پی ٹی آئی رہنما حسان نیازی کا کراچی میں درج مقدمے میں دو روزہ راہداری ریمانڈ منظور
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکن ظل شاہ کی موت کے حوالے سے درج مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن حسان خان نیازی کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کردی جبکہ کراچی میں درج مقدمے میں دو روزہ راہداری ریمانڈ منظور کرلیا۔
پولیس نے ظل شاہ قتل کیس میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما اور عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کو انسداد دہشت گری عدالت پیش کردیا جہاں جج عبہر گل نے سماعت کی۔
حسان نیازی کو سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا گیا اور اس دوران حسان نیازی نے آئین پاکستان کی کتاب پکڑ رکھی تھی۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو جج عبہر گل نے تفتیشی افسر نے استفسار کیا کہ ملزم کہاں ہے، جس پر وکلا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ باہر گاڑی میں ہیں اور پولیس کہہ رہی ہے کہ آپ اجازت دیں گی تو لائیں گے۔
اس کے بعد پولیس نے حسان نیازی کو کمرہ عدالت میں پہنچا دیا جہاں تفتیشی افسر کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم کا فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کروانا ہے، لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی برآمد کرنا ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جو حملہ ہوا اور ہنگامہ آرائی ہوئی وہ حسان نیازی کی ایما پر ہوئی اور تمام واقعات کی تفتیش کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
حسان نیازی کے وکیل نے جسمانی ریمانڈ کے خلاف دلائل دیے اور کہا کہ حسان نیازی ایک معروف وکیل اور پی ٹی آئی کا رہنما ہے، انہیں بدنیتی سے مقدمے میں ملوث کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر بدنیتی کی بنیاد پر درج کی گئی، غلط مقدمے میں گرفتاری غیر قانونی ہے۔
دونوں طرف سے دلائل مکمل ہونے کے بعد جج عبہر گل نے حسان نیازی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پولیس کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
انسداد دہشت گری عدالت نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے حسان نیازی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
تاہم لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے حسان نیازی کو کراچی درج مقدمے میں کراچی لے جانے کے لیے دو روزہ راہداری ریمانڈ منظور کر لیا۔
خیال رہے کہ پنجاب پولیس نے گزشتہ روز حسان نیازی کو لاہور کے ریس کورس تھانے میں درج مقدمہ کے سلسلے میں کوئٹہ سے لاہور منتقل کیا تھا۔
پی ٹی آئی رہنما حسان نیازی پر لاہور کے ریس کورس تھانے میں ڈی ایس پی شبیر علی کی شکایت پر 9 مارچ کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی جو کہ زمان پارک کے باہر جھڑپوں میں زخمی ہوئے تھے۔
حسان نیازی پر قتل، اقدام قتل، فسادات، غیر قانونی طور پر جمع ہونے، سرکاری ملازمین کو فرائض انجام دینے سے جبری روکنے سمیت متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 کو بھی مقدمے میں شامل کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں پی ٹی آئی رکن علی بلال عرف ظل شاہ کی ہلاکت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ حسان نیازی کو پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدسلوکی کے مقدمے میں 20 مارچ کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ متعلقہ تین دیگر مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے کے بعد فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد سے باہر آرہے تھے۔
یہ مقدمات 28 فروری اور 18 مارچ کو پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس میں حاضری کے دوران ہونے والے تشدد کے خلاف درج کیے گئے تھے۔
خیال رہے کہ 21 مارچ کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے حسان نیازی کو دو دن جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا، بعد ازاں ان کا عارضی ریمانڈ مکمل ہونے پر انہیں 14 دن کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
تاہم اس کے بعد کوئٹہ پولیس نے حسان نیازی کے خلاف تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کی دفعات 109 (اکسانے)، 147 (فساد)، 149 (غیر قانونی اجتماع)، 153 (فساد پر اکسانے) اور 347 (غلط طریقے سے روک تھام) کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔
کوئٹہ کے ایئرپورٹ پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر نے 24 مارچ کو اسلام آباد کی عدالت میں درخواست دائر کی جس میں حسان نیازی کو کوئٹہ کے جج کے سامنے پیش کرنے کے لیے عبوری ریمانڈ کی استدعا کی گئی جوبعد میں منظور کرلی گئی تھی۔
کوئٹہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ایک روز بعد پولیس کی جانب سے حسان نیازی کے 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف بلوچستان میں درج مقدمے میں عبوری ضمانت منظور کر لی تھی۔
دوسری جانب اسلام آباد کے سول جج نے پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کے مقدمے میں پی ٹی آئی رہنما کی بعد از گرفتاری ضمانت بھی منظور کر لی تھی لیکن اس کے باوجود ہفتے کی شام تک پی ٹی آئی رہنما کو جیل سے رہا نہیں کیا گیا۔
اداروں کے سربراہان کو ’کوڈ ورڈ‘ میں دھمکیاں دینے پر کراچی میں مقدمہ درج
دوسری جانب جمشید کوارٹرز پولیس نے بھی حسان نیازی کے خلاف ’کوڈ ورڈز‘میں اداروں کے سربراہان کو دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا۔
پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ حسان نیازی کے خلاف مقدمہ نجی شہری کی شکایت پر درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق شکایت کنندہ محمد اقبال نے بتایا کہ وہ کراچی کی لسبیلہ کی محمد کالونی کا رہائشی ہے اور اپنا ذاتی کاروبار کرتا ہے، وہ 26 مارچ کو اپنے گھر کے اندر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ ایک شخص مختلف وٹس ایپ گروپس اور ٹک ٹاکرز کو انٹرویو دے رہا ہے اور وارننگ دے رہا ہے کہ اگر ’خان‘ کو گرفتار کیا گیا تو کسی حاجی یا حافظ کی عزت نہیں کی جائے گی، دما دم مست قلندر ہوگا، ملک میں خانہ جنگی ہو گی۔
شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ اسے معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص حسان نیازی تھا جو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لوگوں کو ’بغاوت‘ پر اکسارہا تھا اور ملک کے دفاعی اداروں کے سابق اور موجودہ سربراہان کو ’کوڈ ورڈز‘ میں دھمکیاں دے رہا تھا۔
شکایت کنندہ نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے مذکورہ شخص نے ملک کے دفاعی اداروں اور عوام کی ’توہین‘ کی اور عوام کو اشتعال دلایا، اس سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا اور اس سے عوام بھی غم و غصے میں مبتلا ہے، اس لیے وہ حسان نیازی کے خلاف قانونی کارروائی چاہتا ہے۔
پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 121، 124-اے، 153-اے، 505 اور 34 کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔