پاکستان

نیب ترامیم کیس: آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے، یہ قانون ختم نہیں ہوا، حکومتی وکیل

سپریم کورٹ میں مقدمے کی 43ویں سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2023 عدالت میں جمع کرا دیا۔

سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حکومت نیب قانون سے کرپشن مزید مشکل بنا رہی ہے، آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے اور یہ قانون ختم نہیں ہوا۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی زیر سربراہی تین رکنی خصوصی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

مقدمے کی 43ویں سماعت ہوئی جہاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2023 عدالت میں جمع کرا دیا۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ نیب کے حالیہ قانون میں نئی ترامیم آرڈیننس کی صورت میں تجویز کر دی گئی ہیں اور نیب ترامیم آرڈیننس کابینہ کی منظوری کے بعد صدر مملکت کے پاس ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم نئی ہیں یا ان کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ زیر التوا نیب قانون میں ہی مزید ترامیم کی گئی ہیں۔

وکیل نے کہا کہ مجوزہ ترامیم سے چئیرمین نیب کے اختیارات میں ردوبدل کیا ہے، آرڈیننس کی منظوری کے بعد چیئرمین نیب کو ریفرنس ختم کرنے کے لیے عدالت کی اجازت لینا ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب قانون کے سیکشن 5 سمیت متعدد شقوں میں ترمیم کی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس نے حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت کا کرپشن ملزمان کو نیب کے دائرہ اختیار سے خارج نہ کرنے پر ترامیم کرنا خوش آئند ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے تجویز دی کہ عدالت چاہے تو صدر مملکت کی نیب ترامیم کی منظوری تک کیس ملتوی کر دے۔

تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مجوزہ ترامیم کی منظوری کا انتظار کرنا عدالت کے لیے درست اقدام نہیں ہو گا کیونکہ مقدمہ کافی عرصے سے سن رہے ہیں اور مزید انتظار نہیں کر سکتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس کے دوران ذاتی طور پر پڑھا کہ کرپشن دنیا کے دوسرے ممالک میں مسئلہ ہے یا نہیں، معاشرے میں کرپشن سے عام انسان کی نظام عدل تک رسائی میں ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کو قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار بذات خود بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، عدالتی مداخلت اور کرپشن پر بحث پاکستان تک محدود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک جریدے کے مطابق امریکا میں دو سیاسی جماعتیں عدالتوں پر اپنے کنٹرول کے لیے لڑ رہی ہیں، عمران خان نے نیب قانون میں 2019 میں پہلی ترمیم سیاسی انتقام کے لیے کی، عمران خان کی حکومت نے کرپشن کے ملزمان کو جیل میں کلاس سی دینے کی ترمیم کی، ترمیم سے اسی عرصے کے دوران مشہور سیاسی شخصیت کو گرفتار کر کے جیل کی کلاس سی میں رکھا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب قانون میں جرم کی نوعیت کو کہاں تبدیل کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ نیب قانون میں 2019 میں کی گئی ترمیم 2021 میں آرڈیننس کے ذریعے واپس لی گئی، اپوزیشن کی ذمہ داری پارلیمنٹ کو عبور کر کے ہر سیاسی تنازع کو عدالت میں حل کرنا نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نیب ترامیم کا اطلاق ماضی سے ہونے کے نکتے پر کوئی قانونی نظیر موجود ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب کا حالیہ قانون 2019 سے کی گئی ترامیم کا ہی ارتقا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ نئی نیب ترامیم میں کیا تبدیلی کی گئی ہے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ حکومت نیب قانون سے کرپشن کو مزید مشکل بنا رہی ہے، عدالت نے حنیف عباسی بنام عمران خان کیس میں ایمنسٹی اسکیم سے پبلک آفس ہولڈرز کو ملے فائدے کا ذکر کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حنیف عباسی کیس پبلک فنڈز کے متعلق نہیں بلکہ کاغذات نامزدگی کی تصدیق کا تھا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے عمران دور میں واپس لی گئی ترمیم ہی دوبارہ بحال کیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پلی پارگین اور رضاکارانہ واپسی کے قانون میں ترمیم بھی خوش آئند ہے لیکن کیا نیب ترامیم کے بعد اب آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے یا نہیں؟۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے اور یہ قانون ختم نہیں ہوا۔

مقدمے کی مزید سماعت 15 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔