پاکستان

پالیسی ریٹ میں اضافہ آئی ایم ایف کا مطالبہ نہیں تھا، گورنر اسٹیٹ بینک

پالیسی ریٹ میں 300 بیسز پوائنٹس کا حالیہ اضافہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا فیصلہ تھا، جمیل احمد

گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد نے ایک پارلیمانی پینل کو آگاہ کیا ہے کہ پالیسی ریٹ میں 300 بیسز پوائنٹس کا حالیہ اضافہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا مطالبہ نہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا فیصلہ تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے کے دوران تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی آمد کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 30 کروڑ ڈالر ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر اور برآمدات میں حالیہ مہینوں کے دوران کمی آئی ہے اور رواں مالی سال مہنگائی کی اوسط شرح تقریباً 26.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

کئی ہفتوں سے ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں بڑے پیمانے پر یہی اطلاعات سامنے آرہی تھیں کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں فوری اضافہ آئی ایم ایف کے اہم مطالبات میں سے ایک تھا۔

قبل ازیں اسٹیٹ بینک کی جانب سے کہا جارہا تھا کہ اس حوالے سے فیصلہ 16 مارچ کو مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائے گا تاہم 2 مارچ کو اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 300 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا جس کے بعد شرح سود 20 فیصد پر پہنچ گئی۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں جمیل احمد نے بتایا کہ رواں مالی سال کے آغاز سے ہی معیشت دباؤ کا شکار ہے، اس وقت اہم چیلنجز مہنگائی کی بلند شرح اور بیرونی فنانسنگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2023 کے آغاز میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ 10 ارب ڈالر تھا لیکن اب یہ آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق 7 ارب ڈالر ہو جائے گا جبکہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار 5 ارب ڈالر کے تخمینے پر مصر ہیں۔

سینیٹرز نے گورنر اسٹیٹ بینک کے سامنے اعتراض ظاہر کیا گیا کہ ایسے وقت میں پابندیوں کے ذریعے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا فرق کم کرنے کو کامیابی نہ سمجھا جائے جب عوام کو ضروری ادویات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ لگژری گاڑیوں کی درآمد جاری ہے۔

تاہم جواب میں گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ دلیل دی کہ آٹوموبائل کی درآمدات بیرون ملک سے زرمبادلہ کے انتظام کی بدولت ہوئی ہیں، انہوں نے اعتراف کیا کہ معیشت کے مسلسل خسارے کی وجہ سخت مالیاتی پالیسی کے سبب معیشت کو سست کرنے کی پالیسی اور مہنگائی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے انتظامی اقدامات ہیں۔

ڈالر کی سمگلنگ

کمیٹی نے گورنر اسٹیٹ بینک کو ہدایت دی کہ وہ ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ اور اسمگلنگ کو مکمل طور پر روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈالر کی حقیقی قیمت کو کنٹرول اور برقرار رکھیں۔

سینیٹرز نے افغانستان اسمگل ہونے والے ڈالر کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ ہر سال زرمبادلہ کی بھاری کھیپ اسمگل کردی جاتی ہے جبکہ انٹربینک کے بلند نرخوں نے ہنڈی اور کالے دھن کے کاروبار کو فروغ دیا ہے۔

ترسیلات زر میں کمی کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے نمائندوں نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ برآمدات میں بھی 7.4 فیصد کمی آئی ہے اور سب سے بڑی کمی خوراک کی برآمدات، خاص طور پر چاول کی برآمدات میں ہوئی ہے جس میں 12 فیصد کمی دیکھی گئی، سبزیوں اور پھلوں کی برآمدات میں بالترتیب 48 فیصد اور 37 فیصد کمی واقع ہوئی۔

فارماسیوٹیکل اشیا کے درآمد کنندگان کو لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) سے انکار کے معاملے پر بحث کرتے ہوئے کمیٹی کو بتایا گیا کہ زیادہ تر ایل سیز کھولی جا رہی ہیں۔

اسی طرح کے مسائل ڈاؤلینس اور حیات کیمیا کو درپیش ہیں جس پر اسٹیٹ بینک نے یقین دہانی کروائی کہ جیسے ہی ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال بہتر ہوگی تو بینک مکمل درآمدی لین دین کی سہولت کے لیے بہتر پوزیشن میں آجائیں گے۔

لاہور: دفعہ 144نافذ، پی ٹی آئی کارکن جاں بحق، متعدد گرفتار، ریلی منسوخ

ٹوائلٹ پیپر سے سنگین بیماریاں پھیلنے کا انکشاف

یونان: ٹرین کے بدترین حادثے پر ہزاروں افراد کا احتجاج، مواصلاتی نظام معطل