پاکستان

ٹرانسجینڈر ایکٹ کی کئی شقیں شریعت سے مطابقت نہیں رکھتیں، اسلامی نظریاتی کونسل

اسلامی نظریاتی کونسل نے مخنثوں اور خواجہ سرا افراد کو درپیش سماجی اور قانونی مسائل پر تشویش کا اظہار کیا۔
Welcome

اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ خواجہ سراؤں (تحفظ کے حقوق) کے قواعد کے تفصیلی جائزے کے بعد کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ’از خود اخذ کی گئی شناخت‘ غیر اسلامی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دو روزہ میٹنگ کے دوران تمام اسٹیک ہولڈرز سے رائے لینے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قواعد ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تسلسل میں بنائے گئے تھے اور ان میں کئی دفعات اور شقیں شامل ہیں جو شریعت سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔

کونسل نے مخنثوں اور خواجہ سرا افراد کو درپیش سماجی اور قانونی مسائل پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ان افراد کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ کونسل نے سینیٹر محسن عزیز، سینیٹر مشتاق احمد اور سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کے پیش کردہ ترمیمی بلوں کا بھی جائزہ لیا اور ان میں ترامیم کی تجویز دی۔

سی آئی آئی کے اراکین اور دیگر مذہبی سکالرز اور رہنماؤں کے علاوہ خواجہ سراؤں کے نمائندوں، ڈاکٹروں، قانونی اور سماجی ماہرین، سول سوسائٹی کی تنظیموں، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی اور انسانی حقوق کی وزارت نے بھی اجلاس میں شرکت کی تاکہ مخنثوں اور خواجہ سرا کمیونٹی سے متعلق مسائل تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا سکے۔

اسلامو فوبیا کی قرارداد

دوسری جانب اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے سلسلے میں ایک قرارداد بھی منظور کی اور اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 15 مارچ کو یہ دن منانے کا ایک قابل ستائش اقدام کے طور پر خیر مقدم کیا۔

قبلہ ایاز نے کہا کہ کونسل کو امید ہے کہ اس تناظر میں مسلسل، مربوط اور جامع اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ مغرب اور بعض دیگر ممالک میں بعض عناصر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوف اور نفرت کی فضا پیدا کرنے کے مذموم عزائم میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

جمہوریت مخالف سازشی قوتیں اب تک سرگرم ہیں، مریم نواز

پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 5 روپے کا اضافہ

زمان پارک کے باہر افراتفری، پی ٹی آئی کارکنوں کا پولیس سے تصادم، عالمی میڈیا نے کیا لکھا؟