نقطہ نظر

ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی اور خطے پر اثرات

ایران، سعودی عرب کے مابین تعلقات طویل عرصے سے مدوجزر کا شکار رہے۔ جہاں تعلقات بہتر ہوتے وہیں کوئی چھوٹا سا واقعہ امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیتا۔

گزشتہ جمعے عالمی سیاسی منظر نامے پر ایک تہلکہ خیز پیش رفت ہوئی جب چین کی ثالثی کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا۔

کئی ماہ پر محیط خفیہ سفارتکاری کے بعد 6 مارچ کو ایرانی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان بیجنگ میں حتمی مذاکرات شروع ہوئے۔ 4 روز تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کے بعد 10 مارچ کو دونوں ممالک نے معاہدے کا اعلان کیا جس کے مطابق اگلے 2 ماہ میں دونوں ممالک اپنے مکمل سفارتی عملے کے ساتھ سفارتخانے کھول لیں گے۔

مشرق وسطیٰ کے ان 2 حریف ممالک کے درمیان ہونے والی اس ڈیل کا جہاں عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا ہے وہیں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے یہ سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ کیا اس معاہدے کے نتیجے میں چین اپنا اثرورسوخ اس علاقے میں بڑھانے میں کامیاب ہو گیا ہے؟ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کتنے محفوظ ہوں گے؟ کیا امریکا کا خطے میں کردار محدود ہو جائے گا؟ اسرائیل سعودی عرب تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا؟ ان تمام سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ساتھ ہی سامنے آئیں گے۔

ایران سعودی عرب تعلقات کی تاریخ

ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات 1929ء میں قائم ہوئے لیکن 1944ء میں یہ تعلقات ایک ایرانی باشندے کو سعودی عرب میں سزائے موت دینے کے معاملے پر منقطع ہوگئے تھے۔ 1946ء میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوششیں شروع ہوئیں مگر 1960ء تک مختلف وجوہات کی بنا پر یہ معاملہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔

بعد ازاں ان دونوں ممالک کے تعلقات میں وقت کے ساتھ ساتھ اتار چڑھاؤ آتے رہے جن میں 1979ء کا انقلابِ ایران، 1987ء میں حج کے دوران بھگدڑ مچنا اور اس میں ایرانی عازمین کی ہلاکت، 2011ء کی عرب بہار کے بعد بحرین میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اور سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی علاقے میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے بھی وجہ بنے۔

ان دونوں ممالک کے تعلقات میں حالیہ تعطل 2016ء میں آیا جب سعودی عرب نے شیعہ عالم دین شیخ نمر کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ تہران میں واقع سعودی سفارتخانے پر مظاہرین نے دھاوا بول دیا اور عمارت کے ایک حصے کو آگ لگادی جبکہ مشہد میں واقع سعودی قونصلیٹ پر بھی حملہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

اس کشیدگی کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان حج کے موقعے پر عازمین حج کی آمد و رفت اور ان کی حفاظت کے حوالے سے جاری مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوئے اور 2016ء میں کوئی ایرانی شہری حج کرنے نہیں پہنچا۔ اعلیٰ سطح پر تند و تیز بیانات نے صورتحال کو مزید کشیدہ بنا دیا۔

مگر 2017ء میں سعودی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان عازمین حج کے حوالے سے معاملات طے پاگئے ہیں۔ اسی برس سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکی دورے پر گئے جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پریس کو بتایا گیا کہ امریکا اور سعودی عرب خطے میں ایران کے توسیع پسندانہ عزائم سے واقف ہیں اور دونوں ممالک اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ 2017ء میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران سعودی عرب سمیت تمام پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے 2016ء میں سعودی سفارتخانے پر حملے کی بھی مذمت کی۔

دوسری جانب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات سے انکار کیا اور کہا کہ اس سے پہلے کہ یہ جنگ سعودی سرزمین تک پہنچے، ہم اس جنگ کو ایرانی سرزمین پر ہی لڑنے کا بندوبست کریں گے۔ اسی روز ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، روس، انڈونیشیا اور قازقستان کے حکام کی طرف سے سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ سعودی ولی عہد کے بیان پر ایرانی وزیر دفاع نے کہا کہ سعودی عرب، ایران پر حملہ آور ہونے کی غلطی بھی نہ کرے ورنہ مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر سعودی عرب کے تمام شہروں کو ملیامیٹ کردیا جائے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ سعودی عرب میں 110 ارب ڈالر کا ہتھیاروں کا معاہدہ کیا اور ایران کے خلاف سعودی عرب کی بھرپور حمایت کااعلان کیا۔ جواباً ایران کی جانب سے سعودی پالیسی کی مذمت کی گئی۔ ایران میں پارلیمان اور امام خمینی کے مزار پر دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں 12 افراد مارے گئے، اس حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی مگر ایران نےسعودی عرب کو اس حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جبکہ سعودی عرب نے ایرانی الزام کو مسترد کردیا۔

ایران سعودی عرب تعلقات کی طویل تاریخ کو دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے مابین تعلقات مدوجزر کا شکار رہے جہاں تعلقات بہتر ہوتے وہیں کوئی ایک چھوٹا سا واقعہ امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیتا۔

ایران سعودی عرب معاہدہ اور یمن تنازعہ

2014ء میں حوثی باغیوں نے یمن کے دارالحکومت پر قبضہ کرلیا جس پر سعودی عرب نے الزام عائد کیا کہ حوثی باغیوں کو ایران کی طرف سے بھرپور امداد فراہم کی جارہی ہے۔ 9 برسوں سے جاری اس تنازع میں اب تک لاکھوں افراد، جنگی حملوں، بھوک اور بیماریوں کے باعث اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ سعودی عرب نے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن کے خلاف فوجی محاذ کھولا اور معاشی طور پر یمن کو تنہا کردیا۔ تمام تر حربے آزمانے کے باوجود سعودی عرب یمن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

یمن عملی طور پر ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ کا میدان بن گیا اور اس کا نتیجہ ایک عظیم انسانی المیے کی صورت میں سامنے آیا جہاں لاکھوں افراد بھوک، افلاس اور بیماریوں کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔

ایران اور سعودی عرب معاہدے کے نتیجے میں یقینی طور پر یمن کے مسئلے کا بھی پُرامن حل نکلنے کی امید ہے۔ حوثی باغیوں کی طرف سے بھی اس معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے جبکہ یمن کی حکومت کی طرف سے ایک محتاط بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یمن کی حکومت الفاظ سے زیادہ عملی اقدامات ہوتے دیکھنا چاہے گی اور اس کے بعد ہی اس معاہدے کے حوالے سے کوئی رائے دی جاسکے گی۔

امید کی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران، یمن میں موجود اپنے اتحادیوں کو پُر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے تنازعے کا کوئی ٹھوس حل نکال سکیں گے جس کے نتیجے میں یمن میں معمولات زندگی بحال ہوں گے اور خطے میں امن و امان قائم ہوگا۔

اسرائیلی ردعمل

ایران سعودی عرب ڈیل سے سب سے زیادہ حیران، پریشان اور ناخوش اسرائیل ہے جہاں وزیراعظم نیتن یاہو پہلے ہی داخلی سیاسی انتشار سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں امریکی مدد سے اسرائیل نے عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسرائیل خطے میں اپنی تنہائی سے نجات حاصل کرنے اور ایران کے معاملے پر تمام عرب ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے مذاکرات، سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینا معاملات کے مثبت راہ پر گامزن ہونے کا اشارہ دے رہے تھے۔

امریکا اس معاملے میں اہم کردار ادا کررہا تھا، مگر سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے جواب میں سخت شرائط رکھ دی گئیں جن میں پرامن مقاصد کے لیے جوہری پروگرام شروع کرنے میں امریکی تعاون اور آسان شرائط پر جنگی اسلحے کی فراہمی کا مطالبہ شامل ہے۔ واضح رہے کہ یہ اخباری رپورٹس ہیں جن کی فریقین کی طرف سے تردید نہیں کی گئی، مگر یہ اخباری رپورٹس ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں کہ جب چین دونوں ممالک کے درمیان ایک ڈیل کروانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

حالیہ دنوں میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان سرد مہری کا شکار تعلقات، اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ سعودی عرب اب امریکا پر کم سے کم انحصار کی پالیسی اختیار کررہا ہے اور موجودہ صورتحال میں اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے یا مستقبل قریب میں سفارتی تعلقات قائم ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ مختلف معاہدوں کو فی الوقت منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، گو کہ اس کی وجہ اسرائیل فلسطین کشیدگی بتائی جارہی ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ عرب امارات نے یہ فیصلہ سعودی عرب اور ایران کی ڈیل کے بعد خطے کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر کیا ہے۔

ادھر اسرائیل میں داخلی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کو اس معاہدے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس سے قبل نیتن یاہو عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے اور خطے میں ایران کو تنہا کردینے کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں لیکن حالیہ معاہدے کے بعد انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا جارہا ہے کہ داخلی سیاست میں اپنے مخالفین کو کچلنے اور قوانین میں من مانی تبدیلیوں میں مصروف نیتن یاہو نے خارجہ معاملات کو نظر انداز کیا جس کے نتیجے میں آج اسرائیل خطے میں تنہا نظر آرہا ہے۔

خطے میں امریکی اثر و رسوخ کا مستقبل

امریکا نے اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے ہونے والے تمام اقدامات اور معاہدوں کی امریکا تائید و حمایت کرتا ہے۔ امریکا دیکھنا چاہتا ہے کہ اگلے 2 ماہ میں جب تک دونوں ممالک اپنے اپنے ملکوں میں سفارت خانے کھولنے جارہے ہیں، اس معاہدے پر کس حد تک عمل ہوسکے گا۔ کیا یمن میں جنگ بندی ہوجائے گی؟ امریکا کے ایران پر شدید تحفظات ہیں، اس کا خیال ہے کہ ایران ماضی میں وعدوں کی پاسداری میں ناکام ہوا ہے۔ کیا اس بار ایران اپنے وعدوں پر پورا اترے گا؟

امریکا گزشتہ کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں ہونے والے تمام معاہدوں یا تنازعات کا اہم حصہ رہا ہے یا اس نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس معاہدے میں امریکا کہیں نہیں ہے۔ خطے میں امریکا کی موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہنا درست ہوگا کہ امریکی اثر و نفوذ کو ایک دھچکا ضرور لگا ہے۔ کیا خطے سے امریکی کردار بالکل ختم ہوجائے گا؟ فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ گو کہ عرب ممالک گزشتہ چند برسوں سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ خطے کی سیکیورٹی کے حوالے سے امریکی عزائم پہلے کے مقابلے میں کمزور ہوچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے امریکا پر انحصار کم کرنے کی پالیسی کو اپناتے ہوئے چین کو موقع دیا ہے۔

بلاشبہ چین نے وہ کام کر دکھایا ہے جو امریکا بھی نہیں کرسکا۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ چین کے ایران اور سعودی عرب دونوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ دونوں ممالک سے براہ راست گفتگو کرسکتا ہے جبکہ امریکا، ایران کے ساتھ بات چیت میں دیگر عالمی طاقتوں کی حمایت کے لیے مجبور ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ امریکا کے براہ راست تعلقات ہیں مگر بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ ساتھ ہی امریکا سعودی عرب کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتا ہے جبکہ چین کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے اور چین، سعودی تیل کا بڑا خریدار بھی ہے۔ گوکہ خطے میں فوجی اڈوں کی موجودگی میں امریکا کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس معاہدے سے خطے میں امریکا کا کردار کم ہوگا اور چینی اثرونفوذ میں اضافہ ہوگا۔ امریکا کو دیکھنا ہوگا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اس کی پالیسی کس حد تک قابل عمل رہ گئی ہے اور کیا اس پالیسی میں کوئی تبدیلی لانے کا وقت آچکا ہے؟

چین بارہا یہ کہہ چکا ہے کہ خطے میں سیاسی رول ادا کرنے کے بجائے اس کا مقصد خالصتاً معیشت ہے۔ چین ایران اور سعودی تیل کا بڑا خریدار ہے اور اس کے مقابلے میں امریکا ایران سے تیل کی تجارت نہیں کرتا جبکہ سعودی عرب سے بھی تیل کی تجارت کا حجم چین کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے امریکا کے سامنے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے پیش کی گئی شرائط شاید امریکا کے لیے فی الوقت قابلِ قبول نہ ہوں لیکن سعودی عرب کی طرف سے چین کی ثالثی میں ایران کے ساتھ ڈیل، امریکا کے لیے پیغام ہے کہ وہ اپنی ترجیحات طے کرنے میں آزاد ہیں۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

پاکستان نے چین کی ثالثی میں ایران سعودی عرب معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ ڈیل نہ صرف خطے بلکہ پاکستان کے لیے بھی انتہائی خوش آئند ہے۔ اس ڈیل میں شامل تینوں ممالک پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ سے اہم رہے ہیں۔ چین اور ایران پاکستان کے پڑوسی ہیں تو سعودی عرب ہر مشکل وقت کا ساتھی ہے۔

ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان مشکل ترین معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اور آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کر رہا ہے، خطے میں اس نئی پیش رفت کے دور رس اور مثبت اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔

80 کی دہائی میں پاکستانی سرزمین ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار کے لیے بھرپور استعمال ہوئی جس کے نتیجے میں پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت میں اضافہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان کے داخلی امن و امان میں بھی بہتری آنے کی امید ہے۔ مگر کیا پاکستان ایران سے تجارتی تعلقات خصوصاً پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل کرسکے گا؟ اس سوال کا جواب مستقبل قریب میں ملنے کا امکان نہیں ہے۔

امریکا مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں ایک طویل عرصے سے اپنا کردار ادا کرتا آرہا ہے، چین نے معاشی طور پر مضبوط ہوکر اب ایک عالمی طاقت کا روپ اختیار کرلیا ہے جو تنازعات کو ایک جانب رکھ کر خالصتاً معاشی بنیادوں پر خطے کے ممالک کو جوڑ رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنا اثر رسوخ برقرار رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔ کیا امریکا بھارت پر تکیہ کر سکتا ہے؟ کیا بھارت خطے کی بڑی طاقتوں چین اور روس کے مقابلے میں امریکا کی حمایت کرے گا؟ کیا امریکا کے پاس بھارت کو دینے کے لیے ایسی ڈیل ہوگی کہ وہ خطے کی بڑی طاقتوں کی مخالفت مول لےکر امریکا کی حمایت کرے؟

بظاہر چین کی ثالثی میں ہونے والا ایران اور سعودی عرب معاہدہ خطے میں دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ خطے میں امن و امان قائم ہوگا اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا جس کے مثبت اثرات خطے کی معیشت پر بھی پڑیں گے۔


ہیڈر: رائٹرز

عمار یاسر زیدی

لکھاری صحافی ہیں اور پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل @sayzaidi ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔