پاکستان

بحرانوں میں گِھرا پی ڈی ایم حکومت کا ایک سال

گزشتہ سال حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ملک معاشی، آئینی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
|

9 اپریل 2022 کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کو آئین میں درج طریقہ کار یعنی ’تحریک عدم اعتماد‘ کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے مسند اقتدار سنبھال لی۔

تاہم اس وقت سے ملک کو سیاسی افراتفری، معاشی عدم استحکام اور آئینی بحران کا سامنا ہے۔

اس سیاسی بے چینی نے جہاں ملک کا سماجی تانا بانا ادھیڑ کر رکھ دیا وہیں معاشی اور سیکیورٹی منظر نامے پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

اس پورے سال کے دوران وطن عزیز میں کئی اہم، غیر معمولی اور ایسے واقعات پیش آئے جنہیں پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

9 اپریل کی رات پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں انتہائی ڈرامائی صورتحال دیکھنے میں آئی جب عدالت کے حکم پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کے بجائے اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر مستعفی ہوگئے تھے۔

چنانچہ پینل آف چیئر کے رکن کی حیثیت سے سردار ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی اجلاس ہوا جس میں عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئی اور وہ اپنے منصب سے فارغ ہوگئے۔

عمران خان حکومت ختم ہوجانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت تشکیل دی جس کے لیے شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔

نئی حکومت کے حلف اٹھانے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ایک بار پھر طلب کیا گیا جس کے اعلامیے میں بتایا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں عمران خان کی حکومت ہٹانے میں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

بعد ازاں اکتوبر میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور سائفر کو من گھڑت کہانی قرار دیا۔

ڈی جی آئی ایس آئی اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آچکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے، پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

دریں اثنا پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے حکومت کے خاتمے کے خلاف اسلام آباد کی جانب 25 مئی کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا گیا جس میں 20 لاکھ افراد لانے کا دعویٰ کیا گیا تھا جبکہ حکومت نے اس مارچ کو روکنے کا اعلان کیا تھا۔

چنانچہ 25 مئی کو عمران خان اپنے کارکنان کے ہمراہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے، اس دوران حکومت نے مختلف شہروں میں دفعہ 144 نافذ کردی تھی اور پنجاب خاص کر لاہور کے مختلف مقامات پر پی ٹی آئی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔

تاہم رات گئے اسلام آباد پہنچنے کے بعد دھرنا دینے کے اعلان کے باوجود عمران خان نے اچانک صبح سویرے ہی مارچ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے 6 روز بعد دوبارہ اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دینے کا دعویٰ کیا جو کہ پورا نہ ہوسکا۔ البتہ اس دوران اسلام آباد میں نامعلوم افراد کی جانب سے توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔

اس کے بعد پی ٹی آئی رہنماوں اور کارکنان کے خلاف ملک بھر میں دفعہ 144 اور توڑ پھوڑ کے متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے جو اب تک زیر سماعت ہیں۔

اسی دوران سپریم کورٹ میں ایک اہم معاملہ بھی زیر سماعت رہا۔

21 مارچ کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد حکومتی اراکین کی جانب سے وفاداری بدلنے پر ممکنہ نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں 4 سوالات اٹھائے گئے تھے۔

جس پر 2 کے مقابلے 3 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے قرار دیا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

سپریم کورٹ نے بتایا کہ انحراف ایک نقصان دہ عمل ہے جس میں سیاسی جماعتیں غیرمستحکم ہوجاتی ہیں اور اس سے پارلیمانی جمہوریت غیرقانونی بن جاتی ہے۔

فیصلے میں کہا کہ ایوان میں ایک پارلیمانی پارٹی کا کسی بھی رکن کا ووٹ آرٹیکل 63-اے کی ذیلی شق ایک کے پیرا بی کے تحت اول الذکر کی جاری کردہ کسی ہدایت کے خلاف دیا جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا اور اس بات سے قطع نظر کہ پارٹی سربراہ انحراف کی وجہ بننے والے ووٹ کے بعد کارروائی کرے یا نہ کرے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ انحراف کے تعین پر آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی اگر پارلیمان مناسب قانون بنائے تو ہوسکتی ہے۔

مرکزی حکومت ہاتھ سے جانےکے دوران ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کردی گئی تھی جس پر 28 مارچ کو پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو تھما دیا تھا۔

جس کے بعد پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے تعاون سے مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، اس عرصے میں صوبائی اسمبلی کے کچھ اجلاس شدید ہنگامہ آرائی کی نذر بھی ہوئے۔

اس وقت تک صوبے میں پی ٹی آئی کے گورنر عمر سرفراز چیمہ تھے جنہوں نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا اور عدالت سے رجوع کیے جانے پر اسپیکر قومی اسمبلی نے حمزہ شہباز سے ان کے عہدے کا حلف لیا تھا۔

تاہم پی ٹی آئی نے حمزہ شہباز کے انتخاب کو چیلنج کردیا تھا جس پر عدالت نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب دوبارہ کرانے کا حکم دیا تھا۔

22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے انتخاب ہوا، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز نے 179 ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ (ق) کے امیدوار پرویز الہٰی کو 186 ووٹ ملے تھے۔

تاہم صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پرویز الہٰی کو ملنے والے ووٹوں میں سے (ق) لیگ کے تمام 10 ووٹ مسترد کردیے تھے، جس کے بعد حمزہ شہباز 3 ووٹوں کی برتری سے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے تھے۔

وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹس مسترد کیے جانے کے خلاف مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے اتحادی پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ قرار دے دیا تھا۔

بعدازاں دسمبر میں اپوزیشن نے وزیراعلیٰ پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے پرویز الہٰی کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تھی اور اس میں ناکامی پر انہیں ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔

گورنر کے اس اقدام کے خلاف چوہدری پرویز الہٰی نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے اگلی سماعت تک صوبائی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے انہیں وزیر اعلیٰ کے منصب پر بحال کردیا تھا۔

چند روز بعد 14 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے گورنر کو ارسال کردہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجی گئی تھی، تاہم گورنر بلیغ الرحمٰن نے اس عمل کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے سمری پر دستخط نہیں کیے اور 48 گھنٹے مکمل ہونے پر اسمبلی از خود تحلیل ہوگئی۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا میں بھی اس وقت کے وزیراعلیٰ محمود خان کی جانب سے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر حاجی غلام علی کو بھیجی گئی جنہوں نے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کردیے تھے۔

اس کے بعد ان دونوں صوبوں میں انتخابات کا معاملہ سامنے آیا، الیکشن کمیشن نے دونوں صوبوں کے گورنروں کو تاریخ کے لیے خطوط لکھے جس پر گورنر پنجاب نے اسمبلی کی تحلیل کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے تاریخ دینے سے انکار کیا جبکہ گورنر خیبرپختونخوا نے صوبے میں امن و امان کے مسائل کے سبب اس سے گریز کیا۔

پی ٹی آئی نے اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ کے فوری اعلان کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں اس معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں۔

چنانچہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں صدر نے الیکشن کمیشن کی تجویز پر پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کرانے کی منظوری دی تھی جبکہ گورنر خیبرپختونخوا نے 28 مئی کو صوبے میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں وہ اپنے اس اعلان سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

انتخابی شیڈول جاری کرنے کے باوجود 23 مارچ کو الیکشن کمیشن نے پولیس اہلکاروں کی کمی اور فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کو جواز بناتے ہوئے پنجاب میں انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کردیے تھے۔

جس کی پیروی میں گورنر خیبرپختونخوا نے بھی صوبے میں انتخابات کے انعقاد کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کردی تھی۔

پی ٹی آئی نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، جس کی سماعت کے لیے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

تاہم اسی دوران جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 تھری (ازخود نوٹس) کے تمام کیسز ملتوی کرنے کی تجویز دی تھی۔

اس فیصلے پر دستخط کرنے والے جسٹس امین الدین نے کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور اگلے ہی روز مشاورت نہ کیے جانے پر جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ سے علیحدہ ہوگیا تھا۔

یوں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔

جس نے 4 اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا شیڈول بحال کرتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کی تاریح دے دی۔

بعد ازاں 6 اپریل کو قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے اس فیصلے کے خلاف قرار داد منظور کر لی گئی اور وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کو پابند کیا گیا کہ وہ اس خلاف آئین و قانون فیصلے پر عمل نہ کریں۔

قومی اسمبلی کے اس اقدام کے بعد اہم ترین پیش رفت سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی نوٹ میں سامنے آئی۔

7 اپریل کو جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے کیس میں اپنا 25صحفات پر مشتمل تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ کیس کو 3-4 کے تناسب سے مسترد کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اس نوٹ میں انتہائی اہم ترین معاملات پر بات کی جس سے اعلیٰ عدلیہ اور خاص طور پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے کردار پر سوالات اٹھ گئے۔

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی برطرفی کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ریاستی اداروں بالخصوص پاک فوج کے خلاف آن لائن توہین آمیز مہم شروع ہوگئی تھی۔

اداروں کے خلاف مہم کئی روز تک سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنی رہی جس پر پارٹی کے کچھ سینئر رہنماؤں نے عمران خان سے درخواست کی کہ وہ پارٹی کے حامیوں کو واضح پیغام دیں کہ وہ فوج اور عدلیہ کو نشانہ نہ بنائیں کیونکہ یہ مستقبل میں پارٹی کے مفادات کے لیے اچھا نہیں ہے۔

لہٰذا عمران خان نےایک ٹوئٹر اسپیس میں اپنے حامیوں سے واضح طور پر کہا کہ وہ فوج کے خلاف بات نہ کریں، اس کا کسی نہ کسی حد تک ان پر مثبت اثر پڑا کیونکہ اس کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فوج کی حمایت میں بھی تبصرے دیکھنے کو ملے۔

اداروں کے خلاف اس توہین آمیز مہم کے خلاف ایک ہفتے تک جاری رہنے والی کارروائی میں ایف آئی اے نے پنجاب میں تقریباً 17 مشتبہ افراد کو ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جن میں سے کچھ کو مختصر پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا جبکہ دیگر کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی اور سائبر کرائم ونگ نے اس معاملے پر مکمل رازداری رکھی جس نے ایک خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر آپریشن کیا تھا۔

یکم اگست کو بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف پاک فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈ بریگیڈیئر امجد حنیف، 12 کور کے انجینئر بریگیڈیئر محمد خالد، ہیلی کاپٹر کے 2 پائلٹ اور کریو چیف شہید ہوگئے تھے۔

مذکورہ حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر فوج مخالف توہین آمیز مہم چل پڑی جس میں نہ صرف فوج بلکہ شہدا کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور مبینہ طور پر اس میں پی ٹی آئی کے ٹرولز نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، آئی ایس پی آر نے بھی اس مہم پر شدید افسوس و کرب کا اظہار کیا تھا۔

اس دوران ایسی افواہیں بھی زیر گردش رہیں کہ صدر عارف علوی بطور سربراہ مملکت شہید فوجی جوانوں کے جنازوں میں شرکت کے خواہاں تھے، مگر مبینہ طور پر پی ٹی آئی ٹرولرز کی جانب سے شہدا سے متعلق منفی پروپیگنڈے کے باعث شدید غم و غصہ پائے جانے کے پیش نظر انہیں شہدا کے جنازوں میں شرکت نہ کرنے کی تجویز دی گئی تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔

اس کے علاوہ مئی 2022 میں پی ٹی آئی کے حامی صحافیوں عمران ریاض خان، صابر شاکر اور ارشد شریف کے خلاف بھی مبینہ طور پر ریاستی اداروں پر تنقید کرنے اور بغاوت پر اکسانے کے الزام میں مقدمات درج کیے گئے۔

دریں اثنا ایف آئی اے نے ’بول نیوز‘ کے اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے خلاف بھی سماجی رابطے کے مختلف پلیٹ فارمز پر مبینہ طور پر ’ریاست مخالف‘ ویڈیوز اور بیانات نشر کرنے پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

8 اگست کو پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے مبینہ طور پر فوج میں بغاوت پر اکسانے کا بیان دیا جس کے بعد اے آر وائی زیر عتاب آگیا۔

اس کے ایک روز بعد وزارت داخلہ نے ’ایجنسیوں کی طرف سے منفی رپورٹس‘ کا حوالہ دیتے ہوئے چینل کا این او سی سرٹیفکیٹ اور اس کے بعد پیمرا نے لائسنس بھی منسوخ کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ وزارت داخلہ کی جانب سے بول نیوز اور بول انٹرٹینمنٹ کی پیرنٹ کمٌپنی میسرز لبیک پرائیویٹ لمیٹڈ کی بھی سیکیورٹی کلیئرنس واپس لے لی گئی تھی جس کے بعد ان دونوں چینلز کی نشریات پیمرا کے حکم پر بند کردی گئی تھیں۔

دریں اثنا پولیس نے ارشد شریف، اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال، نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز کے سربراہ عماد یوسف، اینکر پرسن خاور گھمن اور ایک پروڈیوسر کے خلاف پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل کے متنازع انٹرویو پر بغاوت کا مقدمات درج کیا جبکہ ارشد شریف ملک سے باہر چلے گئے۔

6 جولائی کو صحافی و یوٹیوبر عمران ریاض کو اسلام آباد جاتے ہوئے اٹک میں درج بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا، ان کے وکیل کے مطابق ان کے خلاف 17 مقدمات درج کیے گئے تھے تاہم 9 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

بعد میں ہونے والی پیش رفت میں ’اے آر وائی نیوز‘ نے کوئی خاص وجہ کا حوالہ دیے بغیر ارشد شریف سے ’راستے جدا کرنے کا اعلان کردیا اور یوں اے آر وائی کے ساتھ ان کا 8 سال کا سفر اختتام پذیر ہوا۔

اکتوبر 2022 میں معروف صحافی اور خود ساختہ جلاوطن اینکر پرسن ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کردیا گیا، اس قتل نے پاکستان کی صحافتی برادری کو ہلا کر رکھ دیا۔

کینیا کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی اور سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔

تاہم پاکستان میں ہوئے پوسٹ مارٹم کے نتیجے میں لاش میں سے گولی کی برآمدگی اور کچھ ایسے شواہد سامنے آئے جس سے یہ دعویٰ مشکوک ہوگیا تھا۔

چیئرمین تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر واقعے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی لارجر بینچ نے واقعے کا مقدمہ درج کر کے جامع تحقیقات کا حکم دیا تھا، یہ کیس تاحال سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

علاوہ ازیں بول نیوز کے سابق اینکر جمیل فاروقی کو پی ٹی آئی رہنما شہباز گل پر دوران حراست تشدد کیے جانے کے ’جھوٹے الزامات لگانے‘ پر کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

دوسری جانب 2 فروری 2023 کو صحافی عمران ریاض خان کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کیا گیا، ایف آئی آر کے مطابق عمران ریاض خان نے ایک کانفرنس کے دوران اشتعال انگیز تقریر کی جسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے قومی اور عالمی سطح پر مزید شیئر بھی کیا گیا تھا۔

البتہ ایک روز بعد ہی جوڈیشل مجسٹریٹ لاہور نے عمران ریاض خان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں رہا کرنے اور ان کے خلاف مقدمہ ڈسچارج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سماعت کے دوران جوڈیشل کمپلیکس میں ہوئی کشیدگی کیس میں نجی ٹی وی ’بول نیوز‘ کے بیورو چیف صدیق جان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

عالمی وبا کورونا وائرس سے کامیابی کے ساتھ بحالی کی طرف گامزن معیشت کو ملک میں حکومت کی تبدیلی، سیاسی عدم استحکام اور گزشتہ حکومت کے چند ناعاقبت اندیش فیصلوں کے نتیجے میں شدید دھچکا پہنچا اور پھر ایک سال کے عرصے میں بہتری کے کوئی آثار دکھائی نہ دیے۔

معاشی ماہرین کے مطابق ملکی اقتصادی صورت حال کی ابتری کی ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی مبینہ خلاف ورزی تھی جس میں پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں پر سبسڈی دی گئی۔

اس بارے میں ایسا بھی کہا گیا کہ عمران خان نے حکومت کی تبدیلی کو بھانپتے ہوئے آئی ایم ایف سے وعدوں کے باوجود سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تاکہ آئندہ آنے والی حکومت کے لیے معاشی محاذ پر مشکلات کھڑی ہوں اور وہ عوام میں غیر مقبول رہے۔

اس دوران پی ڈی ایم حکومت کی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے فنڈ کے ساتھ بات چیت بھی جاری رہی، تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے سبسڈی واپس لینے پر مسلسل اصرار کے بعد بالآخر اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے کے اضافے کا اعلان کردیا۔

اس اقدام کے تقریباً ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں حکومت نے کئی بار ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا اور فروری میں دی گئی سبسڈی کے بعد 149.83 روپے فی لیٹر میں دستیاب پیٹرول جولائی تک 248 روپے 74 پیسے فی لیٹر تک پہنچ چکا تھا جبکہ اس دوران ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 276 روپے 54 پیسے ہوگئی۔

حکومت کی جانب سے سبسڈی واپس لینے اور ایندھن پر درکار لیوی کے نفاذ کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے لیے اپنا قرض پروگرام بحال کرنے کی منظوری دے دی جس کے بعدآئی ایم ایف سے ایک ارب 16 کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہوئی۔

علاوہ ازیں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے چین، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات سے قرضے، فنانسنگ، تیل کی ادائیگی اور سرمایہ کاری کے لیے تقریباً 12 ارب ڈالر کا قرضے کا وعدہ بھی لیا گیا۔

دریں اثنا آئی ایم ایف سے ساڑھے 6 ارب ڈالر توسیعی فنڈ سہولت کی قسط ملنے میں تاخیر کے سبب ملک کے تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافے، بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کے باعث روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں 28 جولائی کو اس وقت کی کم ترین سطح 239.94 روپے پر آ گئی تھی۔

قبل ازیں آئی ایم ایف پروگرام کے تعطل، ترسیلات زر میں کمی اور تجارتی خسارے کی کمی کے دوران ملک کو ایک اور بڑی آفت نے گھیر لیا جو ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار پایا۔

شدید مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے ایک ہزار 700 افراد جاں بحق، 20 لاکھ گھر تباہ ہوئے اور ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا اور عالمی بینک ایک اندازے کے مطابق ملک کی معیشت کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

اس قدرتی آفت سے سندھ میں 79 فیصد فصلیں، بلوچستان میں 53 فیصد، پنجاب میں 15 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 14 فیصد جبکہ آزاد کشمیر میں 25 فیصد فصلیں تباہ ہوگئیں اور سوا 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے جبکہ 13 ہزار کلو میٹر طویل سڑکیں، 436 پُل مکمل تباہ اور صحت کی 1400 سہولیات میں سے زیادہ تر تباہ یا ناکارہ ہوگئیں۔

دریں اثنا آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو پورا کرنے سے ملک میں مہنگائی کی ایک کے بعد ایک لہر آتی رہی ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف بھی مہنگائی سے متعلق اقدامات کرنے پر مفتاح اسمٰعیل سے نالاں نظر آئے کیوں کہ اس سے پارٹی کے لیے عوامی حمایت میں کمی واقع ہورہی تھی۔

چنانچہ نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے وزیر خزانہ نے منصب سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے نام نہاد تجربہ کار اسحٰق ڈار کو اس منصب پر نامزد کردیا۔

اسحٰق ڈار کے منصب سنبھالتے ہی فوری طور پر روپے کی قدر میں بہتری آنا شروع ہوئی لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکا۔

آئی ایم ایف پروگرام کی اگلی قسط ملنے میں تاخیر کے سبب ملک کو متعدد بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں سرِ فہرست ڈالر کی قلت ہے، اس کے بعد بینکوں نے درآمد کنندگان کی ایل سیز کھولنے سے انکار کردیا اور سیکڑوں کنٹینرز بندرگاہ پر پھنس گئے۔

متعدد درآمدی اشیا کے کنٹینرز بندرگاہ پر پھنسنے کے سبب اپنی خوراک کے ایک بڑے حصے کے لیے درآمدات پر انحصار کرنے والے ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آگیا، کیوں کہ کئی اشیا کی تیار میں استعمال ہونے والا خام مال ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہورہا تھا۔

مہنگائی کے دباؤ کے باعث مرکزی بینک نے شرح سود میں 300 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا جس کے بعد شرح سود 1996 کے بعد پہلی مرتبہ 20 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی۔

یہاں یہ بات بھی مدِنظر رہے کہ ناموافق معاشی صورتحال کے سبب طلب میں کمی اور خام مال کی قلت کی وجہ سے ملک میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل تیار کرنے والی متعدد کمپنیوں نے اپنے پلانٹس عارضی طور پر بند کردیے۔

امریکی ادارے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ڈالر کی شدید قلت کی ایک وجہ اس کا افغانستان اسمگل ہونا بھی ہے اور ایک اندازے کے مطابق یومیہ 50 لاکھ ڈالر پاکستان سے سرحد پار کر کے افغانستان منتقل ہوتے ہیں۔

بلند توقعات کے ساتھ آنے والے اسحٰق ڈار کا گرتی معیشت کو سنبھالنے میں کوئی زور نہ چل سکا اور وہ کڑی شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان کے لیے اشد ضروری آئی ایم ایف پروگرام کو بھی تادم تحریر بحال نہیں کرواسکے جس کے باعث ملک کو ڈالرز کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

گزشتہ سال پاکستانی معیشت میں پیش آئی غیر معمولی صورتحال میں ایک نمایاں مثبت پیش رفت پاکستان کا 4 سال کے عرصے کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے خارج ہونا تھا۔

اقتدار سے بے دخلی کے بعد گزشتہ ایک برس میں پی ٹی آئی کے متعدد رہنما و کارکنان گرفتار کیے گئے جن میں سے اکثر ضمانتوں پر رہا ہوچکے ہیں۔

خود سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مختلف الزامات میں درجنوں مقدمات قائم ہیں تاہم عدالت سے کئی بار وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود پولیس انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔

سب سے پہلے 21 مئی کو تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں وزیر انسانی حقوق رہنے والی ڈاکٹر شیریں مزاری کو اراضی سے متعلق ایک مقدمے میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب اور اسلام آباد پولیس نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کیا۔

شیریں مزاری کے خلاف فیڈرل لینڈ کمیشن کے فیصلے کے تحت لینڈ ریفارمز سے حاصل کی گئی زمینیں واپس نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

تاہم ان کی بیٹی ایمان زینب مزاری نے انہیں ’اغوا‘ کرنے کا الزام عائد کیا اور رہائی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس پر عدالت نے اسی روز رات ساڑھے 11 بجے سماعت کی جس میں شیریں مزاری کو بھی پیش کیا گیا۔

جس کے بعد عدالت نے شیریں مزاری کو رہا کرنے اور حکومت کو ان کی گرفتاری کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔

9 اگست کو پی ٹی آئی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو بنی گالا چوک سے سادہ لباس میں ملبوس افراد بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی میں اغوا کر کے لے گئے ہیں۔

تاہم اسی روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بتایا کہ شہباز گِل کو اسلام آباد پولیس نے قانون کے مطابق بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

ان پر اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات اور ان کے سربراہوں کے خلاف بغاوت پر اکسانے سمیت 10 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس کے مطابق ایک نیوز چینل پر نشر کیے گئے پروگرام میں شہباز گل نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر کے رینک سے نیچے اور اس سے اوپر کے افسران کے درمیان تقسیم پیدا کرنے اور انہیں سیاسی جماعت سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔

تاہم عدالتوں کی جانب سے متعدد مرتبہ ریمانڈ دیے جانے اور ایک ماہ 7 روز کی قید کے بعد 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا، اہم بات یہ ہے کہ کئی ماہ بعد بھی مذکورہ مقدمے میں شہباز گل پر اب تک فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

علاوہ ازیں 12 اکتوبر 2022 کی رات گئے پی ٹی آئی کے دور میں وفاقی وزیر رہنے والے سینیٹر اعظم سواتی کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے آرمی چیف سمیت ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور دھمکی آمیز ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے منی لانڈرنگ کیس میں بری ہونے کے بعد اعظم سواتی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’باجوہ صاحب، آپ کو اور آپ کے کچھ لوگوں کو مبارکباد، آپ کا منصوبہ واقعی کام کر رہا ہے اور ملک کی قیمت پر تمام مجرم آزاد ہو رہے ہیں، ان ٹھگوں کی آزادی سے، آپ نے کرپشن کو جائز قرار دے دیا، اب آپ اس ملک کے مستقبل کی کیا پیش گوئی کرتے ہیں؟‘

تاہم گرفتاری کے 10 روز بعد ہی 22 اکتوبر کو اسلام آباد کی اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت نے 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض سینیٹر اعظم خان سواتی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی ور انہیں پاسپورٹ بھی جمع کرانے کا حکم دیا۔

بعد ازاں 27 نومبر کو پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹس کرنے پر ایف آئی اے نے دوبارہ گرفتار کیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘

اس مرتبہ ان کے خلاف نہ صرف اسلام آباد، بلکہ سندھ اور بلوچستان میں مقدمات قائم کیے گئے تھے جن کے لیے انہیں دونوں صوبوں کی پولیس نے اپنی تحویل میں بھی لیا تھا۔

بعدازاں 2 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کے جسٹس عامر فاروق نے 2 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض سینیٹر اعظم سواتی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ان کے علاوہ رواں برس 25 جنوری کو علی الصبح فواد چوہدری کو لاہور سے گرفتار کر کے لاہور کی مقامی عدالت سے راہداری ریمانڈ لے کر اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کردیا گیا تھا۔

ان کے خلاف اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کی شکایت پر ’آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے کے الزام‘ میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں فواد چوہدری کے ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ’انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی ہوگئی ہے، نگران حکومت میں جو لوگ شامل کیے جا رہے ہیں، سزا ہونے تک ان کا پیچھا کریں گے اور حکومت میں شامل لوگوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے‘۔

یکم فروری کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے فواد چوہدری کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی، جس کے بعد انہیں اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں نے جو باتیں کی تھیں، ان پر قائم ہوں اور ایک لفظ سے بھی پیچھے نہیں ہٹا، الیکشن کمیشن کی طرف سے ایف آئی آر اور غداری کے مقدمے پر چیف الیکشن کمشنر کو کہتا ہوں کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کو کمرے میں بلائیں اور دو چھتر ماریں۔

فواد چوہدری کی رہائی کے ایک روز بعد ہی اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید کو اسلام آباد کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع ان کی رہائش گاہ سےحراست میں لے لیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے ایک مقامی رہنما راجا عنایت نے تھانہ آب پارہ میں ان کے خلاف سابق صدر آصف علی زرداری پر عمران خان کے قتل کی سازش کا الزام لگانے پر شکایت درج کرائی تھی۔

مذکورہ ایف آئی آر میں مدعی نے مؤقف اختیار کیا کہ شیخ رشید نے بول نیوز پر ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’آصف زرداری نے کچھ دہشت گردوں کی خدمات حاصل کی ہیں جو عمران خان مروانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں الزام علیہ کے پاس تمام معلومات موجود ہیں جو کہ وہ بتانے کو تیار ہیں‘۔

ایف ؔآئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ شیخ رشید نے یہ بیان ایک سازش کے تحت دیا وہ سابق صدر کو بدنام کرنا اور ان کے اور ان کے خاندان کے لیے مستقل خطرہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔

3 فروری کو وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر شیخ رشید کے خلاف کراچی میں بھی مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ کراچی کے موچکو، حب کے لسبیلہ اور مری کے تھانوں میں بھی شیخ رشید کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے جس کے بعد ایف آئی آر کو سیل کردیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں ایک اور مقدمہ تھانہ صدر میں پیپلز پارٹی کے کارکن کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں شیخ رشید پر امن و امان کو خراب کرنے اور جان بوجھ کر اشتعال پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

بعدازاں 16 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض شیخ رشید کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا۔

ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر سینیٹر سیف اللہ نیازی اور حامد زمان کو بھی پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ایک صحافی کی جانب سے پوچھے جانے پر جواب دیا تھا کہ ایف آئی اے نے سینیٹر سیف اللہ نیازی کو متعدد بار بلایا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے، اب ایف آئی اے انہیں اپنے ساتھ لے کر آئی ہے، ان سے کچھ سوالات اور تفتیش ہونی ہے، اگر انہوں نے ایف آئی اے سے تحقیقات میں تعاون نہ کیا تو پھر ضابطے کی کارروائی کے بعد قانون کے مطابق انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ 20 مارچ کو پی ٹی آئی رہنما اور عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کو گرفتار کرلیا گیا تھا، اُن کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور اسلحہ دکھانے کے خلاف مقدمہ درج تھا جو تھانہ رمنا میں اے ایس آئی خوبان شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

بعد ازاں ان کے خلاف کوئٹہ اور کراچی میں بھی مقدمات درج کیے گئے تھے اور راہداری ریمانڈ پر انہیں دونوں شہروں کی عدالتوں میں بھی پیش کیا گیا تھا جس کے بعد کوئٹہ کی عدالت نے حسان نیازی کی ضمانت منظور کرلی تھی جبکہ کراچی میں انہیں مقدمے سے بری کردیا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سے بے دخلی کا سبب بننے والی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش کا شاخسانہ اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو امپورٹڈ حکومت قرار دیا تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان کے مؤقف میں اس حد تک تبدیلی آئی کہ بعد میں انہوں نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو بھی ’رجیم چینج‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد 27 مارچ کو اسلام آباد میں ’امر بالمعروف‘ کے عنوان سے جلسہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر عوام کے سامنے لہرایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ باہر سے ہم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے لیکن ہم ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

اس کاغذ کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے حکومت کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن پر الزام عائد کیا کہ باہر سے پیسے لے کر حکومت گرانے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی اور حکومت بدلنے کی کوشش باہر سے کی جارہی ہے۔

عمران خان نے انکشاف کیا کہ امریکا نے پاکستانی سفیر کے ذریعے دھمکی آمیز پیغام بھیجا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ امریکا کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسط ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے سفیر اسد مجید کے ساتھ ملاقات میں خبردار کیا تھا کہ اگر وہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے بچ جاتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

دریں اثنا یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ خط اصل میں سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔

تاہم چند ماہ بعد ایک لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر عمران خان کو شاہ محمود قریشی اور پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے یہ کہتے سنا گیا تھا کہ ’سائفر سے ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر۔

اہم بات یہ ہے کہ اس آڈیو لیک پر پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردِعمل ضرور سامنے آیا تھا لیکن انہوں نے آڈیو کے درست ہونے کی تردید یا تصدیق نہیں کی تھی، البتہ بعد میں عمران خان نے اپنے بیانات میں کئی یوٹرن لیے۔

بعد ازاں ایک انٹرویو میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’سابق آرمی چیف نے لابنگ کے لیے سابق سفیر حسین حقانی کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے امریکا میں میرے خلاف مہم چلائی اور جنرل ریٹائرڈ قمر باجوہ کی تشہیر کی‘۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ انہیں ’امریکا مخالف‘ ثابت کرنے کی مہم پاکستان سے شروع کی گئی تھی، امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو نے جو کچھ بھی کہا تھا اُس کا سبق اسے پاکستان سے پڑھایا گیا تھا۔

پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کیا تھا۔

اس تقرر پر عمران خان نے 25 جنوری کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پتا نہیں تھا کہ محسن نقوی کا بیک گراؤنڈ کیا ہے، کس بنیاد پر اس کو نگران وزیراعلیٰ بنایا ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ رجیم چینج میں سب سے بڑا ہاتھ اس شخص کا تھا کیونکہ یہ ان چند لوگوں میں شامل تھا جس نے ہماری حکومت گرانے کے لیے سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کی۔

تاہم چند ہی روز بعد انہوں نے ایک نیا بیان داغتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنی حکومت کو برطرف کرنے کی سازش کے الزام سے امریکا کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اس کا ذمہ دار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹھہرا دیا۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد اب جیسے جیسے چیزیں سامنے آرہی ہیں اس سے یہ نظر آرہا ہے کہ یہ امریکا نہیں تھا جس نے پاکستان کو مجھے نکالنے کے لیے کہا، بدقسمتی سے جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق یہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جنہوں نے کسی طرح امریکیوں کو یہ یقین دلا دیا کہ میں امریکا مخالف ہوں‘۔

عمران خان نے اپنے گزشتہ مؤقف سے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ ’اس لیے مجھے برطرف کرنے کا منصوبہ وہاں (امریکا) سے امپورٹ نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے یہاں (پاکستان) سے وہاں ایکسپورٹ کیا گیا‘۔

اسی روز عوام سے خطاب میں عمران خان نے کہا تھا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ’سپر کنگ‘ تھے اور سارے فیصلے ان کے ہاتھ میں تھے، حکومت کے کام اس وقت تک ہوتے تھے جب قمر باجوہ فیصلہ کریں کہ ہاں یہ ٹھیک ہے۔

جس کے بعد عمران خان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کی جانب سے مبینہ حلف کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات ارسال کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بطور سپریم کمانڈر، سابق آرمی چیف کے خلاف فوری تحقیقات کی جائیں۔

انہوں نے لکھا کہ جنرل (ر) باجوہ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ منتخب وزیراعظم کے اقتدار میں رہنے کے باعث ملک کے لیے خطرناک ہونے کا فیصلہ کریں، یہ فیصلہ صرف اور صرف عوام کا ہے کہ وہ کسے وزیراعظم منتخب کرنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح اقتدار جانے کے فوراً بعد عمران خان نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پیغامات آرہے ہیں، میں کسی سے بات نہیں کر رہا، ان لوگوں کے نمبر بلاک کرچکا ہوں، جب تک عام انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا، کسی سے بات نہیں ہوگی۔

تاہم حال ہی میں ایک ٹوئٹ میں انہوں نے مذاکرات کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی، مفادات اور جمہوریت کے لیے میں کسی قربانی سے گریز نہیں کروں گا اور اس ضمن میں کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس جانب میں ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے 25 اکتوبر کو اعلان کیا کہ وہ جمعہ (28 اکتوبر) کو لبرٹی چوک لاہور سے اسلام آباد کی طرف دوسرا لانگ مارچ شروع کریں گے جس کا مقصد عام انتخابات کے لیے تاریخ لینا تھا۔

تاہم **3 نومبر 2022 کو ** لانگ مارچ کے دوران پنجاب کے علاقے وزیر آباد میں نامعلوم مسلح شخص کی فائرنگ سے سابق وزیر اعظم عمران خان زخمی ہوگئے۔

پولیس نے بتایا کہ حملہ آور کو جائے وقوع سے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

بعد ازاں اگلے روز (4 نومبر 2022) کو عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’تین لوگوں نے مجھے مارنے کا منصوبہ بنایا، انہوں نے تین لوگوں میں وزیر اعظم شہباز شریف، رانا ثنااللہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر کا نام لیا تھا۔

تاہم پاک فوج نے پی ٹی آئی چیئرمین کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے ادارے اور خاص طور پر ایک اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات قطعی طور پر ناقابل قبول اور غیر ضروری ہیں۔

وفاقی حکومت نے 7 نومبر 2022 لانگ مارچ کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان پر فائرنگ کا مقدمہ درج کرنے کے لیے حکومتِ پنجاب کو خط لکھا، سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب پولیس کو عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر 24 گھنٹے میں درج کرنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے جسٹس یحیٰی آفریدی نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج سے متعلق عدالت عظمیٰ کا حکم غیر متعلقہ اور دائرہ کار سے باہر قرار دیا۔

اگلے روز 8 نومبر 2022 کو وزیراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے خط کے ذریعے درخواست کی کہ عمران خان پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججز پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا جائے، حملے کی باضابطہ تحقیقات کے سلسلے میں پنجاب پولیس نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کے لیے 3 افسران کے نام صوبائی حکومت کو تجویز کر دیے۔

پنجاب حکومت نے 11 نومبر 2022 کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پر قاتلانہ حملے اور وزیرآباد پولیس کی جانب سے مقدمے میں ایف آئی آر کے اندراج کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی اور پھر 5 رکنی جے آئی ٹی کی 24 گھنٹے کے اندر ہی تشکیل نو کردی۔

جے آئی ٹی کے سربراہ کو تیسری مرتبہ تبدیل کرتے ہوئے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور غلام محمود ڈوگر کو جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا لیکن وفاقی حکومت نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو مسترد کردیا۔

3 جنوری 2023 کو جے آئی ٹی نے سابق وزیر اعظم پر 3 مختلف اطراف سے گولیاں داغے جانے کا انکشاف کیا تاہم 11 جنوری کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان نے حملے میں ایک سے زائد شوٹرز کے ملوث ہونے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کئی شوٹرز کی موجودگی کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

اس کے بعد سے اب تک اس حوالے سے کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہ آسکی۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں آڈیو لیکس کی بازگشت پہلی بار 2 سال قبل سنائی دی جب 21 نومبر 2021 کو سپریم کورٹ کے سابق سربراہ جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار سے منسوب آڈیو کلپ سامنے آئی۔

مذکورہ آڈیو کلپ میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس کو یہ کہتے سناگیا کہ ’مجھے اس کے بارے میں تھوڑا دوٹوک ہونے دو، بدقسمتی سے یہاں یہ ادارے ہیں جو حکم دیتے ہیں، اس کیس میں ہمیں میاں صاحب (نواز شریف) کو سزا دینی پڑے گی، (مجھے) کہا گیا ہے کہ ہمیں عمران صاحب (عمران خان) کو (اقتدار) میں لانا ہے‘۔

اس آڈیو کلپ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہ ہوسکی، تاہم اسی ماہ رہنما مسلم لیگ (ن) مریم نواز کی بھی ایک آڈیو لیک منظر عام پر آئی جس کے اصل ہونے کی تصدیق خود مریم نواز نے کردی تھی، اس آڈیو لیک میں وہ اپنی پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کو نام لے کر مختلف چینلز کو اشتہار نہ دینے کی ہدایت کر رہی تھیں۔

اس سے اگلے ہی ماہ دسمبر 2021 کو مریم نواز کی ایک اور آڈیو لیک منظرعام پر آئی جس میں وہ بظاہر اپنی ’میڈیا مینجمنٹ‘ کی تعریف کرتی سنی گئیں، اس آڈیو لیک کی تصدیق کے لیے جب مریم نواز سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اس کا جواب پہلے ہی دے چکی ہوں اور واضح جواب دیا تھا‘۔

بعد ازاں 2022 میں بالخصوص سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے سے لے کر آج تک ایک سال کے دوران وزیراعظم شہباز شریف، کابینہ اراکین، سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزرا سمیت متعدد سیاستدانوں، وکلا اور ججز کی مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آچکی ہیں۔

جنوری 2022 میں مریم نواز کی سینیٹر پرویز رشید کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ایک اور آڈیو لیک سامنے آئی، اس آڈیوٹیپ میں دونوں رہنما مبینہ طور پر کچھ صحافیوں کی ’جانبداری‘ اور کچھ صحافیوں کو تحائف بھجوانے کے حوالے سے گفتگو کرتے سنے گئے۔

اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں سابق وزیراعظم عمران خان کی برطرفی بعد مئی 2022 میں سابق صدر آصف علی زرداری اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے درمیان ہونے والی مبینہ ٹیلی فونک گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آئی۔

تقریباً 32 سیکنڈ کی گفتگو میں (جس کی تاریخ اور وقت کی تصدیق نہیں ہوئی) ملک ریاض کو آصف زرداری سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ عمران خان انہیں پی پی پی کے ساتھ مصالحت میں مدد کرنے کے لیے پیغامات بھیج رہے ہیں۔

جواب میں مبینہ طور پر آصف زرداری کی جانب سے کہا گیا کہ ’اب یہ ناممکن ہے‘، اس پر ملک ریاض کی جانب سے کہا گیا کہ ’کوئی بات نہیں، میں صرف یہ آپ کے علم میں لانا چاہتا تھا‘۔

جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطااللہ تارڑ اور عظمیٰ بخاری نے ایک نیوز کانفرنس میں رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور ان کی بیٹی سے منسوب ایک آڈیو کلپ چلایا تھا۔

مذکورہ آڈیو لیک میں ملک ریاض کی بیٹی نے فرح گوگی اور سابق خاتون اول کے مطالبات کا تذکرہ کیا، آڈیو کال میں ملک ریاض اپنے بند سائٹ کے تالے کھلوانے کے عوض بشری مانیکا کو ہیرے کی انگوٹھی دینے کی بات کرتے سنے گئے جبکہ ان کی بیٹی کے بقول بشری مانیکا نے 5 قیراط کی انگوٹھی کی ڈیمانڈ کی اور بدلے میں عمران خان سے دفتر کھلوانے کی یقین دہانی کرائی۔

جولائی 2022 میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کا مبینہ آڈیو کلپ منظر عام پر آیا جس میں وہ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ارسلان خالد کو سیاسی مخالفین کے خلاف ’غداری کے ٹرینڈ‘ چلانے کی ہدایت کرتی سنی گئیں۔

اگست 2022 میں پی ٹی آئی رہنما شوکت ترین کی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے خزانہ سے ٹیلی فونک بات چیت منظر عام پر آئی جس میں شوکت ترین کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’یہ جو آئی ایم ایف کو 750 ارب روپے کی کمٹمنٹ دی ہے آپ سب نے سائن کیا ہے، حکومت پردباؤ ڈالنے کے لیے آئی ایم ایف سے کہا جائے کہ آپ سے کمٹمنٹ سیلاب سے پہلے کی تھی، اب ہم سیلاب متاثرین پر پیسے خرچ کررہے ہیں، اس لیے ہماری لیے مشکلات ہوسکتی ہیں، آپ نے اب آئی ایم ایف کو لکھنا ہے کہ اب ہم یہ کمٹمنٹ پوری نہیں کر پائیں گے، بس یہی لکھنا ہے آپ نے اور کچھ نہیں کرنا۔

جواب میں صوبائی وزیرخزانہ محسن لغاری نے شوکت ترین سے دریافت بھی کیا کہ ’کیا اس سے ریاست کومشکل نہیں ہوگی؟‘، اس پر شوکت ترین نے کہا کہ ’حکومت ہمارے چیئرمین سے کس طرح ٹریٹ کررہی ہے، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وہ ہم پر کیسز کرتے رہیں، بلیک میل کرتے رہیں اور ہم ان کی مدد کرتے رہیں‘۔

24 ستمبر 2022 کو وزیر اعظم شہباز شریف اور ایک سرکاری عہدیدار کے درمیان مبینہ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر لیک ہوگئی تھی۔

2 منٹ سے زیادہ طویل آڈیو کلپ میں مبینہ طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ کہتے سنا گیا کہ مریم نواز شریف نے ان سے اپنے داماد کو بھارت سے پاور پلانٹ کے لیے مشینری کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کا کہا ہے۔

جواب میں عہدیدار نے کہا کہ ’اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو جب یہ معاملہ ای سی سی اور کابینہ کے پاس جائے گا تو ہمیں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا‘، اس پر مبینہ طور پر وزیر اعظم نے کہا کہ ’داماد، مریم نواز کو بہت عزیز ہے، انہیں اس کے بارے میں بہت منطقی طور پر بتائیں اور پھر میں ان سے بات کروں گا‘۔

اس آڈیو لیک پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم ریاست سے زیادہ اپنے خاندان کے کاروباری مفادات کو سامنے رکھتے ہیں‘۔

وزیراعظم کی اِس مبینہ آڈیو لیک کے بعد اگلے ہی روز 25 ستمبر 2022 کو حکمراں اتحاد کے رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل مزید مبینہ آڈیو کلپس منظر عام پر آگئی تھیں۔

پہلے کلپ میں مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم اور وزیر اعظم کے درمیان مفتاح اسمٰعیل کے بارے میں ہونے والی گفتگو سنی گئی، مبینہ کلپ میں مریم نواز نے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے بارے میں کہا کہ ’اسے پتا نہیں کہ یہ کر کیا رہا ہے، اس نے بہت مایوس کیا، اس کی شکایتیں ہر جگہ سے آتی رہتی ہیں، وہ ذمہ داری نہیں لیتا، ٹی وی پر الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں‘، ساتھ ہی مذکورہ کلپ میں مریم نواز نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے واپس آنے کی بھی خواہش کا اظہار کیا۔

دوسری آڈیو کلپ مبینہ طور پر وزیر اعظم، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے درمیان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو سے متعلق تھی۔

وزیراعظم ہاؤس سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی مبینہ آڈیوز لیک ہونے کے بعد 28 ستمبر 2022 کو سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی مبینہ آڈیو بھی لیک ہوگئی۔

مذکورہ آڈیو میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ساتھ مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں اس حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے سنا گیا، آڈیو کی ابتدا میں مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر‘۔

30 ستمبر 2022 کو عمران خان کی مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے ایک اور مبینہ آڈیو بھی لیک ہوگئی تھی، اس آڈیو میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم عمران خان کو سنا گیا۔

آڈیو میں عمران خان کہتے ہیں کہ’اچھا شاہ جی، کل آپ نے، ہم نے، تینوں نے اور سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ کرنی ہے، اس میں ہم نے صرف کہنا ہے کہ وہ جو لیٹر ہے ناں اس کے چپ کر کے مرضی کے منٹس لکھ دیں، اعظم خان کہہ رہا ہے کہ اس کے منٹس بنا لیتے ہیں، اسے فوٹو اسٹیٹ کرا لیتے ہیں’۔

مبینہ آڈیو لیک میں عمران خان نے مزید کہا کہ ’ہم نے تو امریکیوں کا نام لینا ہی نہیں ہے، کسی صورت میں، اس ایشو کے اوپر پلیز کسی کے منہ سے امریکا کا نام نہ نکلے، یہ بہت اہم ہے آپ سب کے لیے، کس ملک سے لیٹر آیا ہے، میں کسی کے منہ سے اس کا نام نہیں سننا چاہتا‘۔

اگلے ہی مہینے 7 اکتوبر 2022 کو عمران خان کی ایک اور مبینہ آڈیو لیک ہوگئی تھی، نئی سامنے آنے والی آڈیو میں مبینہ طور پر سابق وزیر اعظم کو گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا کہ ’آپ کی بڑی غلط فہمی ہے جناب نمبر گیم پوری ہوگئی ہے، ڈونٹ تھنک اِٹ اِز اوور، اب سے لے کر 48 گھنٹے اِز اے لانگ ٹائم، اس میں بڑی چیزیں ہو رہی ہیں‘۔

آڈیو میں مبینہ طور پر عمران خان کہتے ہیں کہ ’نمبر ایسا ہے نہیں، ایسا مت سوچیں کہ سب ختم ہوگیا ہے، میں نے میسج دینا ہے کہ وہ جو پانچ ہیں نا وہ پانچ بڑے اہم ہیں، پانچ اراکین قومی اسمبلی تو میں خرید رہا ہوں، میرے پاس ہیں پانچ، میں اپنی طرف سے کئی چالیں چل رہا ہوں جو ہم پبلک نہیں کر سکتے‘۔

آڈیو میں مبینہ طور پر عمران خان کہتے ہیں کہ ’اس کو کہیں کہ اگر وہ ہمیں وہ والا 5 سیکیور کردے ناں، 10 آجائیں ناں تو گیم ہمارے ہاتھ میں ہے، اس وقت قوم الارم ہوئی وی ہے، لوگ چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح ہم جیت جائیں، اس لیے کوئی فکر نہ کریں کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط ہے، کوئی بھی حربہ ہو، ایک ایک بھی اگر کوئی توڑ دیتا ہے تو اس سے بھی بڑا فرق پڑتا ہے‘۔

13 اکتوبر 2022 کو وزیر اعظم شہباز شریف کی ایک اور مبینہ آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ اتحادی جماعتوں کو عہدے دینے پر تبادلہ خیال کرتے سنے گئے۔

آڈیو ریکارڈنگ میں نامعلوم شخص وزیر اعظم سے کہتا ہے کہ ’ایاز صادق صاحب کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی والے معاونین خصوصی سے بھی شیئر مانگ رہے ہیں، جس پر شہباز شریف کہتے ہیں کہ ’ہاں بالکل، بلاول نے بات کی تھی‘۔

نامعلوم شخص کہتا ہے کہ ’یہ پھر اب دیکھ لیں، پھر ہم نے ظفر محمود کو لگانا ہے اور جہانزیب صاحب کو لگانا ہے، میں پھر آپ کو ایک فائنل نمبر بتا دوں گا‘، اس پر شہباز شریف بولتے ہیں کہ ’وہ ڈاکٹر سے بھی شیئر کرلیں ناں، پیپلز پارٹی ہی نہیں باقی سے بھی شیئر کر لیں‘۔

اس کے بعد نامعلوم شخص کہتا ہے کہ ’وہ پھر جے یو آئی اور ایم کیو ایم بھی مانگے گی، ایم کیو ایم کے ایک بندے کا نام ملک احمد علی بتا رہا ہے کہ یہ ساری ڈیل کرانے میں اس کا بڑا اہم کردار تھا‘، شہباز شریف سوال کرتے ہیں کہ ’کون؟‘ جس پر جواب دیتے ہوئے نامعلوم شخص کہتا ہے کہ ’یہ سر کراچی کا بندہ ہے‘۔

28 اکتوبر کو پی ٹی آئی نے نئے انتخابات کے اعلان کے لیے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا، اس حوالے سے 30 اکتوبر کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیرعلی امین گنڈاپور کی ایک شخص کے ساتھ مبینہ آڈیو لیک سنائی۔

مذکورہ آڈیو میں مبینہ طور پر علی امین گنڈا پور پوچھ رہے تھے کہ بندوقیں کتنی ہیں، جس پر دوسرا شخص کہتا ہے کہ بہت ہیں اور بندے جتنے چاہیں ہوں گے۔

علی امین گنڈا پور نے رانا ثنااللہ کی جانب سے بندوق اور لوگ جمع کرنے کی آڈیو جاری کیے جانے بعد ردعمل میں کہا تھا کہ اپنے لوگوں کا تحفظ کرنا میرا بنیادی حق ہے۔

آڈیو لیکس سامنے آنے کے کئی ہفتوں بعد 8 دسمبر 2022 کو ایک اور آڈیو کلپ منظر عام پر آیا جس میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سابق وزیر اعظم کے پاس موجود گھڑیوں کی فروخت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سنا گیا۔

21 سیکنڈ پر مشتمل اس آڈیو کے آغاز میں بشریٰ بی بی نے مبینہ طور پر زلفی بخاری کو بتایا کہ ’عمران خان کی چند گھڑیاں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہ گھڑیاں آپ کو دے دوں تاکہ آپ انہیں فروخت کردیں، یہ گھڑیاں ان کے زیر استعمال نہیں ہیں، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ انہیں فروخت کر دیا جائے‘، اس پر زلفی بخاری کہتے ہیں کہ ’جی بالکل مرشد، میں یہ کردوں گا‘۔

چند روز بعد ہی 16 دسمبر 2022 کو بشریٰ بی بی کی ایک اور مبینہ آڈیو سامنے آئی جس میں بظاہر توشہ خانہ سے ان کے گھر بھیجی گئی اشیا کی تصاویر پر انہیں کسی پر غصہ کرتے ہوئے سنا گیا۔

رواں سال کے آغاز میں 16 جنوری 2023 کو مسلم لیگ (ق) کے رکن اسمبلی حسین الہٰی اور چوہدری وجاہت حسین کی مبینہ آڈیو سامنے آئی جس میں انہیں ایک خاتون رکن اسمبلی کو اغوا کرنے کے بارے میں گفتگو کرتے سنا گیا۔

ایک منٹ سے زائد طوالت کی اس آڈیو میں حسین الہٰی اور وجاہت حسین کو مبینہ طور پر قومی اسمبلی میں ممکنہ ’اعتماد کے ووٹ‘ کی حکمت عملی بناتے ہوئے سنا گیا۔

16 فروری کو وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کی اپنے وکلا کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی مبینہ آڈیوز جاری کردی تھیں۔

لیک ہونے والی 3 آڈیو کلپس میں سے 2 میں مبینہ طور پر پرویز الہٰی کو 2 وکلا سے یہ کہتے سنا گیا کہ ان کے سابق پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی کے خلاف 46 کروڑ روپے کی کرپشن کا مقدمہ سپریم کورٹ کے ایک موجودہ جج کے سامنے مقرر کرائیں۔

تیسری آڈیو کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ مبینہ طور پر چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ بات کرنے والے ایک جج ہیں جن سے اُس آڈیو میں پرویز الہٰی ملاقات کا ذکر کررہے تھے۔

18 فروری 2023 کو پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد اور سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی مبینہ آڈیو سامنے آئی جس میں یاسمین راشد کو غلام محمود ڈوگر سے کہتے سناگیا کہ کوئی اچھی خبر سنا دیں، آرڈر ہوگئے ہیں؟، اس پر غلام محمود ڈوگرکا کہنا تھا کہ ابھی تک نہیں ملے آرڈر۔

یاسمین راشد نے کہا کہ ’اُن کا ارادہ کیا ہے، ویسے ہی پوچھ رہی ہوں‘، غلام محمود ڈوگر کا کہنا تھا کہ ’نہیں نہیں وہ تو سپریم کورٹ سے آرڈر ہونے ہیں، جیسے ہی ہوں گے، مل جائیں گے، وہاں ہمارے بندے بیٹھے ہوئے ہیں، وہ ڈاک جاتی ہے ناں ساتھ، تو جج صاحبان سائن کرتے ہیں اس پر، کورٹ ٹائم میں تو نہیں کرتے، وہ تو کورٹ ٹائم کے بعد ہی کرتے ہیں‘۔

یاسمین راشد نےکہا کہ ’میری خبرکے مطابق آرڈر نہیں ملے ابھی تک‘، اس پر غلام محمود ڈوگر کا کہنا تھا کہ ’جی ابھی تک نہیں، وہ آجائیں گے رات کو، رات کو ڈاک سائن ہوکر آجاتی ہے۔

یاسمین راشد نے قہقہہ لگاتے ہوئےکہا کہ ’ہماری رات آج خاموشی سےگزر جائےگی، میں ویسے ہی پوچھ رہی ہوں‘، اس پر غلام محمود ڈوگر کا کہنا تھا کہ ’اللہ خیر کرےگا‘۔

گزشتہ ماہ 3 مارچ کو ٹوئٹر پر ایک آڈیو گردش کر رہی تھی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی ان کے بھائی کے ساتھ مبینہ گفتگو ہے جس میں 2 ججز سے رابطہ کرنے کا کہا جارہا ہے۔

38 سیکنڈز کی آڈیو میں مبینہ طور پر فواد چوہدری کو فیصل چوہدری سے کہتے سنا گیا کہ ’اچھا میں نے کہا کہ وہ جو اپنا چیف جسٹس لاہور ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ میری بندیال سے کوئی جنرل کراؤ، ٹھیک ہے نا، دوسرے اپنے مظاہر کو ڈار صاحب کے ذریعے جو ہے ناں، ان کے ساتھ، ان سے ذرا مل لیں، اُن کو کہو آپ کے پاس جو پورا ٹرک کھڑا ہے تو بتاؤ اس کا کیا کرنا ہے، میری ذاتی تجویز یہ ہے کہ یہ کر کے تارڑ پر 3-4 دفعہ استغاثے کراؤ، اس کے اوپر 228 لگادو تاکہ ان پر دباؤ تو آئے‘۔

جواب میں مبینہ طور پر فیصل چوہدری نے کہا کہ ’میں صبح کرلوں گا‘، اس پر فواد چوہدری کو مبینہ طور پر یہ کہتے سنا گیا کہ ’صبح ان سے پوچھ کر بتانا‘۔

15 مارچ کو پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد اور صدر مملکت عارف علوی کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مشتمل ایک آڈیو کلپ لیک ہوا جس میں یاسمین راشد کو صدر سے زمان پارک کے باہر تشدد ختم کرنے کے لیے ’فوری مداخلت‘ کی درخواست کرتے ہوئے سنا گیا۔

بظاہر یہ بات چیت اس وقت کی گئی تھی جب پی ٹی آئی کارکنان لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ جھڑپوں میں مصروف تھے، ڈاکٹر یاسمین راشد نے آڈیو لیک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے صدر سے بات کرنے کی درخواست کی تھی جس پر انہیں ایوان صدر سے فون آیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف نے ’ملک میں جاری لاقانونیت ختم‘ اور پنجاب و خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ لینے کے لیے 22 فروری 2023 سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا، اس تحریک کے دوران پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں اور کارکنان نے گرفتاریاں دیں اور عام طور پر خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ تحریک ناکام ہوگئی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے عام انتخابات 90 روز میں کرانے کے فیصلے کے بعد عمران خان نے یکم مارچ 2023 کو جیل بھرو تحریک ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے دوران گرفتار وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی، سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر، سینیٹر اعظم سواتی، سینیٹر ولید اقبال، عمر چیمہ، مراد راس، جان مدنی، اعطم نیازی اور احسان ڈوگر سمیت درجنوں کارکنوں نے گرفتاریاں دیں۔

پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی چیف آف آرمی اسٹاف کے تقرر کا معاملہ اہم ترین رہا ہے اور ماضی میں متعدد مواقع پر اس حوالے سے کئی تنازعات دیکھے گئے، تاہم ملکی تاریخ میں آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ شاید کبھی اتنا پیچیدہ اور متنازع نہیں رہا جتنا سابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور ان کے جانشین کے تقرر کا معاملہ رہا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے 4 ستمبر کو فیصل آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نومبر میں نیا آرمی چیف آنے والا ہے، یہ ڈرتے ہیں کہ یہاں کوئی تگڑا اور محب وطن آرمی چیف آگیا تو وہ ان سے پوچھے گا، اس ڈر سے یہ حکومت میں بیٹھے ہیں کہ اپنی پسند کے آرمی چیف کا تقرر کریں گے، تاہم بعد ازاں عمران خان نے اس موقف پر یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ انہیں شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت کی جانب سے اس اہم تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی سینیارٹی کی بنیاد پر کرنے کے لیے دائر درخواست پہلے سماعت کے لیے مقرر پھر اگلے روز مسترد کر دی گئی۔

اس دوران یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ حکومت، جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینے پر غور کر رہی ہے اور یہ معاملہ اس حد تک طول پکڑا کہ سابق آرمی چیف کو متعدد مواقع پر خود دوٹوک الفاظ میں یہ واضح کرنا پڑا کہ وہ توسیع نہیں لینا چاہتے اور نومبر 2022 میں عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔

ان تمام تر قیاس آرائیوں کا اختتام بالآخر اس وقت ہوا جب وزیراعظم کو آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے چھ سینئر فوجی افسران کی سمری موصول ہوئی اور 30 نومبر 2022 کو جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی سینئر ترین افسر جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف بن گئے۔

لیکن تنازعات کا سلسلہ تھم نہ سکا، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پی ٹی آئی کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو 2019 میں توسیع دینے کے فیصلے کو غلط قرار دیا جبکہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے توسیع سے متعلق قانون سازی کو غلطی قرار دیا، تاہم پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے کہا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو تین برس کی توسیع دینے کا فیصلہ غلطی نہیں تھی۔

عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے چند مہینے بعد 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں انہیں نااہل قرار دے دیا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی اور انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے ڈی سیٹ بھی کردیا تھا، تاہم عمران خان کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے 22 اکتوبر کو درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

اس حوالے سے اکتوبر میں ہی اس وقت ایک اہم پیش رفت ہوئی تھی جب دبئی میں مقیم کاروباری شخصیت عمر فاروق ظہور نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے تحفے میں دی گئی ایک مہنگی گھڑی 20 لاکھ ڈالر میں انہیں فروخت کی جس کی مالیت 2019 میں تقریباً 28 کروڑ روپے تھی۔

عمر فاروق ظہور نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے دبئی میں فرح خان سے ملاقات کی اور ان نایاب اور قیمتی اشیا کی خریداری میں فوری دلچسپی ظاہر کی تھی، پی ٹی آئی اس گھڑی کو 40 سے 50 لاکھ ڈالر میں فروخت کرنا چاہتے تھی لیکن بات چیت کے بعد میں نے اسے 20 لاکھ ڈالر میں خرید لیا اور فرح خان کے اصرار پر ادائیگی نقد میں کی تھی۔

بعد ازاں 22 نومبر 2022 کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کے لیے طلب کرلیا، جبکہ اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عالیہ نے فل بینچ تشکیل دیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم کی درخواست حتمی دلائل کے لیے 13 دسمبر کو مقرر کی۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 7 فروری کی تاریخ مقرر کردی تاہم چیئرمین پی ٹی آئی سیکیورٹی خدشات کا بتا کر عدالت میں پیش نہیں ہوئے، جس کے بعد سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے توشہ خانہ کیس میں عدم پیشی کی وجہ سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے پہلی بار پولیس لاہور میں زمان پارک پہنچی تاہم پولیس اور کارکنوں کےدرمیان جھڑپیں ہوئیں اور پولیس سابق چیئرمین کو گرفتار نہ کر سکی جبکہ عمران خان کی کال پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کی حمایت میں احتجاج کیا گیا۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں 18 مارچ کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم برقرار رکھا۔

اس کے بعد اسلام آباد کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے کشیدگی کے باعث توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکش کے باہر حاضری لگا کر واپس جانے کی اجازت دیتے ہوئے ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیے اور فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔

تاہم اس دوران جوڈیشل کمپلیکس کے باہر صورتحال انتہائی کشیدہ رہی، پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ مظاہرین کی جانب سے جوڈیشل کمپلیکس پر شیلنگ کی جا رہی ہے، پولیس کی چوکی کو آگ لگا دی ہے جبکہ اسی طرح کے دعوے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بھی کیے گئے۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی لاہور میں رہائش زمان پارک میں پنجاب پولیس نے کارروائی کی تاکہ وہاں بنے بنکرز، بیریئرز اور دیگر رکاوٹیں ہٹائی جائیں، پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور نے دعویٰ کیا کہ لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک سے کارروائی کے دوران اسلحہ اور پیٹرول بم برآمد ہوئے ہیں۔

چیئرمین عمران خان نے اس کارروائی کو ’حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ پر کارروائی کرنے والی پنجاب پولیس بشمول ان تمام افسران کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔

بعد ازاں 30 مارچ کو سماعت میں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔

اس کے علاوہ ایک اور اہم مقدمہ مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے ہے۔

30 مارچ 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے نااہلی کیس قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان نے بشریٰ بی بی، قاسم خان اور سلمان خان کا ذکر بیان حلفی میں کیا، عمران خان نے کہا کہ دو بیٹے اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ مالی طور پر زیر کفالت نہیں ہیں، ٹیریان کی ابھی شادی نہیں ہوئی تو اسلامی قانون کے لحاظ سے وہ زیر کفالت ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور اہم مقدمہ جس کا پی ٹی آئی چیئرمین کو سامنا ہے وہ خاتون جج کو دھکمی دینے سے متعلق ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف خاتون جج کو دھمکی دینے پر 20 اگست 2022 کو اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی، اس دوران عمران خان نے تقریر کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکایا۔

اس کیس میں بھی مسلسل عدم حاضری پر سابق وزیراعظم کے خلاف ناقابل وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف خاتون جج دھمکی کیس میں عدم حاضری پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 18 اپریل کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

28 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف 29 فوجداری مقدمات درج ہیں۔

سرکاری وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کو بتایا تھا کہ وفاقی پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی کو 28 فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں نامزد کیا گیا جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بھی ایک کیس میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 28 ایف آئی آر میں سے ایک کو خارج کر دیا گیا جبکہ 7 مقدمات میں تفتیش کی جا رہی ہے اور 20 مقدمات کی سماعت عدالتوں میں زیر التوا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایف آئی اے نے عمران خان کے خلاف فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت ایک مقدمہ درج کر رکھا ہے اور یہ معاملہ بینکوں میں جرائم سے متعلق خصوصی عدالت میں زیر التوا ہے۔

دریں اثنا چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) آفتاب سلطان نے 21 فروری کو یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا کہ ’کچھ چیزیں کرنے کا کہا گیا جو میرے لیے ناقابل قبول تھیں‘۔

دریں اثنا نیب کی جانب سے توشہ خانہ کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو طلبی کا نوٹس بھیجا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب کی جانب سے طلبی کا نوٹس، جس پر اس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد فیصل قریشی نے دستخط کیے تھے اور سابق وزیراعظم کی بنی گالا رہائش گاہ پر بھیجا گیا تھا، 17 فروری کو جاری کیا گیا تھا، جس کے 5 روز بعد نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان نے استعفیٰ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان پر کچھ افراد کے خلاف مقدمات درج کرنے اور کچھ ملزمان کے حق میں دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

وفاقی حکومت نے وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی اتفاق رائے کے بعد 5 مارچ 2023 کو لیفٹننٹ جنرل (ر) نذیر احمد کو قومی احتساب بیورو (نیب) کا چیئرمین تعینات کردیا۔

جہاں ملک کا معاشی سماجی اور سیاسی منظرنامہ متزلزل رہا وہیں دہشت گردی کے خطرے نے بھی ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا۔

اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے وہاں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے امارات اسلامیہ کی ثالثی میں کئی مواقع پر بات چیت کی گئی اور اس دوران دونوں فریقین متعدد مرتبہ جنگ بندی پر بھی راضی ہوئے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کی سربراہی اس کے بانی رکن عبدالولی المعروف عمر خالد خراسانی کر رہے تھے، جنرل فیض اور تحریک انصاف کی حکومت نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر درجنوں پاکستانی طالبان کمانڈروں کو جیل سے بھی رہا کیا جیسا کہ خود امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران کیا تھا۔

عمر خالد خراسانی نے جب پاکستان کو کمزور وکٹ پر کھیلتے دیکھا تو مطالبہ کیا کہ ان علاقوں میں سابق فاٹا کو بحال کرکے ان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ یہاں اپنی شریعت پر مبنی حکومت قائم کر سکیں۔

مئی 2022 میں یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے لیکن اختلاف رائے کی وجہ سے ناکامی ہوئی کیونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کی حیثیت ختم کردی جائے۔

پاکستان کی نرمی سے فائدہ اٹھا کر کچھ طالبان اگست 2022 میں باجوڑ، دیر اور سوات میں داخل ہوئے۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے کوئی اعلانیہ تبصرہ نہیں کیا گیا تھا لیکن مذکورہ علاقوں میں واپس آنے والے عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی واپسی ایک معاہدے کے تحت ہوئی ہے، تاہم کابل میں ہونے والے مذاکرات سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

دریں اثنا افغان طالبان اور ٹی ٹی پی، دونوں کے نزدیک قابل احترام شخصیت مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں علمائے کرام کی ایک ٹیم کو عسکریت پسند قیادت کو یہ یقین دلانے کے لیے بھیجا گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں کچھ بھی ’غیر اسلامی‘ نہیں ہے۔

بطاہر کچھ ایسے اشارے ملے تھے کہ مذاکرات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے جس کی وجہ سے کچھ حلقوں میں یہ امید پیدا ہوئی کہ دونوں فریقین کے درمیان جلد معاہدہ طے پاجائے گا لیکن پھر سوات کے سیاحتی مقام پر مسلح عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئیں، جس سے خطے میں ایک دہائی سے زیادہ امن اور صورتحال معمول پر آنے کے بعد پرتشدد واقعات کا نیا سلسلہ شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہوا۔

اس کے فوراً بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے پورے خطے میں صدمے کی لہر دوڑ گئی اور عوامی غصے اور احتجاجی مظاہروں کا باعث بنی، مسلح عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے مٹہ ذیلی ضلع کے پہاڑی علاقے پیوچار میں ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو 3 دیگر افراد کے ساتھ یرغمال بنا لیا۔

اس معاملے پر ایک جرگہ حرکت میں آیا جس نے ان یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنایا، کالعدم ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ ان کے جوانوں نے یہ کارروائی اپنے دفاع میں کی۔

حکومت نے خاموشی سے عسکریت پسندوں کے تعاقب میں فورسز کو بھیجا لیکن ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ پہلے ہی اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر افغانستان واپس چلے گئے تھے، تاہم اس معاملے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی۔

مذاکرات میں ناکامی کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی نے حملے شروع کردیے جن میں ستمبر میں اضافہ ہوا اور اکثر حملے خیبرپختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں ہوئے۔

علاوہ ازیں کالعدم تنظیم کی جانب سے خیبرپختونخوا کے حکومتی عہدیداروں اور کاروباری افراد سے بھتہ مانگنے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2022 کے دوران پاکستان کو تقریباً 376 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 533 اموات ہوئیں جبکہ 832 افراد زخمی ہوئے۔

گزشتہ برس سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 282 اہلکاروں کی شہادت ہوئی جن میں سے 40 شہادتیں صرف دسمبر میں ہونے والے حملوں کے دوران ہوئیں، ان میں شامل دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) حملے، خودکش حملے اور سیکیورٹی پوسٹوں پر حملوں کے زیادہ تر واقعات پاک-افغان سرحدی علاقوں میں ہوئے۔

2022 کے دوران پاکستان میں ہوئے 376 حملوں میں سے کالعدم ٹی ٹی پی، داعش اور بی ایل اے جیسی کالعدم دہشت گرد تنظیموں نے ان میں سے 57 حملوں کی ذمہ داری قبول کی، دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی کُل تعداد 973 رہی۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے اب تک کا ہلاکت خیز حملہ پشاور کے علاقے پولیس لائنز میں نماز کے دوران مسجد کے اندر کیا گیا خود کش دھماکا تھا جس کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد شہید ہوگئے تھے جن میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی تھی۔

ابتدائی طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، تاہم بعد میں اس نے خود کو اس سے الگ کر لیا لیکن ذرائع نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ کالعدم گروہ کے کسی مقامی دھڑے کا کام ہو سکتا ہے۔

اس کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے خیبرپختونخوا اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں بھی حملے کیے گئے جس کے بعد پولیس نے عسکریت پسندوں کے خلاف منظم آپریشن شروع کردیا تھا۔

دہشت گردوں کی ایک اور بڑی کارروائی کراچی میں 17 فروری (جمعے) کے روز شاہراہ فیصل پر قائم کراچی پولیس آفس پر حملہ تھا جس کے نتیجے میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت 5 جاں بحق جبکہ 18 زخمی ہوگئے تھے۔

دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی سربراہی کرنے والے پولیس افسران میں شامل ڈی آئی جی ایسٹ زون مقدس حیدر نے بتایا کہ مجموعی طور پر 3 حملہ آور تھے، جو انڈس کرولا کار میں تین بیگز میں کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ آئے تھے۔

دہشت گردی کی یہ لہر تاحال تھمی نہیں اور وقفے وقفے سے کیے جانے والے حملوں میں خاص طور پر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔

حال ہی میں 30 مارچ کو خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں تھانہ صدر پر دہشت گردوں کے حملے میں 6 پولیس اہلکار زخمی جبکہ نزدیک سڑک پر نصب دھماکا خیز ڈیوائس پھٹنے کے نتیجے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) اقبال مہمند سمیت 4 اہلکار شہید ہوگئے تھے۔