کرپشن الزامات: ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ 3 روزہ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ اسلام آٓٓباد نے ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) کو کرپشن کے الزامات کے خلاف درج مقدمے 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر اے آئی اے کے حوالے کردیا۔
گزشتہ روز وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) کو ان کے اور اسلام آباد کے سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے خلاف درج مقدمے کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔
شعیب شیخ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا، شغیب شیخ نے کہا کہدہشتگردوں کی طرح منہ پر کپڑا ڈال کے ہتھکڑیاں لگا کر لایا گیا۔
سماعت کے آغاز پر جج نے تفتیشی افسر سے استفسارکیا کہ مقدمے سے قبل انکوائری کی ؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ جی انکوائری کی، جج کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسیکشن ہوئی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے شعیب شیخ کے خلاف انکوائری کا حکم دیا،جیل میں ہونے کے باوجود رشوت بھیجی گئی، ادارے کو بدنام کیاگیا۔
تفتیشی افسر نے استدعا کی کہ ابھی تفتیش کرنی ہے، ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر حوالے کیا جائے۔
شعیب شیخ نے عدالت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ برگیڈئیر طاہر صاحب نے رشوت دی، رشوت دینے والا برگیڈیئر ہے، رشوت لینے والا جج ہے، اس میں میرا کوئی تعلق نہیں، کیا برگیڈیئر کو گرفتار کیا گیا کیا، ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا، میرے ساتھ غیرانسانی سلوک ہوا، مجھ پر رشوت دینے کا الزام ہے، میرے خلاف انکوائری تھی، مجھے کچھ روز دیے جاتے انکوائری میں شامل ہونے کے لیے۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے رشوت لینے کا اقرار نہیں کیا، جج نے استفسار کیا کہ کیا دیگر 25 ملزمان کو بھی شاملِ تفتیش کیا گیا؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ دیگر 25 ملزمان کو شاملِ تفتیش نہیں کیاگیا۔
لطیف کھوسہ نے اسپیشل پراسیکیوٹر پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی پرائیویٹ وکیل سرکاری عہدہ رکھنے کا حق نہیں رکھتا۔
پراسیکیوٹر اشفاق نقوی نے کمرہ عدالت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 26 ملزمان کو مقدمے میں نامزد کیا گیا، ایڈیشنل سیشن جج کا بیان اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری اپیل کا حصہ تھا، دیگر شریکِ ملزمان کے ساتھ ٹرائل کورٹ نے شعیب شیخ کو مجرم قرار دیاتھا، ملزم شیعب شیخ نے جیل جائے بغیر اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کی۔
اس موقع پر وکیلِ ملزم لطیف کھوسہ کو پراسیکوٹر کے دلائل دینے کے دوران بار بار بولنے پر عدالت نے روک دیا، پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہائی کورٹ کے 2 ججز کے سامنے سیشن جج نے رشوت لینے کا اعتراف کیا۔
پراسیکوٹر نے ملزم شعیب شیخ کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ24 گھنٹے گرفتاری کو ہوئے نہیں، کیس سے ڈسچارج نہیں کیا جاسکتا،رشوت لینے والا ظاہر ہے تو کسی نے تو رشوت دی بھی ہو گئی اور اس معاملہ کے بینیفشر سی ای او ایگزیکٹ شعیب شیخ ہیں۔
پراسیکوٹر نے استدعا کی کہ اس اسٹیج پر کیس ڈسچارج کرنا نہیں بنتا، جسمانی ریمانڈ پر دیا جائے، ایف آئی اے تفتیشی افسر نے شعیب شیعب کا 10 روزی جسمانی ریمانڈ حوالے کرنے کی استدعا کر دی۔
وکیلِ ملزم لطیف کھوسہ نے پراسیکوٹر کے دلائل پر جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ شیعب شیخ پر مزاحیہ الزامات لگائے گئے ہیں، انکوائری 2018 میں ہوئی، پانچ سال بعد کیس کا خیال ایاہے؟ زبانی کلامی بیان اعتراف بیان نہیں مانا جاسکتا۔
ملزم کے وکیلِ شیرافضل مروت نے کہا کہ تفتیشی افسر سے پوچھا جائےٹرانسیکشن ہےکہاں؟دونوں ججوں میں سے کسی کا بیان نہیں لیاگیانہ انہوں نےدیاہے، پراسیکیوشن نے تو بتایاہی نہیں کہ جسمانی ریمانڈ انہیں چاہیے کیوں؟
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جسے بعد میں جاری کرتے ہوئےجوڈیشل مجسٹریٹ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد عمر شبیر نے کو تین دن کا جسمانی ریمانڈ کا حکم دے دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی رشوت کی لین دین کا عام مقدمہ نہیں ہے، اس کیس کی کارروائی اسلام آباد ہائیکورٹ کی شکایت پر شروع ہوئی، الزامات کو بغیر تحقیقات کے خارج نہیں کیا جاسکتا، تحقیقات کیلئے تفتیشی افسر کو مناسب وقت فراہم کرنا ضروری ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم شعیب شیخ کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے، ملزم شعیب شیخ کو 3 روز کیلئے ایف آئی اے کے حوالے کیا جاتا ہے، تفتیشی افسر شعیب شیخ کا میڈیکل کروائیں، شعیب شیخ کو 13 مارچ کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔
شعیب شیخ کے خلاف مقدمہ بدھ کے روز ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 161، 165-اے اور 109 کے ساتھ انسداد بدعنوانی ایکٹ 1947 کی دفعہ 5(2) کے تحت درج کیا گیا تھا۔
فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی اے) کے مطابق اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے 17 فروری 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس کے جواب میں انکوائری کی۔
مذکورہ انکوائری کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز القادر میمن نے ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب احمد شیخ کو بری کرنے کے لیے 50 لاکھ روپے کی غیر قانونی رقم وصول کی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بادی النظر میں یہ اقدام غیر قانونی ذاتی فائدے کے لیے اختیارات کے غلط استعمال اور مجرمانہ سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے، اس لیے مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بعد پرویز القادر میمن کے خلاف سی ای او ایگزیکٹ شعیب احمد شیخ کو بری کرنے کے بدلے غیر قانونی رقم حاصل کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
ایگزیکٹ اسکینڈل مئی 2015 میں سامنے آیا تھا جب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ کمپنی آن لائن جعلی ڈگریاں فروخت کرکے سالانہ لاکھوں ڈالرز کماتی ہے۔
یہ رپورٹ منظر عام پر آتے ہی ایگزیکٹ کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے تھے اور ریکارڈ ضبط کرکے انہیں سیل کردیا گیا تھا جبکہ سی ای او شعیب شیخ اور دیگر اہم عہدیداروں کو حراست میں لے کر الزامات کی تحقیقات شروع کردی گئی تھیں۔
شعیب شیخ پر الزام تھا کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے اپریل 2014 میں، دبئی کی ایک فرم ’چندا ایکسچینج کمپنی‘ میں 17 کروڑ سے زائد رقم منتقل کی تھی، کیس کی ایف آئی آر ’فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947‘ کے تحت درج کی گئی تھی۔