انفارمیشن کمیشن کا پنجاب اسمبلی کو ایم پی ایز کی تفصیلات قابل رسائی بنانے کا حکم
پنجاب انفارمیشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کو معلومات کے حق کے قانون سے استثنیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ کارکردگی اور اراکین اسمبلی کو مختص فنڈز کی تفصیلات تک عام شہریوں کی آسان رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ویب سائٹ کو بہتر بنایا جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انفارمیشن کمیشن نے یہ حکم اسمبلی کے پبلک انفارمیشن افسر کی جانب سے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) ایکٹ 2013 کے خلاف استثنیٰ کا دعویٰ کرنے والی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے جاری کیا۔
چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر شاہ اور 2 انفارمیشن کمشنرز شوکت علی اور ڈاکٹر عارف مشتاق چوہدری پر مشتمل کمیشن نے ریمارکس دیے کہ ہم کچھ عرصے سے بڑھتے ہوئے اس رجحان پر تشویش میں مبتلا ہیں کہ آئین کے تحت قائم عوامی اداروں نے اس بنیاد پر رائٹ ٹو انفارمیشن قانون سے استثنیٰ کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ آئینی ادارے ہیں اور ان کے قوانین بھی آئین کے تحت دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ساہیوال سے تعلق رکھنے والی صحافی سعدیہ مظہر نے رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کی دفعات کے تحت اپنے ضلع کے 7 ایم پی ایز کے بارے میں تفصیلات طلب کی تھیں۔
خاتون صحافی کی جانب سے طلب کی گئیں تفصیلات میں ایم پی ایز کی اسمبلی میں کارکردگی، مختص فنڈز، ری ایمبرسمنٹس اور دیگر الاؤنسز شامل تھے جو انہوں نے 2019 سے حاصل کیے تھے۔
ان کی درخواست پر پنجاب انفارمیشن کمیشن نے 23 جنوری کو صوبائی اسمبلی کو حکم دیا کہ وہ اپنی ویب سائٹ کو بہتر بنائے تاکہ ایم پی اے سے متعلق معلومات شہریوں کے لیے آسانی سے قابل رسائی ہو سکیں۔
تاہم پنجاب اسمبلی کے پبلک انفارمیشن افسر نے کمیشن کے سامنے آر ٹی آئی قانون سے استثنیٰ کا دعویٰ کرتے ہوئے درخواست دائر کی تھی، درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے 1997 کے قواعد آئین کے تحت حاصل اختیارات پر عمل کرتے ہوئے بنائے گئے تھے، اس لیے مذکورہ قوانین کو برتری اور بالادستی حاصل ہے اور ان کو قواعد کو معلومات کے حق کے قانون پر ترجیح دی جائے گی۔
درخواست میں دیے گئے پبلک انفارمیشن افسر کے استدلال کو مسترد کرتے ہوئے انفارمیشن کمیشن نے درخواست مسترد کردی۔
پنجاب انفارمیشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کو اپنی ویب سائٹ کو بہتر بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے حکم کو دہرایا تاکہ معلومات کو آسانی کے ساتھ قابل رسائی بنایا جاسکے اور شہری اپنے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کو جان کر شفافیت کے ثمرات سے مستفید ہوسکیں۔