افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم کے منصوبے کے بانی کابل سے گرفتار
افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے منصوبے کے بانی کو کابل میں طالبان حکام نے گرفتار کر لیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان طالبان نے گزشتہ سال لڑکیوں کی سیکنڈری اسکول کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی جس کے ساتھ افغانستان پہلا ملک بن گیا تھا جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے ٹوئٹ کی کہ ’پین پاتھ‘ کے سربراہ اور لڑکیوں کی تعلیم کے حامی مطیع اللہ ویسا کو پیر کو کابل میں گرفتار کر لیا گیا۔
مطیع اللہ کے بھائی نے گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پیر کی نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد کے باہر سے گرفتار کیا گیا۔
سمیع اللہ ویسا نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ مطیع اللہ نماز ختم کر کے مسجد سے باہر نکلے تو دو گاڑیوں میں سوار افراد نے انہیں روکا، جب مطیع اللہ نے ان سے ان کی شناخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مار پیٹ کی اور انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔
مطیع اللہ کی جانب سے قائم کی گئی تنظیم اسکولوں کے لیے مہم چلاتی ہے اور دیہی علاقوں میں کتب تقسیم کرتی ہے اور ایک عرصے سے قبائلی عمائدین کو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے قائل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
مطیع اللہ نے گزشتہ ہفتے افغانستان میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر ٹوئٹ کی تھی کہ ہم لڑکیوں کے اسکول کھلنے کے منتظر ہیں، اسکولوں کی بندش سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مقامی لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اگر اسکول بند رہے تو ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
اگست 2021 میں امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کرتے ہوئے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کردیے تھے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ اسلامی خطوط پر نصاب کو دوبارہ مرتب کرنے کے لیے ان کے پاس فنڈز اور وقت کی کمی ہے۔
طالبان حکام نے 1996 سے 2001 تک اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران بھی ایسی ہی یقین دہانیاں کروائی تھیں لیکن پانچ سالوں میں لڑکیوں کے اسکول کبھی نہیں کھلے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف حکم افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور ان کے انتہائی قدامت پسند معاونین نے دیا ہے جو جدید تعلیم بالخصوص خواتین کی تعلیم کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔
البتہ سابقہ حکومت کے برعکس اس مرتبہ کابل حکومت کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ساتھ بہت سے اہم حکومتی اکابرین بھی اس فیصلے کے خلاف ہیں اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے رویے آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہے ہیں۔