پاکستان بار کونسل کی عدالت عظمیٰ کے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر
پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ایک شکایت دائر کی، جس میں حالیہ آڈیو لیکس اور بدعنوانی میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر عدالت عظمیٰ کے جج کے خلاف ضروری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایت آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت پی بی سی کے 21 فروری کے فیصلے کے مطابق دائر کی گئی۔
شکایت کے ذریعے ملک کے وکلا کی اعلیٰ ریگولیٹری باڈی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جواب دہندہ جج کو کارروائی کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے مکمل انکوائری کا مطالبہ کیا تاکہ کوئی حتمی نتیجہ سامنے آ سکے۔
10 صفحات پر مشتمل یہ شکایت پی بی سی کے وائس چیئرمین ہارون الرشید اور چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا نے مشترکہ طور پر دائر کی تھی۔
مدعا علیہ کے خلاف درج کی گئی یہ تیسری شکایت ہے، اس سے قبل لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد اور مسلم لیگ (ن) کے لائرز فورم نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایسی ہی شکایات جمع کرائی تھیں۔
خیال رہے کہ فروری میں سوشل میڈیا پر کئی آڈیو کلپس منظر عام پر آئے، ایک کلپ میں چوہدری پرویز الہٰی کو مبینہ طور پر اس جج سے بات کرتے ہوئے سنا گیا جس کے سامنے وہ کرپشن کا مقدمہ مقرر کرانا چاہتے تھے۔
ایک آواز جس کا تعلق سابق وزیراعلیٰ پنجاب سے ہے جج کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ ان سے ملنے آرہے ہیں۔
پاکستان بار کونسل کی شکایت کے مطابق مدعا علیہ جج نے اپنے طرز عمل سے سپریم جوڈیشل کونسل کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اور آئین کی نافرمانی کی اور ’اپنے آپ کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا‘۔
شکایت میں یاد دلایا گیا کہ ضابطہ اخلاق کا آرٹیکل 3 جج کے نقطہ نظر سے بالاتر ہونے اور اس مقصد کے لیے تمام سرکاری یا نجی معاملات میں اپنے طرز عمل کو بے جا حرکت سے پاک رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔
شکایت میں مزید کہا گیا کہ تاہم جواب دہندہ جج کا پیش کردہ طرز عمل ضابطہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔
پی بی سی نے دلیل دی کہ وائرل ہونے والی آڈیو میں چوہدری پرویز الٰہی واضح طور پر ایک وکیل کو ایک اہم کیس کو مدعا علیہ جج کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کر رہے تھے۔
شکایت کے مطابق اس معاملے نے بڑے پیمانے پر اعلیٰ عدلیہ کی آزادی، تقدس اور وقار کے خلاف عوامی تاثر پیدا کیا ہے اور اس معاملے کی انکوائری کی ضرورت ہے۔
شکایت میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ مدعا علیہ جج نے 2021 میں مکان نمبر 375، فیز 2، ڈی ایچ اے، گوجرانوالہ کینٹ نامی جائیداد کی 6 کروڑ روہے میں فروخت کے ذریعے اپنی آمدنی کا انتظام کرنے اور اسے قانونی شکل دینے کی کوشش کی تھی جبکہ یہ پراپرٹی 47 لاکھ روپے میں خریدی گئی تھی۔
پی بی سی کے مطابق جواب دہندہ نے مبینہ طور پر اپنی آمدنی کا جواز پیش کرنے کی کوشش میں اپنے 2021 کے ٹیکس گوشواروں میں متعدد بار نظر ثانی کرنے کی کوشش کی۔
اس نے الزام لگایا کہ اس دعوے کو ان حقائق سے تقویت ملی کہ گلبرگ 3، لاہور میں ایک پلاٹ کی قیمت 6 کروڑ روپے تھی، جسے بعد میں 7 کروڑ 20 لاکھ روپے تک بڑھا دیا گیا،یہ خریداری مدعا علیہ نے گوجرانوالہ کی جائیداد کی فروخت پر کی تھی۔
اسی طرح شکایت میں الزام لگایا گیا کہ مدعا علیہ کے اثاثے اس کے اثاثوں کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں کہ وہ ان کی معلوم/کمائی ہوئی آمدنی کے ذرائع سے غیر متناسب ہے، الائیڈ پلازہ (سول لائنز گوجرانوالہ) نامی جائیداد کو مدعا علیہ نے کبھی بھی اپنی ملکیت ہونے کے باوجود ظاہر نہیں کیا۔
’بیٹوں کے حق میں فیصلہ‘
پی بی سی نے مزید کہا کہ مدعا علیہ کے دو بیٹوں نے متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی)، لاہور میں اپنا لا آفس قائم کیا، جس کے کرایہ کے حوالے سے چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ کی جانب سے کی گئی قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ ابتدائی طور پر ان کے بیٹوں کے خلاف آیا تھا لیکن مدعا علیہ جج نے مبینہ طور پر بعد میں اپنے بیٹوں کے حق میں فیصلہ سنایا۔
قانونی برادری میں عام تاثر یہ ہے کہ مدعا علیہ جج اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کی پریکٹس کی سرپرستی کر رہے ہیں جو کہ ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
پی سی بی کے مطابق جواب دہندہ کے پاس موجود جائیدادیں بھی ان کی آمدنی کے جائز ذرائع سے غیر متناسب معلوم ہوتی ہیں۔
اس فہرست میں سینٹ جونز پارک لاہور کینٹ میں 3.5 کنال اراضی کا ایک رہائشی پلاٹ بھی شامل ہے جس کا نمبر 100 ہے جو ایک چوہدری شہباز سے خریدا گیا تھا۔
شکایت میں الزام لگایا گیا کہ پراپرٹی کی اصل قیمت 30 کروڑ روپے سے کم نہیں ہے لیکن جب اسے مدعا علیہ کے نام پر رجسٹر کیا گیا تو اس ٹرانزیکشن کو 10 کروڑ 5 کروڑ روپے ظاہر کیا گیا جس سے اس کی مارکیٹ ویلیو چھپائی گئی۔
شکایت میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان عدلیہ کی عزت کا تحفظ کرنے کے بجائے مدعا علیہ جج کو بلاجواز تحفظ دے رہے ہیں کیونکہ مؤخر الذکر پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔