پاکستان

جسٹس آصف کھوسہ کی بطور چیف جسٹس توسیع کیلئے نواز شریف سے رابطہ کیا گیا، مریم نواز

امید ہے فوج کا ادارہ خود جنرل (ر) فیض حمید کے معاملے پر نوٹس لے گا کیونکہ انہوں نے اقبال جرم کرلیا ہے اور ان کا بیان آگیا ہے، چیف آرگنائزر مسلم لیگ (ن)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مریم نواز نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بطور چیف جسٹس توسیع کے لیے نواز شریف سے جیل میں رابطہ کیا گیا لیکن سابق وزیراعظم نے مسترد کردیا۔

مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہزیب‘ کو انٹرویو میں بتایا کہ نواز شریف کو جیل میں بیمار کرایا گیا اور جیل میں پلیٹلیٹس گرائی گئیں۔

مریم نواز نے انٹرویو کے دوران ماضی میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر نواز شریف کے خلاف سازش کا حصہ بننے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ’قرآن پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا بطور چیف جسٹس آپ کی توسیع کی بات نہیں ہو رہی تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر نواز شریف مان گئے ہوتے اور ان کو بطور چیف جسٹس توسیع مل جاتی تو آج عمر عطا بندیال صاحب چیف جسٹس نہ ہوتے‘۔

مریم نواز نے کہا کہ ’ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی بات کی جارہی تھی، تو وہ کیوں کی جارہی تھی کہ تم میرے سے کچھ لے لو اور میں تمہیں کچھ دے دیتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کے چیف جسٹس کا پیغام لے کر جیل میں نواز شریف کے پاس لوگ گئے تھے لیکن نواز شریف نے جیل میں ان کے پاس جو لوگ گئے تھے ان سے کہا کہ میرے ساتھ کیا بات کر رہے ہیں‘ اور انہوں نے توسیع دینے سے انکار کردیا۔

سینئر نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ’پھر نواز شریف قابل قبول نہیں تھے کیونکہ وہ اس قسم کے فیصلے نہیں کرتے تھے‘۔

یاد رہے کہ 2017 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو پاناما کیس میں نااہل قرار دینے والے 5 رکنی سپریم کورٹ کے بینچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے تھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے مذکورہ کیس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، تاہم بینچ کے دیگر تین اراکین جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی تھی۔

سپریم کورٹ کی سفارش پر تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی تحقیقات کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو جولائی 2017 میں نااہل قرار دیا گیا تھا اور وہ وزارت عظمیٰ سے الگ ہوگئے تھے۔

’فیض حمید نے اقبال جرم کرلیا‘

مریم نواز نے انٹرویو کے دوران انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ’اقبال جرم کرلیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کامران خان کے ذریعے جو بیان دیا وہ جواب اعتراف تھا ان سب الزامات کا جو ان پر ہر طرف سے لگائے جاتے تھے، انہوں نے انکار نہیں کیا کہ الزامات جھوٹےہیں بلکہ اعتراف کیا ہے کہ یہ الزامات سچے ہیں لیکن میں اکیلا نہیں تھا‘۔

سینئر نائب صدر نے کہا کہ ’وہ دوسروں کو بھی اس میں ملوث کرنا چاہتے ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ جس کے ایجنڈے کی تکمیل وہ کر رہے تھے اس میں وہ خود پکڑے جاتے کیونکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے گھر وہ خود گئے تھے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ اب اگر انہوں نے اعتراف کر لیا ہے، اقبال جرم کرلیا ہے تو افواج پاکستان کا ادارہ خود اس چیز پر نوٹس لے گا کیونکہ ان کا اقبالی بیان تو آگیا، مجھے امید ہے کہ وہ ادارے کے اوپر جو داغ تھے ادارہ خود اس کا احتساب کرے گا‘۔

مریم نواز نے گزشتہ روز حال ہی میں لانچ ہونے والے ڈیجیٹل نیوز کے ادارے کو انٹرویو کے دوران مطالبہ کیا تھا کہ 2017 میں ان کے اور ان کے والد نواز شریف کو نیب کے کرپشن مقدمات میں سزا دلانے کے لیے مبینہ کردار پر ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کیا جائے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ جنرل (ر) فیض حمید کو مثال بنایا جائے۔

بعد ازاں معروف صحافی کامران خان نے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا تھا کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ نے ان سے رابطہ کرکے مریم نواز کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کا جواب دیا ہے۔

صحافی نے بتایا تھا کہ جنرل فیض حمید 18-2017 میں فوج میں میجر جنرل تھے اور فوج کے ضوابط کے تحت ایک افسر حکومت کو کیسے چلتا کرسکتا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ آرمی چیف کا حکم حتمی ہوتا ہے اور تمام فیصلے عدالتوں کی جانب سے کیے گئے۔

’پی ٹی آئی کے کارکن کے ہلاک ہونے پر دلی افسوس ہے‘

لاہور میں انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن کے ہلاک ہونے کی رپورٹ پر مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر نے افسوس کا اظہار کیا۔

مریم نواز نے کہا کہ ’کل جو ایک واقعہ ہوا اور ایک سیاسی کارکن کی جان گئی، مجھے اس کا بے حد افسوس ہے اور دلی افسوس ہے، میں ان کے گھر والوں اور لواحقین سے تعزیت بھی کرتی ہوں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جو بھی ہوا ہے، اس کی تحقیقات ضروری ہونی چاہئیں‘۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی سرگرمی ہر سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ تحریکیں یا عوامی مہم ہوتی ہیں تو قیادت سربراہی کرتی ہے، سب سے آگے جماعت کا سربراہ یا لیڈر ہوتا ہے، کل لوگوں کو کہا ریلی کے لیے آجاؤ، کارکنوں کو کہا جیلیں بھرو لیکن خود زمان پارک میں چھپے رہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہوا کہ جس کارکن کی جان گئی، ان کے بزرگ والد کو عمران خان نے اپنے گھر میں بلا کر اپنی کرسی میں بیٹھ کر ٹانگ میں ٹانگ رکھ کر جوتے کا منہ اس بزرگ کی طرف کرکے کہا میں نے کارکن کا افسوس کرنا ہے، یہ صرف اخلاق سے گری ہوئی نہیں بلکہ انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیڈرز خود مار کھاتے ہیں کارکنوں کو قیادت ڈھال نہیں بناتی بلکہ قیادت ڈھال بن جاتی ہے۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے لاہور میں زمان پارک سے داتا دربار تک ریلی کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کردیا تھا اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے کئی کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے کارکن علی بلال کو پولیس کے حراست کے دوران قتل کیا گیا ہے، انہیں جب تھانے لے جارہا تھا ان کی سانسیں چل رہی تھیں۔

امریکا کا پاکستان پر اصلاحات کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ کام کرنے پر زور

پولیس کریک ڈاؤن میں پی ٹی آئی کارکن کی ہلاکت، تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل

’میرا دل یہ پکارے آجا‘ فیم گرل کو گانے میں پرانے کپڑے پہننے پر تنقید کا سامنا