نقطہ نظر

توشہ خانہ تحائف: کہانی گھڑی گھڑی کی۔۔۔

سیاستدان ہوں، بیوروکریٹس یا پھر فوجی اہلکار، گمان ہوتا ہے جیسے ان سب کو توشہ خانہ کی گھڑیوں سے خاص رغبت ہے۔

حکومت کی جانب سے توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے کے بعد یہ تحریر پہلی بار مارچ 2023 میں شائع کی گئی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی جزوی تعمیل کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے اس ماہ کے آغاز میں توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات عام کیں جس سے یہ آشکار ہوا کہ سرکاری دفاتر میں بیٹھے سیاستدانوں کو گھڑیوں کا بےحد شوق ہے۔

سیاستدان ہوں، بیوروکریٹس یا پھر فوجی اہلکار، گمان ہوتا ہے جیسے غیر ملکی دوروں یا سربراہانِ مملکت کے دورہِ پاکستان کے دوران جتنے تحائف انہیں ملتے ہیں ان میں سے مہنگی گھڑیوں کی کشش سب ہی کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔

اگرچہ ہمارے حکمرانوں کو ملنے والے تحائف میں زیورات، نوادرات، لگژری گاڑیوں سے لےکر ہتھیار تک موجود ہوتے ہیں لیکن اس مضمون میں ہم ان گھڑیوں پر توجہ دیں گے جو ہمارے ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے 2008ء سے حاصل کی ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ جب ہم توشہ خانہ کے ریکارڈ پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 2002ء سے تحائف کی صورت میں دی جانے والی اشیا میں سب سے زیادہ تعداد گھڑیوں کی ہے اور ان تحائف میں مجموعی طور پر 1260 گھڑیاں شامل ہیں (بشمول جیبی اور ٹیبل گھڑیاں)۔

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کا ریکارڈ منظرِعام پر لائے جانے کے فیصلے سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے رکھی جانے والی گھڑی اور بعدازاں اسے بیچنے کی تفصیلات میڈیا میں لیک ہوگئی تھیں۔ ان حقائق نے ملک میں سنسنی پھیلا دی تھی جبکہ یہ معاملہ تمام نیوز چینلز اور اخباروں کی شہ سرخیوں کی زینت بنا تھا۔

اس وقت عمران خان کروڑوں مالیت کی گھڑیوں کی وجہ سے قومی احتساب بیورو کی جانب سے کرپشن کی تحقیقات کا سامنا بھی کررہے ہیں۔ اسی دوران موجودہ حکومت اور اس کے کئی وزرا ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر باقاعدگی سے یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین ’گھڑی چور‘ ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے توشہ خانہ کے تحائف سے فائدہ اٹھایا۔

سرکاری ریکارڈ سامنے آنے کے بعد انکشاف ہوا کہ ’گھڑی چور‘ پر تنقید کرنے والے بہت سے ناموں نے توشہ خانہ سے گھڑیاں لی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی آشکار ہوا کہ سیاسی جماعتوں میں تو یہ عام رواج تصور کیا جاتا ہے۔

ملک کے موجودہ سیاسی بیانیے میں گھڑیوں کے معاملے پر برپا اس ہلچل اور کچھ افراد پر اس کے قانونی اثرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ بات دلچسپ لگی کہ ہم ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کا اس معاملے پر موازنہ کریں اور توشہ خانہ کی گھڑیوں کے ساتھ ان کے تعلق پر نظر ڈالیں۔

موازنے کا یہ عمل کافی تھکا دینے والا تھا کیونکہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات پی ڈی ایف کی صورت میں تھیں اور ان میں سیکڑوں صفحات پر ہزاروں اندراجات تھے۔ کہیں تو صرف وصول کنندہ کا عہدہ (جیسے وزیرِ دفاع پاکستان) درج تھا تو ہمیں تصدیق کے لیے خود تحقیق کرنی پڑ رہی تھی کہ دستاویز پر درج تاریخ پر اس عہدے پر کون موجود تھا۔

2008ء سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے لی جانے والی گھڑیوں (کلائی پر باندھی جانے والی) کی تفصیلات کو الگ کرنے کے بعد ڈان ڈاٹ کام کے سامنے یہ حقائق آئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت (13-2008ء)

پی پی پی کے رہنماؤں نے مجموعی طور پر ایک کروڑ 22 لاکھ روپے مالیت کی 60 گھڑیاں توشہ خانہ سے حاصل کیں۔ انہوں نے ان تمام گھڑیوں کے عوض 20 لاکھ روپے سے کچھ زیادہ کی رقم ادا کی۔

اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، ان کے گھروالوں اور مہمانوں نے 21 لاکھ روپے مالیت کی 9 گھڑیاں حاصل کیں جس کے لیے انہوں نے 3 لاکھ 51 ہزار 526 روپے ادا کیے۔

2008ء سے 2013ء تک صدرِ مملکت رہنے والے پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے 44 لاکھ روپے مالیت کی 8 گھڑیاں، 7 لاکھ روپے کی رقم کے عوض حاصل کیں۔

اس دور کے وزیر برائے پانی اور توانائی اور بعد ازاں یوسف رضا گیلانی کے نااہل ہونے کے بعد 2012ء میں وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے والے راجہ پرویز اشرف اور ان کے گھروالوں نے 12 لاکھ روپے مالیت کی 5 گھڑیاں، توشہ خانہ سے 2 لاکھ 30 ہزار 410 روپے ادا کرکے حاصل کیں۔

پی پی پی کی حکومت میں وزیرِ پیٹرولیم کا عہدہ سنبھالنے والے ڈاکٹر عاصم حسین نے بھی 5 لاکھ 45 ہزار روپے مالیت کی 5 گھڑیاں حاصل کیں جس کے لیے انہوں نے 95 ہزار 962 روپے ادا کیے۔

پی پی پی کی حکومت میں کن کن رہنماؤں نے توشہ خانہ سے گھڑیاں حاصل کیں، اس کی مکمل تفصیلات جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔

مسلم لیگ (ن) کا دورِ حکومت (2013ء-18ء اور 2008ء میں مختصر دورِ حکومت)

مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے 17 کروڑ 30 لاکھ مالیت کی 54 گھڑیوں کے لیے صرف 3 کروڑ 45 لاکھ روپے کی رقم ادا کی۔

نواز شریف کی کابینہ میں وزیرِ پیٹرولیم اور بعد ازاں 2017ء میں وزیرِاعظم پاکستان بننے والے شاہد خاقان عباسی اور ان کے گھر والوں نے 12 گھڑیاں (جن میں 4 رولیکس اور 3 ہوبلوٹ بھی شامل ہیں) جوکہ 10 کروڑ 10 لاکھ روپے کی خطیر مالیت کی تھیں، انہیں صرف 2 کروڑ روپے ادا کرکے حاصل کرلیا۔

حاصل کی گئی گھڑیوں کی تعداد اور مالیات کے اعتبار سے تینوں جماعتوں کے رہنماؤں میں شاہد خاقان عباسی کا نام سرفہرست ہیں۔

مسلم لیگ ن کے قائد اور پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے گھر والوں نے 11 گھڑیاں توشہ خانہ سے حاصل کیں جن میں سے 5 رولیکس گھڑیاں ہیں۔ ان کی مالیت ایک کروڑ 76 لاکھ روپے ہے جبکہ ان گھڑیوں کی عوض انہوں نے 35 لاکھ روپے کی رقم ادا کی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے خواجہ آصف نے بھی توشہ خانہ سے 4 کروڑ 14 لاکھ مالیت کی 5 گھڑیاں حاصل کیں جس کے لیے انہوں نے 82 لاکھ روپے ادا کیے۔

سابق صدرِ مملکت ممنون حسین اور ان کے گھر والوں نے بھی 27 لاکھ مالیت کی 5 گھڑیاں توشہ خانہ سے حاصل کیں جس کے لیے انہوں نے 5 لاکھ 35 ہزار 60 روپے ادا کیے۔

2008ء سے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے حاصل کی گئی گھڑیوں کی مکمل تفصیلات جاننے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کا دورِ حکومت (22-2018ء)

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے 11 کروڑ 10 لاکھ مالیت کی 20 گھڑیاں 2 کروڑ 70 لاکھ کی رقم ادا کرکے حاصل کیں۔

پارٹی چیئرمین عمران خان نے بطور وزیراعظم 9 کروڑ 66 لاکھ روپے میں 7 گھڑیاں حاصل کیں جس بنا پر وہ مجموعی طور پر گھڑیوں کی مالیت کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر موجود ہیں۔

انہوں نے ان گھڑیوں کے لیے 2 کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقم ادا کی۔ ان میں 5 رولیکس اور ایک گراف گھڑی بھی شامل تھی۔

عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے اورسیز پاکستانی، زلفی بخاری نے 20 لاکھ روپے مالیت کی 3 گھڑیاں توشہ خانہ سے 9 لاکھ 50 ہزار روپے ادا کرکے حاصل کیں۔

وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز رہنے والے شاہ محمود قریشی نے بھی توشہ خانہ سے 8 لاکھ 70 ہزار روپے کے عوض 2 گھڑیاں اپنی ذاتی ملکیت میں لیں جن کی مالیت کا تخمینہ 18 لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے دور میں وزیر دفاع رہنے والے پرویز خٹک نے 13 لاکھ مالیت کی 2 گھڑیاں 2 لاکھ 54 ہزار کی رقم ادا کرکے حاصل کیں۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے حاصل کی گئی گھڑیوں کی مکمل تفصیلات جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔

قانونی چوری؟

ان میں سے کوئی بھی لین دین، کم از کم دستاویزات کے تحت غیرقانونی نہیں تھی۔

ایسا توشہ خانہ کے قوانین کی وجہ سے ہے جس کی منظوری وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے دی تھی۔ ان قوانین کے تحت حکام کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ تحائف کی کل قیمت کا کچھ حصہ ادا کرکے انہیں اپنی ذاتی ملکیت میں لے سکتے ہیں۔

جب 2008ء میں پی پی پی اقتدار میں آئی تب وصول کنندہ کو 10 ہزار روپے تک مالیت کے تحائف بغیر کوئی رقم ادا کیے بغیر ہی اپنے پاس رکھنے کی اجازت تھی۔ 10 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کے لیے انہیں مجموعی مالیت کا 15 فیصد ادا کرنا ہوتا تھا۔

اُس وقت صدر اور وزیراعظم کے علاوہ کوئی بھی 4 لاکھ سے زائد مالیت کا تحفہ نہیں رکھ سکتا تھا اور تحائف پر 10 لاکھ روپے کی سالانہ حد بھی مقرر تھی۔ اگر کوئی اس مقرر کردہ سالانہ حد سے تجاوز کرنا چاہتا تھا تو اسے تحفے کی کل مالیت کا 65 فیصد ادا کرنا پڑتا تھا۔

سال 2011ء میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قوانین میں تبدیلی کی جس کے نتیجے میں 10 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کو ذاتی ملکیت میں لینے کے لیے ادا کی جانے والے رقم کو 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کردیا گیا۔ انہوں نے تحفے کی قیمت کی حد کو 4 لاکھ سے 10 لاکھ روپے کردیا اور 10 لاکھ کی مقررہ سالانہ حد کو بھی تبدیل کرکے 25 لاکھ کردیا۔

شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں یہ شرح 20 فیصد پر برقرار رکھی گئی لیکن 30 ہزار مالیت تک کے تحائف کو مفت میں رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے تحفے کی مالیت کی حد اور سالانہ حد کو بھی یکسر ختم کردیا۔

حدود کے خاتمے کی وجہ سے ہی ہم نے دیکھا کہ وزرا مثلاً خواجہ آصف نے بھاری مالیت کی بیش قیمت گھڑیاں اپنی ذاتی ملکیت میں لے لیں جبکہ اس سے قبل یہ اجازت صرف وزیراعظم یا صدر کو ہوتی تھی۔

بعدازاں 2018ء میں عمران خان نے تحائف رکھنے کے لیے ادا کی جانے والی رقم کی شرح کو کل مالیت کا 50 فیصد کردیا۔

کچھ اہم نکات

جہاں تک گھڑیوں سمیت تمام تحائف کی کل مالیت کا تعلق ہے تو ہمارے سامنے وہ عمل نہیں ہے جس کے تحت توشہ خانہ کے تحائف کی مالیت کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی آزادانہ طریقہ کار ہے جس سے ان تحائف کی مالیت کی تصدیق ہوسکے۔

جب ہم نے ملک کی 3 بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کو ملنے والی گھڑیوں کی تفصیلات کا جائزہ لیا تو یہ سامنے آیا ہے کہ 2015ء کے بعد سے تحائف کی مالیت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

مثال کے طور پر 2008ء سے 2013ء تک پی پی پی کے دورِ حکومت میں آصف زرداری کو پیش کی جانے والی سب سے مہنگی گھڑی کی قیمت 13 لاکھ روپے تھی۔ اگر اعداوشمار کو دیکھ کر حساب لگایا جائے تو پی پی پی نے تینوں سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ گھڑیاں وصول کیں جن کی مجموعی مالیت ایک کروڑ 20 لاکھ روپے ہے جوکہ حیرت انگیز طور پر پی ٹی آئی کے 11 کروڑ 10 لاکھ اور مسلم لیگ (ن) کے 17 کروڑ 30 لاکھ سے بھی کم ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت (2013ء-18ء) میں خواجہ آصف کو مہنگی ترین گھڑی پیش کی گئی۔ انہیں 2017ء میں 3 کروڑ 50 لاکھ مالیت کی گھڑی تحفے میں ملی۔ اس سے ایک سال قبل اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بھی 40 لاکھ روپے کی گھڑی بطورِ تحفہ پیش کی گئی تھی۔

اسی طرح عمران خان کو بھی 2018ء میں 8 کروڑ 50 لاکھ مالیت کی ایک گھڑی بطور تحفہ پیش کی گئی۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی پی پی اور بعد میں آنے والی حکومتوں کے دوران گھڑیوں کی مالیت میں واضح فرق سے گمان ہوتا ہے کہ جیسے پی پی کے دور میں بطور تحفہ ملنے والی گھڑیوں کی قیمتیں کم ظاہر کی گئی ہے۔ لیکن ہمارے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

توشہ خانہ حکام کی جانب سے تحائف کی قیمت کا تخمینہ لگانا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ 2 ہفتے پہلے تک ان تحائف کو اپنی ذاتی ملکیت میں لینے کے لیے تحفے وصول کرنے والے مجموعی رقم کی مختص شرح ادا کرتے تھے۔ تخمینہ جتنا کم ہوگا اتنی ہی کم قیمت ادا کرکے سیاسی رہنما توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرسکتے ہیں۔

توشہ خانہ کی اس پوری داستان کا شاید صرف ایک مثبت پہلو یہی ہے کہ توشہ خانہ کی تفصیلات منظرعام پر لانے سے بلآخر حکومت کو اپنے قوانین تبدیل کرنے پر مجبور کیا تاکہ ہمارے سیاستدانوں کی جانب سے کروڑوں روپے مالیت کے ایسے بیش قیمت تحائف صرف معمولی سی رقم ادا کرکے ذاتی ملکیت بنانے کے رواج کا خاتمہ ہوسکے۔

اگرچہ ہائی کورٹ نے تمام تفصیلات جاری کرنے کا حکم دیا تھا لیکن حکومت نے صرف 2002ء اور اس کے بعد کی تفصیلات کو ہی شائع کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ 90 کی دہائی اور اس سے قبل کی توشہ خانہ کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے لائی جائیں گی۔


ہیڈر: شاہزیب احمد

انفوگرافکس: حوّا فضل


یہ مضمون 25 مارچ 2023ء کو ڈان ڈاٹ کام پر شائع ہوا۔

محمد عمر حیات

عمر حیات ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: hayat_omer@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔