پاکستان

پولیس نے پنجاب بھر سے پی ٹی آئی کے ’سیکڑوں‘ کارکنان گرفتار کرلیے

گرفتاریوں کے لیے پی ٹی آئی کارکنوں کی فہرستیں تمام ڈپٹی کمشنرز نے پولیس کے حوالے کی تھیں۔

پنجاب پولیس نے صوبہ بھر میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا، ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ افراتفری اور تشدد کو روکنے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سڑکیں بند کی گئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گرفتاریوں کے لیے پی ٹی آئی کارکنوں کی فہرستیں تمام ڈپٹی کمشنرز نے پولیس کے حوالے کی تھیں۔

پی ٹی آئی کے کارکنان اپنے گھروں پر پولیس کے چھاپوں کی ویڈیوز بھی ٹوئٹ کر رہے تھے جس میں پولیس کو پی ٹی آئی کے عہدیداروں کے گھروں کے باہر کھڑا دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس نے سیالکوٹ میں پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کے گھر پر چھاپہ مارا جن کا کہنا تھا کہ ایک ٹیم نے ان کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا تاکہ کارکنان لاہور کے جلسے میں شرکت نہ کر سکیں۔

ایک اور چھاپے میں مظفر گڑھ پولیس نے روزنامہ ’بیٹھک‘ ملتان کے چیف رپورٹر اعظم ملک کو تحریک انصاف کی حمایت کرنے پر حراست میں لے لیا۔

اعظم ملک نے کہا کہ ڈی سی آفس کی تیار کردہ فہرست میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سیکڑوں دیگر (پی ٹی آئی کارکنوں کے علاوہ) افراد کو بھی پولیس نے حراست میں لیا گیا ہے، روٹیاں خریدنے کے لیے تندور پر کھڑے ایک بوڑھے کو بھی پی ٹی آئی کارکن کے طور پر اٹھایا گیا اور میرے ساتھ لاک اَپ میں بند کر دیا گیا۔

اعظم ملک نے دعویٰ کیا کہ پولیس اہلکار فہرستوں کے مطابق گرفتاریاں نہیں کر رہے لیکن وہ گرفتاری ظاہر کرنے کے لیے لوگوں کو ویسے ہی حراست میں لے رہے تھے اور اس کا (کسی نہ کسی طرح) پی ٹی آئی کو فائدہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں 4 سے 5 گھنٹے تک پولیس کی حراست میں رہنا پڑا اور بعد میں ان کے دفتر نے سینئر افسران سے رابطہ کیا جنہوں نے ان کی رہائی کا انتظام کیا۔

ایک ٹیم نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما، پی پی 158 سے امیدوار، مہتاب حسین کی لاہور میں رہائش گاہ پر چھاپہ مارا لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھے۔

ملتان میں پولیس نے چھاپہ مار کر سابق ایم پی اے جاوید اختر انصاری کے بیٹے کو گرفتار کر لیا اور ضلع بھر سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔

کئی ٹیموں نے میاں چنوں، لودھراں، وہاڑی اور فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا۔

پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ 18 سو کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، تاہم عمران خان نے مینار پاکستان جاتے ہوئے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس نے 16 سو کارکنوں کو گرفتار کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیاسی اجتماعات کی اجازت دینے کے باوجود حکومت نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے شہر کے مختلف حصوں میں کنٹینرز لگا رکھے ہیں۔

دریں اثنا ضلعی انتظامیہ نے صوبائی دارالحکومت میں داخلی اور خارجی راستوں سمیت تمام راستوں کو بند کرنے کے لیے کنٹینرز اور ٹرک کھڑے کردیے۔

پولیس نے شہر کے اہم داخلی اور خارجی راستوں راوی پُل اور ٹھوکر نیاز بیگ سمیت شہر کی اہم سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں جس سے مسافروں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

پولیس نے لوگوں سے متبادل راستے اختیار کرنے کو کہا۔

کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) بلال صدیق کمیانہ نے کہا کہ پولیس نے کسی بھی سڑک کو بلاک نہیں کیا اور شہریوں کو سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب چیکنگ کے بعد شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے ہیں اور اسے سڑکیں بلاک کرنے کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔

پولیس افسر نے کہا کہ وہ جلسے کے شرکا کی حفاظت کو یقینی بنا رہے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے بیریکیڈ اور کنٹینرز لگائے گئے ہیں، شہریوں کو مکمل حفاظتی چیکنگ کے بعد کہیں بھی جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔

پی ٹی آئی کارکن اظہر مشوانی کی ’گمشدگی‘ کی ایف آئی آر بالآخر درج

گلگت بلتستان پولیس کے وزیراعلیٰ کے ساتھ خطے سے باہر جانے پر ’پابندی‘

مردم شماری میں لوگوں کو وہیں شمار کیا جائے گا جہاں وہ رہائش پذیر ہیں، عہدیدار ادارہ شماریات