پاکستان

اعلانیہ دھوکا دہی کے ارتکاب پر مقدمے کیلئے وقت کی حد ختم نہیں ہوتی، سپریم کورٹ

جائیداد کے حقوق کیلئے 6 سال کی مدت اس وقت سے شمار کی جائے جب بھائیوں کی دھوکا دہی کا سب سے پہلے بہنوں کو پتا چلا، عدالت

جائیداد کے حقوق سے متعلق ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر ڈیکلریشن ’ایک واضح فعل‘ ہو تو ڈیکلریشن کے لیے مقدمہ قائم کرنے کے لیے 6 سال کی وقت کی حد کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ کے تحریر کردہ فیصلے کے مطابق جان بوجھ کر حقائق کو چھپانا جس کا مقصد مقدمہ دائر کرنے کے حق کی دریافت کو روکنے کے لیے لمیٹیشن ایکٹ 1908 کے تحت ایک ’دھوکا دہی‘ ہے، لیکن کسی فریق کے کھلے عام کیے گئے فعل کو چھپانے کا فراڈ نہیں کہا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ چھپانے کی صورت میں شیڈول I ٹو لمیٹیشن ایکٹ 1908 کے آرٹیکل 120 کے تحت 6 سال کی مدت اس وقت سے شمار کی جائے جب بھائیوں کی دھوکا دہی کا سب سے پہلے بہنوں کو پتا چلا، جن کے ورثا نے درخواست دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ یہ تنازع عیسیٰ خان کی موت کے بعد پیدا ہوا، جو 19 کنال کی زرعی زمین کے مالک تھے۔

ان کے انتقال کے بعد 23 مارچ 1935 کو ان کی وراثت کی تبدیلی (انتقال) نمبر 327 ان کے بیٹے عبدالرحمٰن کے حق میں منظور کی گئی تھی، جسے بعد میں 61-1960 میں اس وقت اس کا معاوضہ ملا جب جائیداد کا کچھ حصہ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن آف ویسٹ پاکستان نے حاصل کر لیا تھا۔

جب عبدالرحمٰن کا انتقال ہو گیا تو ان کے بیٹوں، بیٹیوں اور بیوہ کو باقی جائیداد وراثت میں ملی جنہوں نے اس کا تقریباً سارا حصہ بیچ دیا تھا۔

سال 2004 میں درخواست گزار صداقت خان نے 19 نومبر کو ایک دعویٰ دائر کیا، جس میں اس اعلان کی درخواست کی گئی کہ وراثت کی تبدیلی نمبر 327، 23 مارچ 1935 کو عبدالرحمٰن کے حق میں منظور ہوئی اور اس کے بعد جواب دہندگان کے حق میں وراثت کی تبدیلی نمبر 1 تا 6 باطل اور ان کے حقوق کے خلاف غیر مؤثر تھی۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ عیسیٰ خان نے ایک بیٹے عبدالرحمٰن اور دو بیٹیوں مہرو اور افسرو کو اپنے قانونی وارث کے طور پر چھوڑا تھا لیکن عبدالرحمٰن نے دھوکا دہی سے وراثت کی منظوری اپنے حق میں حاصل کی، اپنی بہنوں کو ان کے والد کی وراثت سے خارج کر دیا۔

بعد ازاں دونوں بہنوں کا بھی انتقال ہوگیا لیکن مہرو اور افسرو کی قانونی وارث ہونے کے ناطے ان کا بھی جائیداد پر حق ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ حد بندی ایکٹ کی دفعہ 18 کا فائدہ کسی ایسے شخص کے خلاف دستیاب نہیں ہے جو نیک نیتی سے اور قابل قدر غور و فکر کے لیے منتقلی ہو۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اسمال انڈسٹریز اسٹیٹ کی جانب سے سوٹ پراپرٹی کے ایک حصے کے حصول اور عبدالرحمٰن کی جانب سے معاوضہ وصول کرنا، جو جواب دہندگان نمبر 1 سے 6 کے پیشرو تھے، سال 61-1960 میں کھلی کارروائیاں تھیں اور یہ مہرو اور افسرو کے علم میں بھی تھیں۔

اس حقیقت کا اعتراف صداقت خان نے اس وقت کیا جب وہ گواہ کے خانے میں پیش ہوئے، فیصلے میں کہا گیا کہ انہوں نے عبدالرحمٰن سے معاوضے کی رقم میں اپنا حصہ مانگا تھا لیکن انہوں نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔

عدالت نے کہا کہ عبدالرحمٰن کی جانب سے مذکورہ پراپرٹی کے حاصل شدہ حصے کا معاوضہ وصول کرنے کا عمل جائیداد کے اس حصے کے خصوصی مالک ہونے کا دعویٰ کرکے فروخت کرنے کے مترادف تھا۔

عدالت نے کہا کہ یہ ان کا کھلا عمل تھا جس کے تحت انہوں نے پراپرٹی میں اپنی بہنوں مہرو اور افسرو کے حقوق سے انکار کیا اور انہیں ملکیت سے بے دخل کردیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عبدالرحمٰن کے مذکورہ عمل سے اس کی بہنوں کو اپنے حقوق کے اعلان کے لیے مقدمہ کرنے کا حق حاصل ہوا، اور آرٹیکل 120 میں فراہم کردہ 6 سال کی محدود مدت مہرو اور افسرو کے علم کی تاریخ سے شروع ہوگئی اور عبدالرحمن کا ایکٹ 68-1967 میں ختم ہو گیا۔

عدالت کے مطابق ایک بار جب حد بندی کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اس کے بعد کی کوئی معذوری یا مقدمہ کرنے کی نااہلی اسے حد بندی ایکٹ کے سیکشن 9 کے مطابق نہیں روک سکتی۔

جواب دہندگان نمبر 1 سے 6 جواب دہندگان نمبر 12 سے 74 اور دیگر کو سوٹ پراپرٹی کے بقیہ حصے کو فروخت کرنے کی کارروائیوں کا بھی ایسا ہی اثر تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اس طرح مدت کی حد مہرو اور افسرو کی زندگی میں ختم ہو چکی ہے، یہ ان کے جانشینوں، موجودہ درخواست گزاروں کے لیے دوبارہ شروع نہیں ہو سکتی۔