نقطہ نظر

بچپن کی کارستانیاں اور ملتان کی عید

نماز کے بعد اپنے اور ابو کے جوتے اٹھائے آہستہ آہستہ مسجد سے پارکنگ کی طرف چلتے اور جو کوئی عزیز یا رشتہ دار راستے میں مل جاتا اس سے عید مل کر وہیں 'نپٹا' دیتے۔

عید کی صبح جب ابو نماز کے لیے اٹھاتے تو دل کرتا تھا کہ بندہ انسانی بنیادوں پر ان سے اپیل کرے کہ آج تو عید ہے، آج تو سونے دیں۔ عید کی نماز کا وقت 9 بجے ہوتا اور ابو 7 بجے سے ہم دونوں بھائیوں کو اٹھانا شروع کردیتے تھے۔ اپنے آبائی گھر سے جو کہ نواں شہر، ملتان کے علاقے میں تھا، شاہ گردیز کی مسجد ہم لوگ ویسپا پر جاتے کیوں کہ عید کی نماز کے بعد رش ہو جاتا تھا تو تنگ گلیوں سے نکلنے میں آسانی رہتی تھی۔

مفتی صاحب کی ٹریڈ مارک آواز میں عید کا خطبہ اور نماز کی قرآت سنتے۔ نماز کے بعد اپنے اور ابو کے جوتے اٹھائے آہستہ آہستہ مسجد سے پارکنگ کی طرف چلتے اور جو کوئی عزیز یا رشتہ دار راستے میں مل جاتا اس سے عید مل کر وہیں ’نپٹا‘ دیتے۔

عید کے دن خصوصی طور پر ہمارے یہاں شیر خُرما بنایا جاتا ہے۔ کھا تو ہم سب مزے سے جاتے ہیں لیکن اگر اس کو بنانے کی تیاری میں مصروف کبھی آپ گھر کی خواتین کو دیکھ لیں اور سوچیں کہ یہ آپ کو بنانا پڑجائے تو بلا شبہ آپ اسے ’جوئے شیر خُرما‘ لانے کے مترادف جانیں گے۔

نماز پڑھنے اور شیر خُرما چٹ کرجانے کے بعد مہمانوں کی آمد کا انتظار ہوتا تھا۔ ویسے تو ہر مہمان کی آمد پر ہمارے کان کھڑے ہو جاتے تھے اور نہایت ادب و احترام سے ہم ان کو سلام بھی کرنے جاتے۔ حتی الامکان یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان سے اچھی طرح مل ملا کر آہستہ آہستہ واپسی ہو کہ شاید کچھ نقدی بہ شکل عیدی ان کی جیب سے ہجرت کر کہ ہماری جیب میں پناہ لینے آوے۔ کبھی کبھی یہ داؤ کارگر ثابت ہو بھی جاتا تھا۔ پھر تمام دوستوں اور بچوں سے اپنی عیدی کا موازنہ کیا جاتا تھا کہ کس کی کمائی زیادہ ہوئی۔

اس کے بعد عیدی کے پیسوں سے گل چھرے اڑانے کا وقت آن پہنچتا تھا۔ گلی میں فالودہ، قلفی اور گول گپے پیچنے والوں کی ایک آواز پر ہم یوں دوڑ کر گھر سے باہر نکلتے تھے جیسے وہ بیگ پائپر اپنی بانسری بجا کر شہر کے سارے بچوں کو نکال لے گیا تھا۔ پھر ان تمام لوازمات پر عیدی کی صورت میں کمایا گیا روپیہ یوں اڑایا جاتا تھا جیسے کوئی نواب صاحب کسی مغنیہ سے خوش ہو کر اپنی متاع لٹا دیتے ہیں۔

عیدی کے کچھ پیسے گھومنے پھرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ لے دے کر ملتان میں 2، 3 مخصوص گھومنے کی جگہیں تھیں جن میں قلعہ کہنہ قاسم باغ، کنٹونمنٹ گارڈن، جس کو کمپنی باغ کہا جاتا تھا اور چمن زار عسکری جو کہ عرف عام میں جھیل کا علاقہ کہلاتا تھا کیوں کہ اس باغ میں ایک بڑی سی جھیل تھی جس میں ہم پیڈل بوٹ چلاتے تھے۔

عید کے دوسرے اور تیسرے دن رشتہ داروں کہ یہاں جانا ہوتا تھا جہاں روایتی اور غیر روایتی اشیائے خورونوش سے تواضع کی جاتی اور ان سب کے ساتھ لازمی مشروب پیپسی کا ہوتا۔ میرے خیال سے پاکستان میں سب سے زیادہ پیپسی ملتان میں پی جاتی ہے۔ جیسے کسی زمانے میں سب سے زیادہ پجارو گاڑیاں ملتان میں ہوتی تھیں اسی طرح سب سے زیادہ پیپسی پینے کا ریکارڈ بھی ’زندہ معدان ملتان‘ کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ کھانا کھا رہے ہیں تو دستر خوان پر پیپسی لازمی ہے۔ شام کی چائے پر کسی کے یہاں گئے ہیں تو پہلے دہی بڑوں کے ساتھ پیپسی ملے گی اور اگر سو رہے ہیں تو پلنگ کے نیچے پیپسی رکھی ہوگی۔

ایک عید پر میں کچھ زیادہ رشتہ داروں سے ملنے چلا گیا۔ اس دن اتنی پیپسی کہ مٹھاس کی وجہ سے مجھے اپنے تمام دانت ہلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ اس کے علاوہ معدے میں تیزابیت سے اتنے بخارات بنے کہ میں گھر کے ’گیس‘ کنکشن کو کٹوانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ شکر ہے اگلے دن طبعیت بہتر ہوئی ورنہ اپنے فیصلے پر پچھتانا پڑتا۔

عید پر دیسی کھلونوں کی بھی اپنی شان ہوتی تھی۔ 9 نمبر چونگی سے عید گاہ کی طرف جائیں تو سڑک کے اطراف فٹ پاتھ پر گڈی کاغذ اور تنکوں سے بنے کھلونے پیچنے والے بیٹھے ہوتے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی چیز رنگ برنگے کاغذ اور تنکوں سے بنے گھوڑے ہوتے تھے۔ ربڑ بینڈ اور تنکوں سے بنی ایک چھوٹی سی دو پہیوں کی گاڑی بھی ملا کرتی تھی جو دھاگے سے کھینچ کر چلانے پر ٹر ٹر کی آواز نکالتی تھی۔ یہ گاڑی بچے عیدی کے پیسوں سے خرید کر محلے اور گھروں میں لیے پھرتے اور یہ ’ٹرٹراتی موسیقی‘ تمام محلے کے لوگوں اور گھر والوں کے سکون کو عید کے پر مسرت موقع پر بطریق احسن حرام کرتی۔

اس کے علاوہ پی ٹی وی پر عید کی خصوصی ٹرانسمیشن سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا تھا۔ عید کی رات کو کوئی ایک پاکستانی فلم بھی دکھائی جاتی تھی۔ عید کی دوپہر یا پھر رات کو لازمی طور پر تقریباً سارا ملتان نواں شہر چوک کے پاس واقع بابا آئس کریم کھانے ضرور آتا تھا۔ جیسے مشہور ہے کہ ’ڈیو نہ پیا تو پھر کیا جیا‘ بالکل ایسے ہی اگر ملتان میں عید پر بابا آئس کریم نہیں کھائی تو عید نہیں منائی آپ نے۔

عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی عید کے معنی بدل جاتے ہیں۔ عیدی لینے کے بجائے دینی پڑتی ہے۔ ملنا ملانا کم ہوتا جا رہا ہے اور عید کا دن تو اکثر لوگ سو کر گزار دیتے ہیں۔ بچپن تو واپس نہیں آ سکتا لیکن اگر کوشش کریں تو وہ جذبہ بیدار کیا جا سکتا ہے جس سے اس تہوار کی خوشیوں کو چار چاند لگ جائیں۔

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔