صدر شی جن پنگ کے قریبی ساتھی لی کیانگ چین کے وزیراعظم منتخب
چینی صدر شی جن پنگ کے سب سے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے ایک لی کیانگ نے وزیراعظم کا منصب سنبھال لیا جس سے ملک کی اعلیٰ قیادت پر شی جن پنگ کا اثر و رسوخ مزید مضبوط ہوگیا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق لی کیانگ شنگھائی پارٹی کے سابق سربراہ ہیں جنہیں ملک کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم لی کی چیانگ کا جانشین نامزد کیا گیا۔
63 سالہ لی کیانگ نے نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) میں 2 ہزار 900 سے زیادہ مندوبین سے تقریباً تمام ووٹس حاصل کرلیے، جس سے ایک روز قبل ہی شی جن پنگ ڈپٹیز کے ذریعے متفقہ طور پر صدر کے طور پر تیسری مدت کے لیے منتخب ہوئے تھے۔
صدر شی جن پنگ کی جانب سے لی کیانگ کو بطور وزیراعظم نامزد کرنے کی قرار داد ہفتے کی صبح چیمبر میں پڑھ کر سنائی گئی۔
ایک طے شدہ عمل کے تحت ڈپٹیز (اراکین پارلیمنٹ) نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے اس دوران صحافیوں کو ہال سے نکال دیا گیا۔
ہال میں نصب ایک الیکٹرانک اسکرین پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق لی کانگ کے حق میں 2 ہزار 936 ووٹس ڈالے گئے جبکہ صرف تین مندوبین نے ان کے تقرر کے خلاف ووٹ دیا اور 8 غیر حاضر رہے۔
ووٹنگ کے بعد میں لی کیانگ نے بطور چینی وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور چین کے آئین سے وفادار رہنے اور ’ایک خوشحال، مضبوط، جمہوری، مہذب، ہم آہنگ اور عظیم جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے لیے سخت محنت کرنے‘ کا عہد کیا۔
شنگھائی لاک ڈاؤن کو سنبھالنے کے بعد اس کی ترقی پر شک کے بادل چھا گئے تھے، سخت ترین لاک ڈاؤں کے دوران رہائشی خوراک اور طبی دیکھ بھال تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔
لیکن شی جن پنگ کی چینی سیاست پر مضبوط گرفت نے ان کی زیرو کووڈ پالیسی پر گزشتہ موسم سرما میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے ساتھ ساتھ لی کے ریکارڈ کو بھی ایک طرف کر دیا ہے۔
تقریباً تمام سابق وزیراعظموں کے برعکس، لی کیانگ کو مرکزی حکومت کی سطح پر کام کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز اپنے آبائی شہر کے قریب آبپاشی پمپ اسٹیشن کے ورکر کے طور پر کیا، مقامی حکومتی عہدوں کے ذریعے مستقل طور پر ترقی کی اور 2012 میں صوبہ زیجیانگ کے اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی حاصل کی۔
وہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں شی جن پنگ کے چیف آف اسٹاف تھے جب چینی رہنما زی جیانگ کی پارٹی کے سربراہ تھے۔
سال 2017 میں لی کیانگ کو شنگھائی کا پارٹی سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا جو صدر کے ان پر اعلیٰ درجے کے اعتماد کی علامت ہے۔
اب بطور وزیر اعظم اور چین کی کابینہ، ریاستی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے، وہ ملک کے روزمرہ چلانے کے ساتھ ساتھ میکرو اکنامک پالیسی کے ذمہ دار ہوں گے۔
سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم لی کی چیانگ نے گزشتہ ہفتے 2023 کے لیے ’تقریباً 5 فیصد‘ کی شرح نمو کے ہدف کا اعلان کیا تھا جو کئی دہائیوں میں سب سے کم ہے، کیونکہ دنیا کی نمبر دو معیشت سخت مشکلات کا مقابلہ کر رہی ہے۔
گزشتہ سال چینی معیشت میں صرف تین فیصد اضافہ ہوا، جو کووڈ-19 کی وبا، لاک ڈاؤن اور رئیل اسٹیٹ کے بحران کی وجہ سے کئی دہائیوں میں اس کی کمزور ترین کارکردگی میں سے ایک ہے۔
چین کی ہاؤسنگ مارکیٹ، جس میں تعمیرات کے ساتھ جی ڈی پی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ ہے، بدستور مندی کا شکار ہے، جب سے بیجنگ نے 2020 میں ضرورت سے زیادہ قرضے لینے اور قیاس آرائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا اس وقت سے اسے زبردست دھچکا لگا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی مبارکباد
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے لی کیانگ کو چین کا نیا وزیراعظم منتخب ہونے پر دلی مبارکباد دیتے ہوئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے ۔
اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نےچین کے نومنتخب وزیراعظم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاک چین اسٹریٹجک تعاون اور شراکت داری کو بڑھانے کےلیے لی کیانگ کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں ۔
وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اعتماد ہے کہ اب ہمارے دوطرفہ تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوں گے ۔