پاکستان

پاکستان اسٹیل مل کی اپنی اراضی ’کم ریٹ‘ پر تحویل میں لینے کیلئے سوئی سدرن کی بولی کی مخالفت

سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے یہ بولی اسٹیل مل کے بقایا واجبات کی مد میں لگائی گئی ہے جس کا تخمینہ 48 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز نے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کی جانب سے 43 ارب روپے میں اپنی ایک ہزار 400 ایکڑ زمین قبضے میں لینے کے لیے بولی کی مخالفت کی ہے اور اسے ’یک طرفہ‘ اقدام قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے یہ بولی اسٹیل مل کے بقایا واجبات کی مد میں لگائی گئی ہے جس کا تخمینہ کمپنی انتظامیہ نے 31 دسمبر 2022 تک 48 ارب روپے لگایا ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی نے پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ سے کہا تھا اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک حتمی اجلاس کا اہتمام کیا جائے، واضح رہے کہ اسٹیل مل ملک کا سب سے سے زیادہ تباہ حال صنعتی ادارہ ہے جو تقریباً 8 سال سے بند پڑا ہے۔

تاہم اسٹیل ملز کی نگراں انتظامیہ کا ماننا ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے مذکورہ زمین کی قیمت کا تخمینہ نہ صرف یک طرفہ اور غیر یقینی طور پر کم ہے بلکہ غیر منصفانہ بھی ہے اور یہ پیشکش ناقابل قبول ہے۔

لیکن سوئی سدرن گیس کمپنی اور اس کے بورڈ نے دلیل دی ہے کہ وہ کمپنی اور اس کے شیئر ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، انتباہ کے طور پر گیس کمپنی نے اسٹیل مل کے لیے اقدامات اور شرائط طے کردی ہیں اور مل کے فیکٹری ایریا اور نجکاری کے لیے درکار مشینری کے لیے این او سی کا اجرا روک دیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا اسٹینڈنگ آرڈر تھا کہ اسٹیل مل کے کسی بھی اثاثے اور جائیداد کو واجبات کی ادائیگی کی مد میں فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اسٹیل مل عوام کا ادارہ ہے۔

مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے ابھی تک اسٹیل مل کی نجکاری یا اس کی جائیدادیں فروخت کرنے کی کوئی تازہ تجویز منظور نہیں کی، حکومت سندھ نے بھی ابھی تک اسٹیل مل کی اراضی کو بیچنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی ہے اور بارہا یہ واضح کیا ہے کہ مل کے استعمال میں نہ آنے والی فالتو زمین کسی بھی وقت صوبائی حکومت کو واپس کرنی ہوگی۔

سوئی سدرن گیس کمپنی نے کچھ دن پہلے اسٹیل مل کو خط لکھا تھا کہ کپمنی کے بورڈ نے اسٹیل مل کی نجکاری میں سہولت فراہم کرنے کے عزم کی توثیق کی ہے اور باضابطہ طور پر ایک ہزار 229 ایکڑ اراضی، پلانٹ اور مشینری کے لیے اسٹیل مل کو این او سی جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

دونوں کمپنیوں نے پہلے مشترکہ طور پر زمین کی قیمت کا جائزہ لینے کے لیے ’کے جی ٹریڈرز‘ کو مقرر کیا تھا جنہوں نے ایک ہزار 400 ایکڑ کی مارکیٹ ویلیو کا تخمینہ تقریباً 55 ارب روپے لگایا تھا۔

تاہم سوئی سدرن گیس کمپنی نے ازسرنو جائزہ لینے کے لیے اپنے ہی ادارے ’اقبال اے نانجی اینڈ کمپنی‘ کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، جس نے مبینہ طور پر ایک نالے کی تقریباً 43 ایکڑ زمین کو چھوڑ کر تقریباً 43 ارب روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری کے تحت اس کی پوری ویلیوایشن تقریباً 6 کروڑ روپے فی ایکڑ کے حساب سے کی گئی، اس ریٹ پر اسٹیل مل کے 18 ہزار 600 ایکڑ اراضی کی رئیل اسٹیٹ ویلیو 11 کھرب 16 ارب روپے ہے۔

سوئی سدرن نے اب اسٹیل مل کو نانجی اینڈ کمپنی کے مشورے کے مطابق اضافی زمین دینے کو کہا ہے جو کہ 48 ارب روپے کے واجبات کے تصفیے کے عوض کُل ایک ہزار 505 ایکڑ ہے اور اس کے بعد بھی غیر تسلیم شدہ رقم کی مد میں سوئی سدرن کے پاس اسٹیل مل کی بقایا زمین بھی ہوگی۔

نیز یہ اسٹیل مل کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ حکومت سندھ سے این او سی حاصل کرے جوکہ خود مذکورہ زمین کی ملکیت کی دعوے دار ہے۔

پی ٹی آئی کا لاہور اور اسلام آباد میں پارٹی رہنماؤں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے کا دعویٰ

ہیٹ ویو کے باعث آسٹریلیا کے دریا میں لاکھوں مچھلیوں کی موت

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا سعودی فرمانروا کے دورے کی دعوت کا خیرمقدم