمارے گلے پڑ جاتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم تو جمہوریت جمہوریت کھیلتے رہے، ہم آئین کی بالادستی، آزاد عدلیہ، آزاد میڈیا کی باتیں کرتے لیکن اس کے جواب میں ہمارے ہر جمہوری قدم کے جواب میں ایک غیرجمہوری، غیرآئینی قدم اٹھایا جاتا ہے، ہم نے اگر اس سلیکٹڈ ناجائز وزیراعظم کو نکالا تو کوئی غیر جمہوری قدم نہیں اٹھایا، ہم کہتے تھے کہ ہم گیٹ نمبر 4 کو کھٹکھٹا کر اس وزیراعظم کو نہیں ہٹائیں گے کیونکہ وہ تو غیر جمہوری ہو جائے گا تو ہم نے سوچا کہ تحریک عدم اعتماد لاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے جواب میں انہوں نے آئین تڑوایا، ہماری جمہوری عدم اعتماد کے جواب میں اس وقت کے اسپیکر اور وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ابھی تک جو صدر پاکستان ہے انہوں نے آئین تڑوایا، ایک سال ہم حکومت میں رہے ہیں، آئین توڑنے والے ہماری اپوزیشن ہیں اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے کہ یہ تو سیاسی انتقام ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم صاحب اگر آئین توڑا گیا تو آپ کو کیس فائل کرنا چاہیے، ہم جو بھی سیاسی جماعتیں یہاں بیٹھی ہیں وہ شریف ہو کر سیاست کرتی ہیں اور ہم یہی چاہتے ہیں کہ شرافت سے سیاست کی جائے مگر ایسے نہیں ہو سکتا کہ آئین توڑا جائے، غیرجمہوری سازشیں کی جائیں، ان سازشوں میں اہم، اہم لوگ شامل ہوں اور جمہوریت کی خاطر ہم سب خاموش رہیں، ہمیں پاکستان کے عوام کو بتانا چاہیے کہ اس ملک میں ہو کیا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی تو وجہ ہے کہ اس ملک میں جتنے بھی آمر رہے ہیں ان کی اولاد اگر سیاست میں ہے تو وہ تحریک انصاف میں ہے، وہ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ کسی آمر کے بیٹے کا سیاسی مستقبل ہو ہی نہیں سکتا، یہ اپنے بل بوتے پر کوئی الیکشن نہیں جیت سکتے، ان کا مستقبل تب ہے جب آمرانہ دور ہو یا سلیکٹڈ دور ہو۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری سپریم کورٹ میں اگر جمہوریت بحال ہو رہی ہے تو اس قانون سے ہو گی جہاں ایک شخص کا ایک ووٹ ہو گا، ایک فرد کی مرضی آمرانہ سوچ ہوتی ہے، چیف جسٹس کی مرضی قانون کیا ہے، چیف جسٹس کی مرضی قانون کیا ہے، یہ روایت ہم توڑنے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم آگے جا کر کیا ہو گا لیکن آج ہم جس قانون سازی پر کام کررہے ہیں ، یہ آگے چل کر قانون کا حصہ بن جائے گا، 2008 سے لے کر اب تک اس ایوان کی توہین ہو رہی تھی، آئین کی ماں کی توہین ہو رہی تھی، ایک وزیر اعظم کے خلاف، پھر دوسرے وزیراعظم کے خلاف ایک ادارہ سازش میں شامل تھا اور آخر کار 2023 میں پارلیمان نے فیصلہ کیا ہے ہم قانون کے ذریعے جواب دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک وزیر صاحب نے انٹرویو میں اپوزیشن کے بارے میں کہا کہ ہم ہوں گے یا وہ ہوں گے، افسوس کی بات ہے کہ ہماری پولارائزیشن اس حد تک پہنچ چکی ہے، اس لیے آخر کار یہ لڑائی ختم ہوگی تو ہمیں پھر آپس میں مل کر بیٹھنا ہے اور ان کے ساتھ بھی بیٹھنا پڑے گا جن کی شکل ہمیں پسند نہیں، اگر ہمیں بحران سے نکنا ہے تو نہ میرا، نہ آپ کا ہم سب کا پاکستان۔
اس موقع پر وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایوان میں کہا گیا کہ آئینی ترمیم ہونی چاہیے تو میں یہ عرض کردوں کہ آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، آئین کا آرٹیکل 191 اس ایوان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ آپ اس پر قانون سازی کریں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی آئین کے تابع اپنے رولز بنائے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھر میں وکلا کی نمائندگی کرنے والی چھ بار کونسل ہیں، کل سے اب تک چھ کی چھ بار کونسل نے یہ بل پیش کرنے پر اس ایوان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
بعدازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پیش کیا اور ایوان نے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا جبکہ سپریم کورٹ (کارروائی، قواعد و ضوابط) بل بھی منظور کر لیا گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے وکلا کی بہبود اور سیکیورٹی کے حوالے سے ’لائرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل‘ پیش کیا جسے ایوان نے منظور کر لیا۔
وزیر تجارت نوید قمر نے امپورٹس اینڈ ایکسپورٹس کنٹرول ایکٹ 1950 میں ترمیم کا بل پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔