امریکا کے بعد برطانیہ نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی
برطانیہ نے سرکاری ڈیوائسز اور موبائل فون میں چین کی ایپلی کیشن ٹک ٹاک کے استعمال پرپابندی لگادی ہے۔
غیر ملکی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو خدشہ ہے کہ چینی حکومت برطانیہ کے سرکاری ڈیوائسز کے ذریعے حساس معلومات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے
برطانیہ کے کابینہ وزیر اولیور ڈاؤڈن کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے سرکاری ڈیوائسز میں ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد کی جا رہی ہے جو فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
دوسری جانب ٹک ٹاک نے چینی حکومت کو حساس معلومات تک رسائی کرنے سے متعلق برطانیہ کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
یورپ میں ٹک ٹاک کے حکومتی تعلقات اور عوامی پالیسی کے نائب صدر تھیو برٹرم نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ جغرافیائی سیاست پر مبنی ہے۔
اس کے علاوہ لندن میں چینی سفارت خانے نے پابندی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام حقائق کی بجائے سیاست پر مبنی ہے اور اس سے برطانیہ کے کاروباری ماحول میں بین الاقوامی برادری کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔
چینی سفارتخانہ کے مطابق فیصلہ برطانیہ میں متعلقہ کمپنیوں کے معمول کے کاموں میں مداخلت ہے، ایسے فیصلے سے برطانیہ کے اپنے مفادات کو ہی نقصان پہنچے گا۔
برطانیہ کے کابینہ وزیر اولیور ڈاؤڈن نے کہا کہ وہ عوام کو ٹک ٹاک استعمال نہ کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے لیکن عوام کو ہمیشہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ڈیٹا پالیسی کو ڈاؤن لوڈ اور استعمال کرنے سے قبل انہیں پہلے غور سے پڑھنا چاہیے’۔
برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سوناک پر سینئر ممبران پارلیمنٹ کا دباؤ تھا کہ وہ امریکا اور یورپی یونین کی طرح برطانیہ میں بھی سرکاری ڈیوائسز سے ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کریں۔
ٹک ٹاک کے ترجمان نے پابندی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی وسیع سیاسی غلط فہمیوں کی بنیاد پر لگائی گئی ہے جس میں ٹک ٹاک یا اس کے لاکھوں صارفین کا کوئی کردار نہیں ہے
حالیہ برسوں میں ٹک ٹاک کے استعمال میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، دنیا بھر میں حال ہی میں 3 ارب 50 کروڑصارفین نے ٹک ٹاک کی ایپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈز کیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا، کینیڈا اور بیلجیم سمیت مختلف یورپی ممالک بھی سرکاری ڈیوائسزمیں ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی لگا چکے ہیں۔