پاکستان

نور مقدم قتل کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ سے ظاہر جعفر کی سزائے موت کا حکم برقرار

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کی ریپ کے جرم میں 25 سال قید کی سزا بھی سزائے موت میں تبدیل کردی۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کر دیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ 21 دسمبر 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے آج فیصلہ سنایا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دیں، اسی طرح شریک مجرمان محمد افتخار اور جان محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں بھی خارج کر دی گئیں جنہیں ٹرائل کورٹ نے 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی ریپ کے جرم میں 25 سال قید کی سزا بھی سزائے موت میں تبدیل کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کو 2 مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے نور مقدم قتل کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیل پر سماعت کی تھی۔

سماعت کے دوران ملزم ظاہر جعفر کے وکیل عثمان کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا تھا کہ سزائے موت دینے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کے لیے بھی سبق ہو کہ کوئی ایسا قدم پھر نہ اٹھائے، ایسی سزا صرف عادی مجرموں کو دی جاتی ہے تاکہ روک تھام ہو۔

انہوں نے کہا تھا کہ عالمی سطح پر بھی پاکستان پر دباؤ ہے کہ سزائے موت ختم کی جائے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا تھا کہ پاکستان پر دباؤ ہے کہ موت کی سزا ختم کی جائے، یہ تو قانون سازی کا معاملہ ہے اور انہوں نے ہی دیکھنا ہے۔

خیال رہے کہ 24 فروری 2022 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی تھی۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں ظاہر جعفر کو قتل عمد کے سلسلے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی اور نور مقدم کے ورثا کو 5 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ ملزم کی سزائے موت کی توثیق اسلام آباد ہائی کورٹ کرے گی۔

اس کے علاوہ دفعہ 364 (قتل کی غرض سے اغوا) کے تحت ملزم کو 10 برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے، دفعہ 342 (حبسِ بیجا) کے تحت ایک سال قید، دفعہ 376 (زنا بالجبر) کے تحت 25 سال قید اور 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

مزید برآں قتل اور دیگر جرائم میں اعانت پر فیصلے میں شریک ملزمان جان محمد (باغبان) اور افتخار (چوکیدار) کو 10، 10 سال قید کی اور ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

نور مقدم قتل کیس

واضح رہے کہ 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل تھے۔

قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی اور ٹرائل 4 ماہ 8 روز جاری رہا جس کے دوران 19 ملزمان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

اس دوران ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی بیمار بھی ثابت کرنے کی کوشش کی، تاہم میڈیکل ٹیسٹ میں اسے مکمل فٹ قرار دیا گیا تھا۔

’توشہ خانہ فہرست نامکمل‘، پی ٹی آئی کا جرنیلوں اور ججز کی تفصیلات بھی جاری کرنے کا مطالبہ

پی ٹی آئی کی زمان پارک سے داتا دربار تک ریلی، عمران خان کا 19 مارچ کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان

خاتون جج دھمکی اور توشہ خانہ کیسز: عمران خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم