فرے منریک: ایک پرتگیز پادری کی سفرِ سندھ کی کتھا (پہلا حصہ)
حیات کا سفر ان 2 بھائیوں کی کہانی ہے جن میں سے ایک کا نام ’صحیح‘ اور دوسرے کا نام ’غلط‘ ہے۔ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بالکل ریل کی اُن پٹڑیوں کی طرح جو آپس میں کبھی نہیں ملتیں اور ایک دوسرے سے کبھی جدا بھی نہیں ہوتیں۔ ان دونوں میں بہت ہی کمال کا رشتہ ہے مگر کمال یہ بھی ہے کہ لاکھوں برسوں کے انسانی ارتقا نے یہ جوہر ہمارے ذہن کی جھولی میں ڈالا ہے کہ ہم ان دونوں بھائیوں کو پرکھ سکیں۔
غلط اور صحیح کو پہچاننے کے لیے بھی ایک فلسفہ ہے۔ پہلا یہ کہ غلط یا صحیح وہ ہے جو ابھی ہے اور دوسرا وہ ہوگا جو تاریخ اپنی باریک چھننی سے چھان کر ہمارے حوالے کرے گی۔ تو جو ابھی غلط یا درست ہے اس کا فی الوقت فیصلہ فرد کے ہاتھ میں ہے۔ مگر جب تاریخ یہ فیصلہ کرے گی تو انسانی ذات کی دانست اس میں شامل ہوگی اور وہی فیصلہ تقریباً صحیح ہوگا۔ ہم تقریباً کا لفظ اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ کبھی کوئی وجود، خیال یا فیصلہ سو فیصد مکمل یا درست نہیں ہوتا اس لیے ہر جگہ شک اور تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔
ہم مل کر تاریخ کا سفر اس لیے کرتے ہیں تاکہ ہم گزرے دنوں کے حالات اور واقعات کو الفاظ کی آنکھوں سے دیکھ کر اور ان دونوں بھائیوں سے مل کر اپنے آنے والے دنوں کے لیے کوئی اچھی اور مثبت گزرگاہ تعمیر کرسکیں جس پر ہمارے مستقبل کی سواری سہل طریقے سے سفر کرپائے۔
تو آج ہم 380 برس پہلے یعنی 1640ء کے زمانے میں لاہور کے شاندار شہر چلتے ہیں جہاں مغل شہنشاہ شاہ جہاں کا اکثر وقت لاہور کے قلعے اور اس کے اطراف میں تعمیرات کے افتتاح یا آس پاس کے علاقوں میں شکار کرتے گزرتا ہے۔ اکبر کے بنائے ہوئے شاندار قلعے کے مشرقی اکبری گیٹ اور مغربی عالمگیری گیٹ کے شمال میں راوی کا شاندار بہاؤ بہتا ہے۔
کچھ ماہ کے بعد یعنی اگلے برس 1641ء میں ایک پرتگیز پادری سفر کرتا آگرہ سے نکلے گا اور 10 فروری کے انتہائی ٹھنڈے شب و روز میں یہاں پہنچ جائے گا۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس کے پہنچنے کے بعد ہم مسلسل اُس کے ساتھ رہیں اور وہ جو ہمیں دکھائے گا یا بتلائے گا ہم وہ دیکھیں گے اور سنیں گے۔ مگر جب تک وہ پہنچے میں آپ کو اُن دنوں کے سیاسی حالات سے روشناس کرادوں تو یہ زیادہ مناسب رہے گا اور اس سفر کو سمجھنے میں بھی آسانی رہے گی۔
شاہ جہاں کی تخت نشینی (1628ء) سے پہلے ازبک قبائل کے حکمران امام قُلی کے بھائی نظر محمد نے کابل کا محاصرہ کرکے قلعہ ضحاک پر قبضہ کرنا چاہا مگر ناکام رہا جبکہ 1629ء میں مغلوں نے بامیان جیت لیا۔ آنے والے دنوں میں ایک دوسرے سے بات چیت کے سلسلے نے افغان اور ہند میں دوستانہ ماحول پیدا کیا۔ مگر کابل اور قندھار پر قبضہ افغانستان کے جنوب میں بسے تیموری خون کا ایک سپنا رہا۔
1639ء میں شاہ جہاں 50 ہزار سواروں کی فوج لےکر افغان قبائل پر فتح حاصل کرنے اور افغانستان میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے کابل پہنچا مگر شیبانیوں سے جنگ نہیں چھیڑی اور واپس آگیا۔ دوسری طرف بلخ کی جانب وہاں کے مقامی حاکموں کی آپس میں بن نہیں رہی تھی اور آگے چل کر بھائی نے بھائی کا گلا پکڑلیا۔
سندھ کی طرف 1592ء تک مرزا جانی بیگ نے بہت کوشش کی کہ سندھ، خاص کر جنوبی سندھ مغل سلطنت کا حصہ نہ بنے مگر اسی زمانے میں میاں عبدالرحیم خان خاناں نے حملہ کیا اور مرزا جانی بیگ کو مغل دربار میں بلالیا۔ اس طرح ان دنوں جس کا ذکر ہم کررہے ہیں ہند اور سندھ میں مغل بادشاہ اور اُن کے گورنروں کا طوطی بولتا تھا۔
اب ہم 1640ء میں لاہور کی گلیوں اور اکبر کے بنائے ہوئے شاہی محل میں چلتے ہیں۔ اس سفر میں اگر مغل شہنشاہوں کی سیاست اور تہواروں کے ذکر کو چھوڑ دیا جائے تو یہ تحریر سے بےوفائی کے مترادف ہوگا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اُن زمانوں کے مصنفین کی آنکھوں سے آپ کو وہاں کے منظرنامے دکھائیں جہاں تہواروں کے رنگوں، شیرینیوں اور خوراکوں کی ایک دنیا بستی ہے۔ اُن ماہ و سال میں لاہور کا درجہ دارالسطنت کا تھا۔
’عمل صالح‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ ’بغداد کے قلعے کی فتح کے بعد ترکی کے سلطان نے شہنشاہِ ہند کے اُس نامے کا جواب ارسلان آقا کے ہاتھ بھیجا جو شہنشاہ ہند کے سفیر میر ظریف کے ہاتھوں ترکی بھیجا گیا تھا۔ ارسلان آقا عربی گھوڑے اور دوسرے تحائف کے ساتھ ٹھٹہ پہنچا تو یہ خبر میر ظریف نے بادشاہ کو بھیجی اور حکم جاری ہوا کہ ’قیصر روم کے ایلچی کو 10 ہزار روپے ہماری سرکار سے عنایت ہوں۔ خواص خان صوبہ دار ٹھٹہ اور نجابت خان صوبہ دار ملتان 6، 6 ہزار روپے، سرکار سیوستان (سبی) کا حاکم قزاق خان اور بکھر کا ناظم شاہ قُلی خان 4، 4 ہزار روپے برسم ضیافت دیں‘۔ ان دنوں شاہ جہاں لاہور سے 18 فروری 1640ء کو کشمیر کی سیر کے لیے نکلے ہوئے تھے اور لاہور میں داراشکوہ تھے۔
7 اپریل 1640ء میں بُخارا کے والی امام قُلی خان کا سفیر ازبک خواجہ جو تحائف لےکر آیا تھا، اس نے وہ داراشکوہ کی خدمت میں پیش کیے۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب شاہ جہاں کے بیٹے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں تھے بلکہ ایک دوسرے کی دعوتیں کیا کرتے تھے اور تحفے و تحائف کی ادلا بدلی بھی خوب ہوا کرتی تھی۔ مگر ان بھائیوں میں یہ کیفیت اتنے ہی وقت تک رہی جتنا وقت انسان کے پاس جوانی رہتی ہے۔ جس کی نہ ابتدا کی خبر ہوتی ہے اور نہ جانے کا کچھ پتا چلتا ہے۔
جون 1640ء میں ٹھٹہ کا صوبے دار تبدیل ہوا اور خواص خان کی جگہ پر غیرت خان کو مقرر کیا گیا۔ جون جولائی میں ہمیں لاہور میں بڑی تقریبات اور چراغاں ہوتے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے ممالک کے سفیروں کی آوت جاوت بھی خوب نظر آتی ہے۔ کیونکہ جہانگیر کی وفات کے بعد نورجہاں نے کوشش تو بہت کی کہ تخت اسے ملے اس کے لیے اس نے اپنے بھائی مرزا ابوالحسن آصف جاہ سے مدد بھی لینی چاہی مگر بیٹی کی محبت نے ابوالحسن کو یہ سب کرنے نہیں دیا۔ اس نے سیاسی داؤ پیچ کی چالیں اپنے داماد شاہ جہاں کو تخت پر بٹھانے کے لیے چلیں اور ان چالوں میں وہ کامیاب بھی رہا۔
اسی وجہ سے اطراف میں پھیلے ممالک تک شاہ جہاں کی ایک بہتر تصویر پہنچی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو مناسب رہے گا کہ اکبر سے شاہ جہاں تک، مغل عہد کے یہ کمال کے دن تھے اور جب کمال کی کوکھ سے زوال نے جنم لیا تو وہ شاہ جہاں کے نورچشموں کی صورت میں سامنے آیا۔ گویا گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
1640ء اگست میں ملک میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں جس سے بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ شاہ جہاں کشمیر سے منزلیں طے کرتا 16 نومبر 1640ء کو لاہور پہنچا اور جاڑے کے ٹھنڈے دنوں میں یعنی 19 شوال یا 1 فروری 1641ء جمعرات کو بادشاہ کے 50ویں شمسی سال کا ’جشن تولادان‘ منعقد ہوا۔ اس جشن کے موقع پر انعامات و خطابات دیے گئے۔ مغل بادشاہ یہ تقریب سال میں 2 مرتبہ اپنی شمسی اور قمری سالگرہ کے مواقع پر منعقد کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر بادشاہ کو قیمتی اشیا اور اناج میں تولا جاتا تھا جو بعد میں سال بھر غریبوں میں تقسیم ہوتا رہتا تھا۔ اس جشن کی تیاری 2 ماہ پہلے سے شروع کردی جاتی تھی۔ شاہی محل کو سجایا جاتا اور رنگین اور شاندار شامیانے نصب کیے جاتے۔ عوام بھی اس تقریب کو دعوتوں، موسیقی، رقص اور آتش بازی کے ساتھ منایا کرتے تھے۔
شمسی سالگرہ کے موقع پر بادشاہ 12 اقسام کی اشیا میں تُلا کرتا تھا مثلاً سونا، پارہ، ریشمی کپڑا، خوشبو، تانبا، روح توتیہ، مصالحہ، گھی، چاول، دودھ، 7 اقسام کے اناج اور نمک اور اس کے علاوہ بادشاہ کی عمر کے حساب سے اتنی ہی تعداد میں بھیڑیں، بکریاں پرندے غریبوں میں تقسیم کیے جاتے تھے۔ پرندوں کو قید سے آزاد کیا جاتا تھا جبکہ قمری برس کے موقع پر بادشاہ 8 اقسام کی اشیا جیسے چاندی، کپڑا، سیسہ، ٹِن، پھل، مٹھائی، ترکاریاں اور سرسوں کے تیل میں تُلتا تھا۔ بادشاہ جس ترازو میں تولا جاتا وہ بھی سونے سے بنا ہوتا تھا۔
اس کے بعد بادشاہ تخت پر بیٹھتا اور تولی گئی اشیا جشن میں شامل لوگوں میں تقسیم کی جاتیں اور اس موقع کے لیے ضرب کیے گئے چاندی کے سکے عوام کے ہجوم میں بطور خیرات پھینکے جاتے۔ ان تقریبات کے علاوہ جشن صحت، جشن گلابی، جشن تاج پوشی، عیدیں، شب معراج، عید میلادالنبی کے ساتھ ہندوؤں کے تہوار ہولی، دیوالی، دسہرہ اور بسنت بھی شاہی دربار میں پُرجوش اور شاندار انداز میں منائے جاتے تھے۔
اتنے جشن اور تقریبات کے متعلق پڑھ کر مجھے لگا کہ یہ مغل بادشاہ جب اتنی زیادہ تقریبات کا انعقاد کرتے تھے تو جنگ کے میدان کب سجتے ہوں گے؟ آپ ذرا سوچیں کہ ایسی تقریبات لاہور کے اس شہر میں ہوتی ہوں گی جب نہ کسی سائلینسر پھٹے موٹر سائیکل کی آواز ہوگی، نہ کسی رکشے کی آواز اور نہ کانوں کو درد دینے والا ٹرک کا سائرن ہوگا۔ نہ کسی گاڑی کی آوت جاوت ہوگی بلکہ تب تو سائیکل کے آگے لگی اسٹیل کی گھنٹی بھی نہیں بجتی ہوگی۔
سردیوں سے پہلے جب کبھی کبھار ہوائیں بالکل بھی نہیں چلتیں اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے شام کے وقت ہلکی مٹی کی دھند اُٹھتی ہوگی تو مٹی کی ایک تہہ دور تک نظر آتی ہوگی اور جب رات کی ٹھنڈک لاہور کے شاہی قلعے کے وسیع آنگنوں، گلیوں، محلوں، گھروں کے آنگنوں اور راوی کے کناروں پر اُترتی ہوں گی تو وہ کیا شاندار راتیں ہوں گی۔ ذرا تصور تو کریں اور جب جاڑوں کے ٹھنڈے موسموں کی تیز ہوائیں شاہی قلعے کے آسمان پر سے گزرتی ہوں گی اور لاہور کے گھروں اور چوراہوں پر الاؤ جلتے ہوں گے اور کسی جشن کی تیاری میں چراغاں ہوتا ہوگا۔ تو کیسا منظر ہوگا وہ!
ایک اور اہم جشن رہ گیا جو ’جشن نوروز‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ’آئین اکبری‘ کے مطابق جشن نوروز ایک قدیم ایرانی تہوار تھا جو پہلی فروردین (ایرانی سال کا پہلا مہینہ اور عیسوی کا ماہ مارچ) جب بہار کا موسم شروع ہوتا ہے تو 7 روز تک انتہائی جوش و مسرت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
مونسیراٹ انٹونیو (Monserrate Antonio) اس سے متعلق ہمیں تفصیل سے بتاتے ہیں کہ ’نوروز کے جشن کا اعلان شاہی نوبت خانے میں نقارے بجا کر کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر میناروں، گنبدوں اور شاہی محل کے تمام حصوں پر رنگین چراغاں کیا جاتا ہے۔ مختلف رنگوں سے روشنی جھلکتی ہوئی آتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے سارا میدان رنگ برنگے پھولوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ موسم بہار کی آمد کا اعلان کرنے کے لیے جگہ جگہ سبز جھنڈے اور جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں۔ فوج کا جلوس شہروں کی شاہراہوں اور گلیوں سے گزرتا ہے۔ اس موقع پر تمام مکانات پر مختلف رنگوں سے رنگ کیا جاتا ہے اور جگہ جگہ خوبصورت رنگین پردے دیواروں پر ڈالے جاتے۔ سپاہی بھی رنگین وردیوں میں ملبوس ہوتے۔ ہاتھیوں کو خاص طور پر زیورات سے سجایا جاتا اور اُن کی پیٹھ پر ہودے رکھے جاتے۔ ہر روز کھیل تماشے ہوا کرتے۔ بادشاہ ایک سونےکے تخت پر جلوہ افروز ہوتا جس پر سیڑھیاں رکھ کر جایا جاسکتا تھا‘۔
ہمارے سفر کے ساتھی ’منریک‘ نے لاہور میں یہ جشن نوروز دیکھا تھا وہ لکھتے ہیں کہ ’اس جشن میں ہاتھی اپنی سونڈھوں میں تیز دھار والی تلواریں لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس شکل میں وہ ڈر اور خوف پیدا کرتے ہیں مگر اس کے باوجود جب کوئی ان ہودوں پر نظر ڈالتا ہے جو ان کے اوپر سواری کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو وہاں رنگ برنگے جھنڈے فضا میں لہرا رہے ہوتے ہیں تو اُن کو دیکھ کر دل خوشی اور مُسرت سے بھر جاتا ہے‘۔
1 فروری 1641ء جمعرات کو بادشاہ کے 50ویں شمسی سال کا ’جشن تولادان‘ منعقد ہوا تھا۔ اس جشن کے موقع پر جو انعامات و خطابات دیے گئے تھے وہ تقریب شاید فرے منریک (Fray Sebastien Manrique) نے نہیں دیکھی ہوگی مگر اس اہم تقریب کے چلتے جشن میں وہ 10 دن بعد یعنی 29 شوال 1050ھ یا 10 فروری 1641ء کو لاہور پہنچا تھا۔
وہ لاہور کی خوبصورتی اور اس کے قریب سے بہتے ہوئے دریا کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ ساتھ میں وہ پہاڑوں سے اُترتی ہوئی سندھو ندی کی بھی تعریف کرتا ہے۔ وہ یہاں کے باغات، حوضوں، پانی کی نہروں اور چشموں کا بڑے مزے سے ذکر کرتا ہے۔ منریک نے لاہور پہنچنے کے بعد اتنے جشن دیکھے کہ اپنی تحریر میں سب کو ملا کر تحریر کردیا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے سفرنامے کے دوسرے حصے میں جو باب 63 ہے اسے مہینوں، تاریخوں اور دنوں کے حوالے سے سمجھنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے۔ ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سندھ روانہ ہونے سے پہلے وہ کتنا عرصہ لاہور میں رہا اور اس کی کیا کیا مصروفیات رہیں لیکن اگر لاہور میں آنے اور رہنے کا وقت ہمارے سامنے درست نہیں ہوگا تو سندھ کے سفرنامے کو مہینوں اور موسموں کے حوالے سے سمجھنے میں ہمیں مشکل پیش آسکتی ہے۔
منریک جب لاہور پہنچا تو اتوار کا دن تھا اور تاریخ 10 فروری 1641ء (29 شوال 1050ھ) تھی۔ عید ہفتے کے دن 12 جنوری کو گزر چکی تھی اور شاہ جہاں کا 50واں شمسی جشنِ تولادان جاری تھا۔ منریک نے جشن نوروز بھی دیکھا تھا، جو 22 مارچ (9 ذی الحج، بروز جمعہ) کو ہوا تھا۔ جشن نوروز کی شروعات اور عید الاضحی کا دن ساتھ تھا۔ مطلب یہ کہ مارچ تک بھی منریک لاہور میں ہی تھا اور منریک نے بادشاہ کا 52واں ’جشن تولادان‘ دیکھا جو جمعے کے دن 13 جولائی (4 ربیع الثانی 1051ھ) کو منعقد ہوا تھا۔
اس کے بعد ہمیں محمد صالح کمبوہ کی کتاب ’عمل صالح‘ میں یہ حوالہ ملتا ہے کہ بادشاہ سلامت 20 اگست کو ممتاز محل کی بڑی بہن اور آصف خان کی بیٹی کے انتقال کی تعزیت کرنے ان کے محل گئے تھے۔ تعزیت کی اس دعوت میں منریک بھی شامل تھا۔ چونکہ یہ تعزیت کسی غریب کے آنگن کی نہیں تھی جہاں درد اور محرومی کی زمین پر فقط آنسوؤں، آہوں اور دردوں کی فصلیں اُگتی ہیں۔
یہ شہنشاہِ ہند کی محبوب بیوی کی بہن اور شاہ جہاں کے بعد حکومت کے سب سے بڑے آدمی بلکہ ایک وزیراعظم جس کو بادشاہوں کی طرف سے کم سے کم 36 سے زیادہ القاب ملے تھے، اُس کی بیٹی کی تعزیت تھی۔ شاہ جہاں نے رات کا کھانا بھی وہاں کھایا تھا اور بہت سارے نئے طعام دیکھ کر بادشاہ حیران بھی ہوگیا تھا۔ چونکہ پرتگیز مشنری سے آصف خان کی اچھی دوستی باشی تھی جس کی وجہ سے اُس دعوت میں کچھ پرتگیز کیک اور مٹھائیاں بھی بنی تھیں۔
اس ضیافتِ شب میں شاہ جہاں نے پرتگیزوں کے لیے جو کہا اُس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس نے سندھ یا ہند میں دیولوں کو مسمار کرنے کے احکامات کیوں دیے ہوں گے۔ شاہ جہاں نے جو پرتگیزوں کے لیے کچھ باتیں کہیں وہ منریک کو ضرور بُری لگیں اس کا اندازہ اُس کی تحریر سے لگایا جاسکتا ہے جس میں وہ ایک انتہا پسند پادری نظر آتا ہے اور بادشاہ کے متعلق کئی باتیں کہہ کر وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔
منریک لکھتا ہے کہ ’نواب آصف خان کی وجہ سے اُس کو سندھ جانے اور وہاں گرائے ہوئے دیول اور رہائشی کمروں کی تعمیر کرنے کی اجازت ملی تھی اور ساتھ میں مرزا آصف خان کی طرف سے ملتان، بکھر اور ٹھٹہ کے صوبے داروں کے لیے خاص خط اور چوکیوں پر ٹیکس نہ لینے اور پریشان نہ کرنے کے بھی خطوط آصف خان نے اپنی خاص مہر سے جاری کیے تھے۔ نواب آصف کی حویلی تک منریک کی رسائی تب ممکن ہوپائی جب لاہور میں رہنے والے پرتگیز مشنری پادری جوزف ڈی کاسٹرو (Father Joseph de Castro) کے مرزا ابوالحسن آصف خان سے اچھا اور قریبی تعلق تھا۔
منریک لکھتا ہے کہ ’لاہور میں جب عیدین اور جشن ختم ہوئے تو فادر جوزف نے شہزادے آصف سے میری ملاقات کے لیے گزارش کی۔ نواب آصف نے مجھے دوسرے ہی دن بلالیا۔ میں اس کے شاندار محل میں پہنچا جہاں شاندار باغ تھا اور رنگین پھول کھلے ہوئے تھے۔ نواب مجھے بڑی شفقت سے ملا۔ تحفے تحائف کے تبادلوں کے بعد آنے کا مقصد بیان کیا اور آصف خان سے بہت سارے احکامات کے لیے کاغذوں پر شاہی مہر لگوائی اور خاص کر سندھو سلطنت کے اُن گرجا گھروں اور رہائشوں کی دوبارہ تعمیر کے لیے جس کو کچھ برس پہلے بادشاہ کے احکامات پر گرا دیا گیا تھا۔ نواب آصف کے یہ احکامات اس لیے بھی ضروری تھے کہ سفر میں یا دیول کی تعمیر کے دوران کوئی پریشانی پیش نہ آئے‘۔
شاہ جہاں نامہ میں ہمیں یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اپریل کے مہینے میں ٹھٹہ سندھ کے لاہری (لاڑی) بندر کے فدائی خان کا انتقال ہوا جس کی جگہ پر حکیم خوشحال کو مقرر کیا گیا۔ جشن نوروز والے دن بادشاہ کو 7 لاکھ روپے کے تحفے موصول ہوئے۔ ان ہی دنوں گجرات اور کاٹھیاواڑ کی طرف کاٹھی اور کولیوں کی بغاوت کی خبریں تو سنائی دیتی ہیں مگر منریک کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ بادشاہوں کی تاریخ لکھنے والے مصنفین کی آنکھ وہاں وہاں کھُلتی ہے جہاں جہاں بادشاہ کی نظر کا کرم برسے یا قہر برسے۔ باقی عام و خاص کے لیے ان کے قلم کی سیاہی خشک اور ہاتھ سے بنا کاغذ سُکڑ جاتا ہے۔
ان تاریخوں میں جو بھی منظرنامے نظر آئیں گے ان میں پھرپور زندگی کے رنگ ملیں گے کہ جیسے بادشاہ وہی زندگی جیتے ہیں۔ مگر جن دارالسلطنتوں میں یہ بادشاہ اپنی زندگی گزارتے ہیں ان کو اگر آبادی کے حوالے سے ہم 10 فیصد بھی مان لیں تو باقی 90 فیصد حیات کی زندگی ان منظرناموں کے بالکل برعکس گزرتی ہے۔
بادشاہ کی رات کی دعوت ختم ہونے پر منریک کو خبر ملی کہ کشتی کل ملتان کے لیے تیار ہے۔ منریک، آصف خان کے محل سے ہوتا ہوا راوی کے قریب آکر رکا کہ صبح کو اسے سورج اُگنے کے ساتھ ملتان کے لیے نکلنا ہے۔
چلیے ہم بھی مسٹر منریک کے ساتھ کشتی میں سوار ہوتے ہیں جہاں اس کے ساتھ لاہور کے بیوپاری بھی شامل ہیں جو اس سفر میں کچھ بیچیں گے اور کچھ خریدیں گے۔
حوالہ جات
- ’شاہجہان نامہ‘ (عمل صالح) ۔ ملا محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’اکبر کا ہندوستان‘ ۔2016ء۔ مونسیراٹ۔ ترجمہ: ڈاکٹر مبارک علی۔ فکشن ہاؤس، لاہور
- Travels of Fray Sebastien Manrique. Vol:ii. The Hakluyt Society. Oxford. 1927
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔