پاکستان

فروری میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 10 فیصد اضافہ

اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ فروری میں ایف ڈی آئی 10 کروڑ 9 لاکھ ڈالر رہی جبکہ اسی دوران گزشتہ برس 9 کروڑ 8 لاکھ ڈالر تھی۔

ملک میں سیاسی طور پر ناموافق حالات کے باوجود فروری میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں 10 فیصد اضافہ ہوا لیکن 8 ماہ کے دوران مجموعی طور پر 40 فیصد کمی آئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ فروری میں ایف ڈی آئی 10 کروڑ 9 لاکھ ڈالر رہی جبکہ اسی دوران گزشتہ برس 9 کروڑ 8 لاکھ ڈالر تھی۔

رواں مالی سال کے شروع سے ہی معاشی خرابی اور سیاسی بےیقینی کی وجہ سے ایف ڈی آئی میں کمی آئی ہے۔

بیرونی سرمایہ کاری میں چین سرفہرست رہا جہاں سے گزشتہ ماہ کے دوران سب سے زیادہ 2 کروڑ 27 لاکھ ڈالر کا سرمایہ آیا، جولائی سے فروری 2023 کے دوران چین سے مجموعی طور پر 22 کروڑ 28 لاکھ ڈالر آئے جو کسی بھی ملک سے ہونے سب سے زیادہ سرمایہ کاری تھی۔

چین نے رواں برس سب سے زیادہ سرمایہ کاری ضرور کی لیکن یہ گزشتہ برس کے مقابلے کم رہی، چین سے گزشتہ برس 36 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری آئی تھی۔

دیگر اہم ممالک میں جاپان اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں جہاں سے بالترتیب 13 کروڑ 40 لاکھ ڈالر اور 12 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سرمایہ کاری ہوئی، رواں مالی سال کے گزشتہ 8 ماہ کے دوران مجموعی ایف ڈی آئی 78 کروڑ 44 لاکھ ڈالر تھی جبکہ اسی دوران گزشتہ برس ایک ارب 31 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھی اور یوں 40.4 فیصد کمی آئی۔

روپے کی قدر میں کمی

امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی آرہی ہے، ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی آرہی ہے۔

کاروباری ہفتےکے پہلے روز ڈالر 2 روپے 32 پیسے مہنگا ہوگیا اور ایک دفعہ پھر روپے کی قدر میں کمی آئی۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق پیر کو انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 284 روپے 3 پیسے تھی جبکہ 17 مارچ کو ڈالر 281 روپے 71 پیسے پر بند ہوا تھا۔

کرنسی ڈیلرز کے مطابق امکان ہے کہ روپے کی قدر میں مزید کمی آئے گی کیونکہ بیرون ملک منفی رپورٹس کی وجہ سے روپے کی قدر عالمی سطح پر گری ہے۔

متحدہ عرب امارات کا حال ہی میں دورہ کرنے والے ڈیلر صائم نے بتایا کہ پاکستانی روپے کی قدر انتہائی کم ہوئی ہے کیونکہ میں نے دبئی میں ڈالر 324 روپے کا خریدا۔

ایکسچینج کمپنیز کا کہنا تھا کہ درآمد کنندگان اپنا کاروبار چلانے کے لیے ڈالر غیرقانونی مارکیٹوں سے خرید رہے ہیں لیکن ایک ہی وقت میں ڈالر کی غیر قانونی تجارت سے ان کی خرید مضبوط ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے درآمد کنندگان کو اپنی درآمدات کے لیے ڈالر کا انتظام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جبکہ ایکسچینج کمپنیوں کے پاس درآمد کنندگان کو درکار ڈالر موجود نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق اوپن مارکیٹ میں پیر کو ڈالر 286 روپے کا مل رہا تھا جبکہ انٹرمارکیٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ڈالر 285 روپے 50 پیسے کا ٹریڈ کر رہا تھا۔

دوسری جانب ایکسچینج کمپنیاں بھی بینکوں کے ساتھ تجارت کرتی ہیں کیونکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر سرپلس ڈالرز بینکوں میں جمع کرنے کے پابند ہیں۔

رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 68 فیصد کمی

توشہ خانہ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی آج نیب میں طلب

پاکستان نیوی کا بحری جہاز امدادی اشیا لے کرشام، ترکیہ پہنچ گیا