پاکستان

پی ٹی آئی نے جو کچھ کیا وہ کوئی مذہبی جماعت کرتی تو اس کو دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہوتا، فضل الرحمٰن

عمران خان نے گھر میں چھپ کر اپنے کارکنوں کو ڈھال بناتے ہوئے ریاست کو کمزور کیا، وہ پاکستانی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہیں، سربراہ پی ڈی ایم

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ جو کام پاکستان تحریک انصاف کر رہی ہے اگر کسی مذہبی جماعت نے یہ سب کیا ہوتا تو اسے دہشت گرد اور باغی قرار دیا جاچکا ہوتا اور فوج بھی اس کے خلاف حرکت میں آچکی ہوتی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جو کچھ اس وقت تک ہو رہا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری عدالتوں کو ریاست کو طاقتور بنانا چاہیے، جو کچھ نظر آ رہا ہے اس میں عدالتوں کے رویے سے بھی ریاست کمزور ہو رہی ہے اور باغی قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے تو صورتحال بہت حساس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح کی حرکتوں کے عشر عشیر بھی کوئی مذہبی جماعت کرتی تو آج اسے دہشت گرد بھی قرار دیا جاچکا ہوتا، آج اسے باغی قرار دیا جاچکا ہوتا، اس کے خلاف فوج بھی حرکت میں آچکی ہوتی لیکن کیا وجہ ہے اور وہ کونسی قوتیں ہیں جو عمران خان جیسے فتنے کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں اور انہیں سپورٹ کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسری اہم بات یہ کہ ایک بے رحم لیڈرشپ نے اپنے کارکنوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، عمران خان قانون سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک طرف کہتے ہیں ریاست مدینہ میں قانون کے سامنے سب برابر تھے اور آج جب کوئی قانون ان کے خلاف حرکت میں آتا ہے تو انہیں استثنیٰ ہونا چاہیے، ان کی گرفتاری نہیں ہونی چاہیے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ کیا عمران خان کے دور میں گرفتاریاں نہیں ہوئیں لیکن وہ کسی پر بھی کوئی الزام ثابت نہ کر سکے، آپ اپنے آپ کو قانون کے حوالے کریں، آپ عدالت میں اپنا مقابلہ کریں اور کیس لڑیں، گھر میں چھپ کر آپ نے اپنے کارکنوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر کے ایک طرف ریاست کو کمزور کیا، دوسری طرف دنیا کو یہ بتا دیا کہ میرا کارکن صرف مجھے جیل سے بچانے، قانون کی عملداری روکنے کے لیے ہے اور اس کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ عمران خان پاکستان کو کمزور اور اس کے خاتمے کا ایجنڈا رکھتا ہے اور ان کا ایک ایک عمل ان خدشات کی تائید کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان بزدل ہیں لہٰذا انہیں سیاست نہیں کرنی چاہیے اور میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے اور قدم قدم پر وہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کر سکے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ نے مزید کہا کہ یہ بتایا جائے کہ جس انداز سے وہاں کی ریاستی قوت کے ساتھ لوگ لڑ رہے ہیں، یہ کہاں سے آئے ہیں، ان کی تربیت کس نے کی ہے، یہ عام آدمی کی روش نہیں ہو سکتی جب تک کوئی تربیت یافتہ قوت وہاں موجود نہ ہو، لہٰذا ایسے لوگوں کو فوری طور پر گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم نے دیکھا کہ سی آئی اے کا نمائندہ زلمے خلیل زاد عمران خان کے حق میں ٹوئٹ کر رہا ہے اور ان کی گرفتاری پر احتجاج کر رہا ہے جس سے ہمارے اس مؤقف کی تائید ہو رہی ہے کہ یہ غیر ملکی ایجنڈے کا نمائندہ ہے، ان کا ایجنٹ ہے اور انہی کی شے پر یہ سرا کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ریاست کو اپنی عملداری کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لانی چاہئیں، ہم پاکستان کو کمزور نہیں ہونے دیں گے، تحریک انصاف کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ چند کھلنڈروں کا ایک جم گٹھا ہے اور ریاست کو کمزور شروع کرنے کے لیے انہوں نے جو سیاست شروع کی ہے ان کے اس ایجنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج عمران خان بات کر رہے ہیں کہ الیکشن کرائے جائیں، ہم تو گزشتہ تین چار سال سے آپ سے کہتے رہے کہ مستعفی ہو جائیں اور الیکشن کرائیں تو آپ الیکشن سے کیوں بھاگتے رہے؟ کیوں فرار اختیار کرتے رہے اور پھر اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آئی جس کے بعد تم نے جھوٹے کاغذ لہرائے، جھوٹا بیانیہ تیار کیا اور اب آپ الیکشن کے انعقاد پر زور لگا رہے ہیں لیکن ہمیں چند چیزوں پر تشویش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فاٹا میں صورتحال مختلف ہے، وہاں امن و امان نہیں ہے، پورے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال نہیں ہے اور وہاں اضلاع کے انضمام کے بعد مردم شماری کا مسئلہ ہے، نئی ووٹر لسٹ کا مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ملک میں مردم شماری ہو رہی ہے تو عجیب صورتحال ہو گی کہ دو صوبوں میں الیکشن ایک مردم شماری پر ہو گا اور پھر دو تین مہینوں کے بعد دوسرا الیکشن دوسری مردم شماری کی بنیاد پر ہو گا، ہم پاکستانیوں کے شہریوں کو کس طرح ووٹ کے حق سے محروم کریں۔

صدر پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ ملک کو اقتصادی حوالے سے بھی دیکھنا ہے کہ کیا اس کے پاس محفوظ الیکشن کرانے کے لیے وسائل موجود ہیں؟ فنڈ موجود ہیں یا نہیں ہیں، یہ سب وہ مسائل ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ریاست اول ہے یا عمران خان کی خواہش اول ہے، عمران خان نے اسمبلیاں خود توڑی ہیں اور لیڈرشپ کو حکم دے کر تڑوائی ہیں، یہ وزرائے اعلیٰ نے نہیں توڑی ہیں اور پھر دیکھا جائے کہ کیا ان کا یہ فیصلہ عقلمندانہ تھا، کیا ان کا یہ فیصلہ پاکستان کے معروضی حالات سے مطابقت رکھتا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ عمران خان کی غلطیوں کی سزا پاکستان کو نہیں دی جا سکتی، ہمیں حالات کو دیکھنا ہے، حالات کے مطابق چلنا ہے اور ایک محفوظ پاکستان اور محفوظ مستقبل کی بنیاد ڈالتے ہوئے اس قسم کے فتنوں سے پاکستان کو محفوظ رکھنا ہے۔