نقطہ نظر

’خدا کی بستی‘ سے ’جانگلوس‘ تک: شوکت صدیقی کے سو برس

وہ جب قلم لے کر بیٹھتے تو صحافی منظر سے غائب ہوجاتا اور اس کی جگہ ایک فکشن نگار لے لیتا جو تخلیقیت کے رتھ پر سوار ایک کے بعد ایک سلطنتیں فتح کیے جاتا۔

اردو کو ’لحاف‘ اور ’ٹیڑھی لکیر‘ جیسی یادگار تخلیقات دینے والی عصمت چغتائی نے جب یہ کہا تھا کہ شوکت صدیقی کا ناول ’خدا کی بستی‘ دنیا کی ہر زبان کے ناول سے ٹکر لے سکتا ہے، تب وہ سو فیصد درست تھیں۔ اس ناول نے ان کے دل و دماغ کے تار جھنجھنار دیے تھے اور اُنہیں اُردو پر فخر محسوس ہونے لگا تھا۔

اگر آج عصمت چغتائی زندہ ہوتیں تو اس بات پر خوشی محسوس کرتیں کہ ان کی پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ شوکت صدیقی کے اس شاہکار نے نہ صرف اردو زبان کو وقار بخشا بلکہ عالمی دنیا کے سامنے اُردو فکشن کا مقدمہ بھی پیش کیا۔ ایک جانب جہاں اس نے 70سے زائد ایڈیشنوں کے ساتھ اردو قارئین میں اپنی مقبولیت قائم رکھی وہیں 35 زبانوں میں ترجمہ ہوکر بین الاقوامی ادب کے منظر نامے میں اپنی موجودگی کا بھی بھرپور احساس دلایا۔ یہ انگریزی، روسی، چینی، جاپانی، ہندی اور بنگلا جیسی بڑی زبانوں میں ڈھالا گیا۔ اسے ہندوستان کی مختلف علاقائی زبانوں میں بھی پیش کیا گیا اور آج جب ہم شوکت صدیقی کا 100 واں یوم پیدائش منا رہے ہیں تو یہ واقعہ اردو ادب کے قارئین کے لیے خوش گوار اثرات کا حامل ہے۔

عبداللہ حسین کہا کرتے تھے کہ ناول کا اصل امتحان وقت ہے، یہی حتمی کسوٹی ہے۔ نقاد نہیں، یہ قاری ہیں جو کسی کتاب کو زندہ رکھتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر 25، 30 سال بعد بھی کوئی ناول پڑھا جارہا ہے، زیر بحث آرہا ہے تو وہ بڑا ناول ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اردو کو چند بڑے ناول میسر ہیں۔ قرة العین حیدر کا ’آگ کا دریا‘ ہو، عبداللہ حسین کا ’اداس نسلیں‘ یا خدیجہ مستور کا ’آنگن‘، یہ سب ہی کتابیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ اسی مانند مستنصر حسین تارڑکے ناول ’بہاؤ‘ اور بانو قدسیہ کی تخلیق ’راجہ گدھ‘ نے بھی وقت کی کسوٹی پر خود کو منوایا مگر جو زندگی شوکت صدیقی کے ناول کے حصے میں آئی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

چند ناقدین کا خیال ہے کہ یہ گزشتہ 50 برس میں لکھے جانے والے ناولوں میں سب سے زیادہ متعلقہ ناول ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے عصر سے معاملہ کرتا ہے۔ اس میں تقسیم کے بعد ایک نئی ریاست میں جنم لینے والے طبقات، ان کے مسائل، وہاں موجود جبر اور امکانات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ایک ایسی زبان اختیار کی گئی، جو شعری لب و لہجے سے آزاد خالص فکشن کی نثر ہے۔ جہاں چھوٹے چھوٹے چست جملوں میں کہانی بیان کی جاتی ہے اور چیزوں کو غیر ضروری طور پر مبہم یا تہ دار نہیں بنایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آج، لگ بھگ 60 برس بعد بھی آپ یہ ناول پڑھتے ہیں تو مایوس نہیں ہوں گے۔

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ’خدا کی بستی‘ کو ملنے والی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسے پی ٹی وی پر ڈرامائی روپ دیا گیا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پی ٹی وی کے پلیٹ فارم نے اس کہانی کو گھر گھر پہنچا دیا اور یوں وہ افراد بھی کہ جنہوں نے ناول تو چھوڑیے کبھی اخبار بھی نہیں پڑھا تھا، انہیں بھی راجا اور نوشا کی زندگیوں، المیوں اور مسائل کی خبر ہوگئی۔

’خدا کی بستی‘ پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔ جن اداکاروں نے اس ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کیا وہ ساری زندگی ان کرداروں کے وسیلے پہچانے گئے۔ معروف اداکار قاضی واجد کہا کرتے تھے کہ ’خدا کی بستی کے راجا کی شہرت آج بھی میرے ساتھ ہے‘۔ بے شک ڈرامے سے اس ناول کی شہرت مہمیز ہوئی مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ اس ناول کے انتخاب کا اصل سبب یہی تھا کہ یہ دیگر تخلیقات سے زیادہ متعلقہ اور اثرانگیز تھا۔یعنی اس کے چناؤ کے پس منظر میں اس کی اپنی انفرادیت کارفرما تھی۔

ناقدین ادب کے نزدیک اس ناول کو حاصل ہونے والی طویل زندگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس نے ان مسائل کا احاطہ کیا جو ترقی پذیر ممالک کو آج بھی درپیش ہیں۔ جیسے طبقاتی نظام، جرائم، کرپشن اور معاشرتی جبر۔ جس وقت شوکت صدیقی یہ ناول لکھ رہے تھے تب بھی اور آج جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں ہمیں لگ بھگ یہی مسائل درپیش ہیں۔گو وہ ترقی پسند نظریات کے حامل تھے مگر یہ محض نظریات نہیں تھے۔

ان مسائل کو پوری طرح سمجھنے اور پھر ان پر قلم اٹھانے کے لیے شوکت صدیقی نے بڑے پاپڑ بیلے۔ وہ اپنے وقت کے معروف صحافی تھے۔ کئی اخبارات کے ایڈیٹر رہے۔ بیدار ذہن تھے۔ انہوں نے خود کو دفتر تک محدود نہیں رکھا۔ طویل سفر کیے، بھانت بھانت کے لوگوں سے ملے، جس زمانے میں وہ اپنے ضخیم ماسٹر پیس ’جانگلوس‘ پر کام کر رہے تھے تو درست معلومات کے حصول کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے۔رپورٹرز سے مکالمہ کرتے، واقعات کی گہرائی میں اترتے، مگر جب قلم لے کر بیٹھتے، تو صحافی منظر سے غائب ہوجاتا اور اس کی جگہ ایک فکشن نگار لے لیتا جو تخلیقیت کے رتھ پر سوار ایک کے بعد ایک سلطنتیں فتح کیے جاتا۔

صرف ’خدا کی بستی‘ ہی نہیں، ’جانگلوس‘ نے بھی اردو قارئین پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔ یہ 3 جلدوں میں شائع ہونے والا ضخیم ناول تھا۔ اسے پنجاب کی الف لیلہ بھی کہا جاتا ہے اور اسے ڈرامائی تشکیل بھی دی گئی۔

یہاں کچھ دیر ٹھہر کر ان کے سفر زندگی پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ شوکت صاحب ترقی پسند مکتبہ فکر سے تھے۔ انہوں نے بطور صحافتی اور ادیب اسی نظریے کے لیے جدوجہد کی مگر اپنے ادب کو پروپیگنڈا نہیں بننے دیا۔ انہوں نے اردو ادب کو 4 افسانوی مجموعے دیے، جو ’تیسرا آدمی‘، ’اندھیرا اور اندھیرا‘، ’راتوں کا شہر‘ اور ’کیمیا گر‘ کے زیر عنوان شائع ہوئے۔

ان کے ناولوں کی تعداد بھی چار تھی۔ خدا کی بستی اور جانگلوس کا تو ذکر ہوگیا۔ باقی دو ناول ’کمیں گاہ‘ اور ’چار دیواری‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ’کمیں گاہ‘ ان کا پہلا، جب کہ ’چار دیواری‘ آخری ناول تھا۔ ان کے حصے میں کئی اعزازات آئے۔ 1960ء میں انہیں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ حسن کارکردگی، کمالِ فن ایوارڈ اور ستارہ امیتاز پیش کیا۔

اردو کا یہ بے بدل ادیب 20مارچ 1923ءکو لکھنئو میں پیدا ہوا ۔ 1946ء میں انہوں نے سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔ 1980ء میں وہ ہجرت کرکے لاہور آگئے۔ بعد ازاں کراچی کا رخ کیا جو تقسیم کے بعد مہاجرین کا نیا ٹھکانہ بن گیا تھا۔ 1952ء ان کی زندگی میں بہت اہم تھا۔ اسی برس ان کی شادی ہوئی، اسی برس اولین افسانوی مجموعہ شائع ہوا اور اسی برس ’پاکستان اسٹینڈرڈ‘ سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔ آغاز انگریزی صحافت سے کیا تھا مگر پھر اردو اخبارات کا رخ کیا۔ 1963ء میں انجام، کراچی میں نیوز ایڈیٹر ہوگئے۔ وہ معروف ترقی پسند رسالے ’الفتح‘ کے نگرانِ اعلی بھی رہے۔ صحافت کے شعبے کو انہوں نے اپنی زندگی کے کئی عشرے دیے۔

ان کی حیات ہی میں ان کی زندگی اور خدمات تحقیقی مقالات کا موضوع بنی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 18 دسمبر 2006ء کو اس باکمال ادیب نے جہانِ فانی سے کوچ کیا یوں تو وہ چلے گئے، مگر اپنے تخلیق کردہ ادب، بالخصوص ’خدا کی بستی‘ کے وسیلے وہ آج بھی قارئین کے دلوں میں موجود ہیں۔

معروف صحافی اور فکشن نگار خشونت سنگھ نے خدا کی بستی کو ’بدعنوان پاکستانی معاشرے پر ایک بڑا اور بھرپور طنز‘ قرار دیا تھا۔ آج ان کے 100 سالہ جشن کے موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں اس طنز کو ایک بار پھر پڑھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے، جتنا عشروں قبل تھا۔

صائمہ اقبال

لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔