پاکستان

ایٹمی، میزائل پروگرام قومی اثاثہ ہے جو مکمل محفوظ اور کسی دباؤ کے بغیر ہے، وزیر اعظم

جوہری پروگرام بغیر کسی دباؤ کے مکمل طور پر محفوظ، فول پروف ہے اور یہ اس مقصد کو مکمل طرح سے پورا کرتا ہے جس کے لیے یہ صلاحیت تیار کی گئی تھی، شہباز شریف
|

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے جس کی ریاست غیرت مندی سے حفاظت کرتی ہے۔

وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے حوالے سے سوشل اور پرنٹ میڈیا پر گردش کرنے والے حالیہ تمام بیانات، پریس ریلیز، سوالات اور مختلف دعوؤں میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی کے دورہ پاکستان کے تناظر میں پرامن ایٹمی پروگرام کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے جس کی ریاست غیرت مندی سے حفاظت کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مکمل پروگرام کلی طور پر محفوظ، فول پروف اور کسی بھی دباؤ کے بغیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام اس مقصد کو ہر طرح سے پورا کرتا ہے جس کے لیے یہ صلاحیت حاصل کی گئی ہے۔

قبل ازیں آج وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے سینیٹ کی گولڈن جوبلی کی تقریب کے حوالے سے منعقدہ ایوان کی ہول کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نیوکلیئر یا میزائل پروگرام پر کوئی بھی سمجھوتا نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے، کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھے۔

سینیٹ کی گولڈن جوبلی پر مبارک باد دیتا ہوں، وزیراعظم

سینیٹ کی گولڈن جوبلی پر ہونے والے خصوصی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سینیٹ کے 50 سالہ مدت شایان شان طریقے مگر انتہائی سادگی کے ساتھ منانے کے لیے پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کیونکہ یہ بڑی قومی خدمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1973 میں جب پہلی مرتبہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو برابر کے حقوق دینے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر قائدین نے تاریخی کام سرانجام دیا اور آج 50 سال گزر گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سینیٹ نے قانون سازی یا زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں بڑی محنت اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیرملکی ہائی کمشنرز اور سفارت کاروں کا مشکور ہوں کہ وہ یہاں آئے اور گزشتہ برس کے بدترین سیلاب کے دوران ان کی کاوشوں پر ان کا مشکور ہوں۔

’پاکستان کو امپورٹڈ مہنگائی کا سامنا ہے‘

وزیراعظم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک مشکل چیلنج کا سامنا کر رہا ہے اور امپورٹڈ مہنگائی کا سامنا ہے، جو یوکرین تنازع اور عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی کا شاخسانہ ہے، جس سے پاکستان جیسے ممالک بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے جب ہم نے حکومت سنبھالی تو اس وقت ہماری معیشت بڑے مشکل امتحان کا سامنا کر رہی تھی، ہم عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے مذاکرات اور معاہدوں پر دستخط کرچکے تھے لیکن ہم نے ان شرائط کا احترام نہیں کیا جس سے نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ دیگر اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کے اعتماد کو نقصان پہنچا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے آئینی طریقے سے حکومت بنائی تو اتحادی حکومت کو بہت مشکل چیلنجز کا سامنا تھا اور ملک کا خزانہ خالی تھا، ہم نے بطور اتحادی حکومت فیصلہ کیا کہ ہم ایسا راستہ اپنائیں گے جس سے ریاست پاکستان کا تحفظ ہوگا۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں چند بڑے فیصلے کرنا پڑے، جس سے مہنگائی ہوئی لیکن ہم وہ فیصلے کرنے سے نہیں ہچکچائے اور اس کو ہمارے ساتھی ریاست کو بچایا سیاست کو قربان کردیا سے تعبیر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے ملک کے لیے دن رات کام کیا اور ہم سب فرشتے نہیں ہیں ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان غلطیوں سے سبق سیکھیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرلے، میں ایک خطاکار انسان ہوں، زندگی میں بے پناہ خطائیں کی ہوں گی اور ماضی میں جھانکتا ہوں اور بعض غلطیاں جب ذہن میں آتی ہیں تو یقیناً خوف بھی آتا ہے اور اللہ سے معافی بھی مانگتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بہتری کے لیے لے جا اور جس کام کے لیے ہمیں مقرر کیا ہے، اس کی انجام دہی میں حتی المقدور کوشش کریں۔

’قوم کا لیڈر اناپرست نہیں ہوتا بلکہ محبتیں بانٹتا ہے‘

انہوں نے کہا کہ ماضی میں وہ زمانہ تھا کہ شدید اختلافات کے باوجود پاکستان کے عظیم تر مفاد کے لیے سیاسی قیادت اکٹھے ہو کر بیٹھتی تھی، شاید ان میں سے بعض ایک دوسرے سے بات کرنا پسند نہ کرتے ہوں گے لیکن پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے مواقع آئے جب سیاسی قیادت اور ملک کے تمام زعما مل بیٹھے اور بڑے سے بڑے بحران پر گفت وشنید کی اور اس کا حل نکالا، جس کی کئی مثالیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قوم کا لیڈر اناپرست نہیں ہوتا، قوم کے لیڈر میں تکبر، غصہ نہیں ہوتا، قوم کا لیڈر محبتیں بانٹتا ہے، غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے سب کے ساتھ مل کر چلنا چاہتا ہے اور ہر طرف محبت، یگانگت، یکسوئی اور پاکستانیت کا پیغام دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج سیاست دان گالی بن چکا ہے، آج پاکستان کے اندر نظام کو تہہ و بالا کرنے کے لیے آخری دھکا لگایا جا رہا ہے، مکمل خلاف ورزی ہے۔

’ملک کے ایسے مخدوش حالات کبھی نہیں تھے‘

شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے انتہائی مخدوش حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے، جہاں عدالت عظمیٰ، عدالت عالیہ اور ماتحت عدالتوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں اور اداروں کی اتنی بے توقیری کی جارہی ہے، جس کا حساب نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گھیراؤ جلاؤ کی تحریک کو آگ لگانے کے لیے ہوا دی جا رہی ہے، ان حالات میں گولڈن جوبلی منانا بجا طور پر تحسین کا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بے جا، من گھڑت اور بے بنیاد الزامات کی پاداش میں ہمارے ساتھیوں کو جیلوں میں دھکیلا جا رہا تھا تو پوری قوم نے دیکھا کہ کسی نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا اور قانون کی بے توقیری نہیں کی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پوری قوم نے دیکھا کہ فاشسٹ طریقے سے نیب کے قوانین تبدیل کرکے آرڈیننس کے تحت ریٹائرڈ ججز کو لایا جائے گا اور ان کے ذریعے مقدمات کو پار لگایا جائے گا اور ان کو 10،10 اور 20، 20 سال جیلوں میں رکھا جائے گا اور پھر جس طرح فاشسٹ حکومت ہوتی ہے وہ حکمرانی کرے گا، وہ حکم دے گا اور ملک کا حلیہ بگاڑ دے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور قانون بنایا گیا کہ جہاں پر کابینہ کی مشاورت ہوگی وہاں نیب مداخلت نہیں کرسکے گی، صرف اپنے حواریوں کو بچانے کے لیے، جہاں پر بے پناہ کرپشن ہوئی تھی، پھر ریٹائرڈ ججز کو لگانے کے لیے آرڈیننس جاری کیا گیا اور دوسری طرف جہاں کرپشن سے پہاڑ تھے، ان پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس سے حکم امتناع لیا گیا اور چیئرمین نیب نے کہا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ ان پر اسٹے ہوا ہے۔

’بعض ایسے معاملات سینے میں دفن ہیں، جن پر بات نہیں کرسکتا‘

شہباز شریف نے کہا کہ یہ وہ صورت حال تھی، جس کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے، ہمیں حکومت میں آئے ہوئے 11 مہینے ہوگئے ہیں اور جن مشکلات سے ہم گزرے اور گزر رہے ہیں ہم جانتے ہیں اور بعض ایسے معاملات ہیں جو سینے میں دفن ہیں وہ بات باہر نہیں کرسکتا، یہاں موجود بعض ممالک کے ایسے قابل احترام سفرا ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کا برے وقت میں ساتھ دیا ہے اور آج بھی دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشی نظام ٹھیک کرنے کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے، اگر سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو پھر معاشی استحکام ایک خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کو ان مشکلات سے نکالا جائے، آئی ایم ایف کی تمام شدید کڑوی شرائط پوری کردی ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں جب شرائط پوری ہوچکی ہیں تو اگلے چند دنوں میں اسٹاف لیول معاہدہ اور پھر بورڈ میں یہ معاملہ جانا چاہیے۔

آئی ایم ایف سے معاہدے پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ معاہدے میں جو تاخیر ہوئی ہے، اس میں اپنوں کا بھی قصور ہے کہ اتنا شور و غل کرو اور سیاسی عدم استحکام کرو تاہم آئی ایم ایف نے ہمیں اس حوالے سے قطعاً کوئی اشارہ تک نہیں دیا لیکن وہ اندھے تو نہیں ہیں۔

’اگر کوئی تباہی کرنے پر تلا ہے تو اس کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مفاد ہم سب کے دلوں میں ہے، کروڑوں پاکستانی ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر ایک لیڈر اس بات پر تلا ہوا ہے کہ تباہی کرنی ہے تو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بڑے طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ دیکھیں عدالتوں کی نہیں مانی جاتی، گرفتاری کے وارنٹ ہیں لیکن گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا، یقیناً ایک مصلحت کے تحت کہ کہیں خدانخواستہ معاملات بگڑ نہ جائیں جس کے لیے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا جا رہا ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ریاست پاکستان اور 22 کروڑ عوام کا مفاد داؤ پر لگ جائے اور نیرو بانسری بجاتا رہے، یہ ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا اور ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے چاہے کچھ بھی ہوجائے، ہم اپنی ساری سیاسی متاع پاکستان کے عظیم مقصد کے لیے قربان کردیں گے تو یہ ہماری قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہوجائے گا لیکن کب تک، پاکستان کی تاریخ میں 25 پروگرام ہوئے، آج 75 سال بعد ہماری صورت حال یہ ہے کہ قرضے ملیں اور آئی ایم ایف کا معاہدہ ہو تو ہم شادیانے بجاتے ہیں۔

’آئیں مل کر پاکستان کا مستقبل سنواریں‘

انہوں نے کہا کہ اس طرح قومیں نہ بنتی ہیں اور نہ سر اٹھا کر چلتی ہیں، اس کے لیے ہمیں بطور قوم سب کو مل کر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے، چاہے وہ معاشی اصلاحات، معاشی ایجنڈا یا کفایت شعاری کا پروگرام ہے، یہ انتہائی اہم ترین معاملات ہیں، جن کے اوپر پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف کرکے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور فیصلے کرنے ہوں گے اور پھر مل کر اس پر ہمیں عمل پیرا ہونا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی وقت مکمل طور پر ہاتھ سے چلا نہیں گیا، وقت ہے ہوش کے ناخن لیں اور مل بیٹھ کر عظیم پاکستان کے لیے کام کریں، ہمارے بزرگوں نے قربانیاں اس لیے نہیں دی تھیں کہ ہم کشکول لے کر ہر طرف پھرتے رہیں، اس لیے نہیں کہ ہم بھکاری بن کر جاتے رہیں اور کیا ہم عمر بھر قرض کی افیون کے عادی بن جائیں تو تاریخ گواہ ہے کہ ایسی قوموں کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا، وہی قومیں افق پر ابھرتی ہیں جو مشکلات کے باوجود آگے بڑھتی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئیں مل بیٹھ کر پاکستان کا مستقبل سنواریں، سازش نہ کریں بلکہ کاوش کریں، خرابی پیدا نہ کریں بلکہ خرابی دور کریں، آئیں نفرت اور زہر نہ پھیلائیں بلکہ محبتیں بانٹیں اور قوم کے دکھ و درد بانٹیں، غربت، بے روزگاری، ناداری، بیماری ختم کریں، اگر ہم نے اس پر عمل کرنے کے لیے کوئی راستہ اختیار نہ کیا تو قیامت تک یہ باتیں محض باتیں ہی رہیں گی۔

ملالہ کے پاکستانی انداز میں انگریزی بولنے پر تنازع

امریکا کا سلیکون ویلی بینک دیوالیہ کیوں ہوا؟

’پھڈا سپر لیگ‘ شاہین اور پولارڈ میں جملوں کے تبادلے پر ٹوئٹر صارفین کا ردعمل