’چُپ رہا نہیں جاتا‘: لسانی، ثقافتی اور علاقائی شناخت کی حامل تحریریں
طنز و مزاح کسی بھی طرح میرا میدان نہیں۔ لیکن ایک عمر صحافیوں کے درمیان گزارنے کے باعث مجھ میں بھی ہر کام کو سوچے سمجھے بغیر کر گزرنے کے لیے آمادگی ظاہر کرنے کا اعتماد پیدا ہوگیا ہے، لیکن اس وقت آپ کے سامنے ہونے کی وجہ محض اتنی نہیں، اس میں خیالِ خاطر احباب بھی شامل ہے۔
صحافت سے وابستہ لوگوں اور خاص طور سے رپورٹروں میں ہر آتش میں بے خطر کود پڑنے کی خو ہوتی ہے۔ اگرچہ اس میں یہ خرابی تو ضرور ہے کہ آپ کو وہی کام کرنا چاہیے جس کی آپ نے کچھ تعلیم و تربیت حاصل کی ہو یا جس کی طرف آپ کا میلان اور دلچسپی ہو لیکن ایک بڑا فائدہ بھی ہے کہ ہر لمحے اور ہر بار نئے سے نئے تجربے سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور سیکھنے سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی موقع مجھے برادرم عثمان جامعی کے بلاگز کا انتخاب پڑھتے ہوئے میسر آیا۔ لیکن اس سے پہلے ہوا یہ کہ مجھے لاہور جانا پڑا اور جب میں لوٹا تو ہوش آنے کے بعد ’چپ رہا نہیں جاتا‘ کو سامنے پایا۔ لیکن میں اس انتخاب کو اس طرح نہیں پڑھ پایا جیسے میرے خیال میں تقاضا تھا اور جیسے میں پڑھتا ہوں۔
ضرورت تو اس بات کی بھی ہے کہ ان بلاگز کی فارم پر بھی بات کی جائے۔ لیکن اس پر کسی اور وقت بات کروں گا۔ یہ بلاگز مضمون بھی ہیں اور کالم بھی لیکن اخباری ہونے کے باوجود غیراخباری ہیں اور ان کی سطح عمومی اخباری تحریروں سے بلند ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عثمان جامعی کو زبان پر مکمل دسترس ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مصنف اب ایک سینیئر صحافی ہی نہیں ادیب بھی ہیں تو انہیں زبان پر دسترس تو ہونی ہی چاہیے۔ لیکن اب یہ بات اس لیے خصوصیات اور امتیاز کا حامل بن گئی ہے کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر ایسے ایسے افراد آچکے ہیں کہ افسوس ہوتا ہے۔
یہاں یہ وضاحت کردوں کہ میں ذرائع ابلاغ میں ابلاغ کی زبان کا مخالف نہیں، نہ ہی میں اس روایت پر اصرار کرتا ہوں جو معیار کے نام پر زبان اور وقت کو پیچھے کی طرف کھینچتی ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ زبان بولتے ہوئے لہجے کی مقامیت نہیں آنی چاہیے، ضرور آنی چاہیے۔ تلفظ اور معنی کے رشتے کو ضرور ملحوظ رکھا جانا چاہیے اور ہمیں لہجوں کی مقامیت مزاح میں استعمال کرتے ہوئے لسانی و ثقافتی بالادستی کا تاثر نہیں دینا چاہیے۔
عثمان جامعی کا ہر بلاگ فکرانگیز ہے اور مکمل تفصیل کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان بلاگز میں ضرورت سے زیادہ سنجیدگی ہے لیکن درکار سنجیدگی اور درد مندی ہے جو بین السطور اپنی طرف کھینچتی ہے۔ پھر مصنف کیوں کہ فکشن رائٹر ہیں تو کہانی کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں اور ان کا شاعر ہونا بھی چھپائے نہیں چھپتا۔
مجھے یقین سا گمان ہے کہ عثمان جامعی کے یہ بلاگز اگر چند سو شائع ہونے والے جریدوں کے لیے لکھے جاتے تو ان کے انہی موضوعات کا اظہار کچھ اور ہوتا اور یہ یقینی طور پر ان امکانات کا اظہار کرتے جو عثمان جامعی کے اردو کا بڑا اور اہم مزاح نگار بننے کے لیے واضح امکان کا اشارہ دیتے۔
ابلاغ عامہ کے وہ ذرائع جن کی نشر و اشاعت روزانہ یا ہفتہ وار ہوتی ہے بالعموم سیاست سے گریز نہیں کرسکتے لیکن خرابی یہ ہے کہ نشر و اشاعت کی یہ مدت ذہنوں میں محفوظ رہنے اور اثرانگیز ہونے کی مدت سے بھی مشروط ہوتی ہے۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں سیاست کی رفتار تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ شاید اس لیے کہ اب معلومات کی ترسیل کے ذرائع میں انٹرنیٹ بھی ہے اور بات مین اسٹریم میڈیا میں آئے نہ آئے لوگوں میں مشرق و مغرب پھیل جاتی ہے اور جس نوع کے بلاگ عثمان جامعی نے لکھے ہیں وہ توجہ، غور اور فکرمندی کا تقاضا کرتے اور روزمرہ سے آگے جاتے ہیں۔
میں عثمان جامعی کے ادبی امکانات کی بات اس لیے نہیں کر رہا کہ ان کے بلاگز کی صحافتی سطح کمزور ہے بلکہ اس لیے کر رہا ہوں کہ ان کی نثر وہ عناصر زیادہ رکھتی ہے جو ادبی اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں۔ بالعموم ادیب ان عناصر کی تگ و دو کرتے ہیں لیکن عثمان جامعی کے ہاں یہ فطری محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ بالعموم مرکب جملہ لکھتے ہیں جبکہ صحافت چھوٹے اور غیر مرکب جملوں کا تقاضا کرتی ہے۔ مثلاً:
’اس وقت ہم ٹسوے بہا اور ایک گانے کے یہ بول گا رہے ہیں، جگ نے چھینا مجھ سے مجھے جو بھی لگا پیارا۔‘ اب یہ جملہ لکھتے ہوئے انہوں نے ’رہے ہیں‘ کو دو بار لکھنے سے گریز کیا ہے۔ یعنی یہ نہیں لکھا کہ اس وقت ہم ٹسوے بہا رہے ہیں اور ایک گانے کے یہ بول گا رہے ہیں۔ یہ انداز مسلسل ہے۔
عثمان جامعی کے اسلوب اور اس انتخاب میں شامل بلاگز کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ اپنی لسانی، ثقافتی اور علاقائی شناخت رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں کسی بھی مصنف اور تحریروں میں اس شناخت کا ہونا بہت اہم ہے۔ نیویارکرز اور لندنرز کی طرح عثمان جامعی کراچی آئٹ ہیں۔ جگہ جگہ ان کی زبان خاص لہجے اور لغت سے بات کے ثقافتی جلوے دکھاتی ہے۔ اسی حوالے سے وہ کراچی کے نوحہ گر بھی ہیں۔ میں اس بات پر مصنف کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بات ہم سب پر واجب ہے، اُن ہم سب پر جو میری طرح کراچی کے ہیں اور اب اور کہیں کے نہیں ہوسکتے۔ جو اس شہر میں کسی بھی وقت کہیں بھی جانے میں خوف محسوس نہیں کرتے اگرچہ اس تعلق کو توڑنے کے لیے سیاست و حکومت نے ہر حربہ استعمال کیا ہے لیکن عثمان جامعی کے بلاگ بتاتے ہیں کہ یہ شہر کاسموپولیٹن ہے اور رہے گا۔
لیکن یہ بات عثمان جامعی کے بلاگز کا جزوی وصف ہے۔ مرکزی وصف انسانی اور سماجی ہے، طبقاتی ہے، اخلاقی ہے اور دردمندانہ ہے اور یہ تخلیق اس لیے ہے کہ یہ تمام باتیں بیش تر زیریں لہروں کے طور پر سامنے آتی ہیں۔
(عثمان جامعی کے فکاہیہ بلاگز کے مجموعے ’چُپ رہا نہیں جاتا‘ کی تقریب رونمائی میں بحیثیت صدر تقریب پڑھا گیا مضمون)
معروف فکشن نویس اور صحافی، طویل عرصے تک بی بی سی اردو سے وابستہ رہے، اپنے ناول ’ذلتوں کے اسیر‘ کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔