پاکستان

پی ٹی آئی کی پنجاب کے انتخاب ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر

سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیالہٰذا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے جنرل سیکریٹری اسد عمر، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، اسپیکر کے پی اسمبلی مشتاق غنی، پی ٹی آئی رہنماؤں میاں محمود الرشید اور عبد الرحمٰن نے سپریم کورٹ میں مشترکہ درخواست دائر کی۔

سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا، وزارت پارلیمانی امور، وزارت قانون اور کابینہ کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 30 اپریل کو صوبے میں انتخابات کرانے کا حکم دیا جائے۔

سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان کرنے کی ہدایت کی جائے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے 23 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

لاہور میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں، ایک ایسا فیصلہ دیا گیا جو آئین اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے اپنے مؤقف سے بھی متصادم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب عدالتوں میں یہ معاملہ گیا تو الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ آئین میں گنجائش نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن خود انتخابات کی تاریخ کا تعین کرسکے، اب پتا نہیں انہوں نے کون سی آئینی شق دیکھ لی جس کے مطابق اب 90 روز میں نہ صرف انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ وہ فیصلہ کرلے کہ اس نے کب الیکشن کا انعقاد کرانا ہے۔

سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں اسلام اباد کے شہری ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے معاملے پر وزیر اعظم شہبازشریف، نگراں وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی، خیبرپختونخوا کے گورنر اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو پنجاب اور کے پی میں عام انتخابات کروانے کاحکم دیا اور آئین کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درامد کے پابند ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی آئین کے آرٹیکل-204 کے تحت توہین عدالت کے ذمرے میں آتی ہے، حکومت دستیاب فنڈ ایسے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے جنہیں انتخابات پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے حکم کی تشریح بھی درست طور پر نہیں کر رہی ہے اور غلط تشریح کر کے انتخابات سے فرار حاصل کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت فریقین کے خلاف آئین کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائے اور فریقین کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انتخابات کروانے کا حکم صادر کرے۔

پنجاب میں انتخابات کے التوا کا فیصلہ

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے شروع میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کےتحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔

اس سے قبل رواں ماہ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کے لیے شیڈول جاری کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ 3 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 30 اپریل بروز اتوار کرانے کی تجویز دی تھی۔

ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کرنے کے بعد کیا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں کرائے جائیں، تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی تھی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے ’کم سے کم‘ تاخیر کا شکار ہو۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اور گورنرز الیکشن کمیشن پاکستان کی مشاورت سے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تاریخیں طے کریں گے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئیں، قانون کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔

اس طرح 14 اپریل اور 17 اپریل پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ تھی لیکن دونوں گورنرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز ملنے کے بعد انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کا کہا تھا۔

لاہور: عمران خان انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش، 3 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور

راجستھان: بھارتی فوج کی مشق کے دوران 3 میزائل غلط فائر ہوگئے

اسلام آباد ہائیکورٹ: پی ٹی آئی قیادت کی تمام مقدمات میں تحفظ دینے کی درخواست مسترد