پاکستان

انتخابات ہوئے تو ضرور حصہ لیں گے، وزیراعظم سے اس حوالے سے بات نہیں ہوئی، آصف زرداری

عمران خان کو سیاستدان نہیں سمجھتا، ان سے بات نہیں کریں گے، شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا ہے تو ان کے ساتھ کھڑے ہیں، سابق صدر

سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان کو سیاست دان نہیں سمجھتا، عمران خان سے بات نہیں کریں گے، وزیراعظم سے ملاقات میں الیکشن کے حوالے سے بات نہیں ہوئی، الیکشن ہوئے تو ہم اس میں ضرور حصہ لیں گے۔

نجی نیوز چنیل 24 نیوز کے پروگرام ’نسیم زہرا ایٹ پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نے کہا ’زمان پارک میں صبح سے ڈراما لگا ہوا ہے، شبلی فراز اور پولیس والے بستر کے نیچے دیکھتے تو عمران مل جاتا، میں نے 14 سال جیل کاٹی، سابق وزیر اعظم بے نظیر شہید نے 5 سال جیل کاٹی، وزیر اعلیٰ جام صادق نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں خود گاڑی لے کر آتا ہوں اور آپ کو جیل سے ایئر پورٹ چھوڑ آتا ہوں، میں نے جواب دیا کہ مجھے تمہاری ضروت نہیں ہےسیاستدان کو جیل جانا پڑتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کہا کہ میں پارٹی اور اس کی میراث کے لیے جیل میں ہوں، کچھ لوگوں نے تکالیف اٹھانی ہیں تب ہی جا کر ملک نے سنورنا ہے، جس وقت میں نے صدارت سنبھالی اس وقت بھی بہت مشکل حالات تھے، جو شخص مشکل حالات کو نہیں سنبھال سکتا، وہ یہ نوکری نہ کرے، میں نے پرویز مشرف کو سیاسی طریقے سے نکالا اور پارلیمنٹ کی منظوری سے خود صدر بنا، پھر پارلیمنٹ کو اختیارات دیے اور اس کی رہنمائی بھی کرتا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 100 فیصد تنخواہیں بڑھائیں، کوئی 10 فیصد نہیں بڑھا سکتا، عمران خان کے 4 سالہ دور میں 20 فیصد تنخواہ بھی نہیں بڑھی۔

’الیکشن کے حوالے سے اکثریت کا فیصلہ قبول کرنا پڑے گا‘

سابق صدر نے کہا کہ عمران خان کے سکیورٹی خدشات جائز نہیں ہیں، بی بی شہید ہوگئیں، اس کے بعد بھی ہمارے کیسز چلے، ہم نے ان کا سامنا کیا، عمران خان کے ساتھ حادثہ ضرور ہوا ہے لیکن وہ اتنا سنگین نہیں ہے، ان کے اپنے گارڈ نے اس حملہ آور کو پکڑ لیا اور اب وہ جیل میں ہے، پولیس گرفتار کرنے آئے تو ہمارے پارٹی میں ایسا نہیں ہوتا کہ مزاحمت کی جائے، کسی اور پارٹی میں ایسا ہوتا ہوگا، آپ نے جرم کیا ہے تو آپ کو قانون کا سامنا کرنا چاہیے اور ثابت کرنا چاہیے کہ آپ بے گناہ ہیں۔

آصف زرداری نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ایسا کیا ہے، فون آتا ہے تو ہم نے کہا ہم حاضر ہیں، عمران خان کے دور میں 3 ماہ نیب کی حراست میں رہا، انہوں نے مجھے عید کی نماز نہیں پڑھنے دی تو پھر میں عدالت گیا کہ یہ بد تمیز لوگ ہیں، انہوں نے مجھے عید کی نماز نہیں پڑھنے دی، مجھے جیل بھیجا جائے، اس پر عدالت نے جیل بھیجا۔

سابق صدر نے کہا کہ بحیثیت سیاسی پارٹی الیکشن کی مخالفت نہیں کرتے، اکثریت کیا فیصلہ کرتی ہے وہ الگ بات ہے، اکثریت کا فیصلہ ہماری جماعت کو قبول کرنا پڑے گا، ہم ساتھ ہیں، سپریم کورٹ نے ہمیں نوٹس نہیں دیا لیکن ہم نے خود درخواست کی، پیپلزپارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ واقعی امن و امان کی صورتحال خراب ہے، واقعی پیسے نہیں ہیں، الیکشن کمیشن خودمختار ادارہ ہے، ہر ایک کو ان کے احکامات ماننے پڑیں گے ، گزشتہ روز وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں الیکشن کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

’موجودہ صدر کو کوئی سیاست کرنے سے نہیں روک رہا‘

ان کا کہنا تھا کہ جو الیکشن کمیشن نے کہنا ہے ہم نے اور مولانا فضل الرحمٰن نے لبیک کہنا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور رائے نہیں ہے، الیکشن ہوں گے تو ہم ان میں ضرور حصہ لیں گے لیکن یہ وقت اور حالات الیکشن کے لیے خطرناک ضرور ہیں، عدالتیں پارلیمنٹ کے اختیارات میں تجاوز کر رہی ہیں، پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے، عدالت نہیں، اسپیکر کی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اب رولنگ بھی چینلج ہو رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ استعفے قبول نہیں کیے جائیں۔

آصف زرداری نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جو وعد کیے، 4 سال میں پورے نہیں کیے، ہمیں عدالت نے حکم دیا کہ صدر سیاسی کام نہیں کرسکتا لیکن موجودہ صدر کو کوئی سیاست کرنے سے نہیں روک رہا، ہمارے یہاں کوئی اپنے کام نہیں کرتا، دوسروں کے کام کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں معدنی ذخائر کا معاملہ 250 ملین میں سیٹل کرنے کے لیے تیار تھے، آپ نے نہیں کرنے دیا، اب ساڑھے 8 ملین کا مقدمہ وہ ثالثی میں جیتے ہیں تو آپ نے مان لیا، معاشی طور پر تو کم از کم ہمیں سیم پیج پر رہنا چاہیے، پارلیمنٹ میں پہلے روز کہا کہ نیب رکھ لو یا کاروباری ماحول رکھ لو، دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، ہے کہ اپنی بے عزتی سے گھبراتا ہے۔

’قمر باجوہ بہت زیادہ مس گائیڈ تھے‘

آصف زرداری کا کہنا تھاکہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں تو کھڑے ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ میں دو قدم چلوں اور پھر پیچھے ہٹ جاؤں، شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا ہے تو ان کے ساتھ کھڑے ہیں، وزیراعظم سے اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے لیکن ان کو فالو کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کی واپسی ان کا اور ان کی پارٹی کا معاملہ ہے، اس کو وہ بہتر سمجھتے ہیں، سابق صدر نے کہا کہ کسی کے فون پر پرویز الٰہی نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگادیا، اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

انہوں نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو کچھ نے بہت زیادہ مس گائیڈ کیا تھا اور ان کی ٹریننگ اس طرح کی ہوتی ہے کہ جو سورس رپوٹ کہہ دے، اگر آپ قرآن بھی اٹھالیں وہ نہیں مانیں گے، ان کی جو سورس رپوٹ ہے وہ ٹھیک ہےتو ان کا جو سورس رپورٹ تھا، وہ بہت زیادہ سیاست زدہ تھا، اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ پرجوش تھا، وہ اپنے اہداف کے خاطر اگلے کو آؤٹ کرواگیا۔

’میں نے پاگل خان کو گھر بھیج کر قوم پر احسان کیا‘

انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک غیر ضروری طور پرہم پر پریشر ڈال رہے ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہیں، عام آدمی یہ نہیں سمجھتا کہ مرغی چھ سو روپے کلو کیوں ہوگئی، عام آدمی کہتا ہے روٹی سستی دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چین اور دنیا کے درمیان کشیدگی ہے اور اس کشیدگی میں پاکستان پس رہا ہے، ہمیں خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا، مانگے تانگے سے ملک نہیں چل سکتا، اندازہ ہے کہ لوگ بہت پریشان ہیں، میں خود پریشان ہوں کہ مجھے بھی تو لوگوں نے ووٹ دیا ہے، میں نے ان کو جواب دینا ہے.

انہوں نے کہا کہ ہم نے جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کی تو ہمیں اندازہ تھا کہ صورتحال مشکل ہے، ہمیں تمام مشکل معاملات کا پتا تھا، اس کے باوجود عمران خان کو گھر بھیجنا ضروری تھا، میں نے سب کے ساتھ مل کر پاگل خان کو گھر بھیج کر قوم پر، پاکستان پر اور اس پارلیمنٹ پر احسان کیا۔

’عوام میں عمران خان کی سپورٹ نہیں ہے، غربت کا مسئلہ ہے‘

سابق صدر نے کہا کہ عوام میں عمران خان کی سپورٹ نہیں ہے، غربت کا مسئلہ ہے، کیونکہ غربت ہے، لوگ سمجتے ہیں کہ کچھ بہتر ہوجائے، اس کی مقبولیت نہیں ہے، یہ معاشی حالات ہیں، جب بھی آپ کوئی مشکل فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کو توقع ہوتی ہے کہ اس کا اثر آپ کے ووٹ بینک پر پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ مفتاح اسمٰعیل کو ہٹانا مسلم لیگ (ن) کا اپنا فیصلہ تھا، مفتاح اسمٰعیل کو گھر بھیج دیا، گھر بھیجنے والے کو تو تکلیف ہوتی ہے۔

سابق صدر نے کہا کہ عمران خان کو سیاستدان نہیں سمجھتا، کون سیاست دان کئی محاذ ایک ساتھ کھولتا ہے، کون جنرل کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑائی کرتا ہے، اس نے ہم سے اور مسلم لیگ (ن) سے عداوت لے لی تو سیاست دان تو یہ ہے نہیں، پبلک سپورٹ تو ہٹلر کی بھی تھی جب اس نے نازی پارٹی بنائی، جب سوچتے سمجھتے کم ہیں، اب تو 18 سال کے بچے کا بھی ووٹ ہے، اس کو زندگی کا کیا تجربہ ہے، عمران خان کے ساتھ بات نہیں ہوسکتی، وہ بہت مغرور ہے کہ اس کے ساتھ بات چیت ہوسکے، ان سے بات ہونا مشکل ہے۔

آصف زرداری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار سے دوری کا سوچنا سیاست دانوں کی کامیابی ہے۔

پنجاب پولیس کا لاہور میں سیکیورٹی کیلئے 5 ہزار ریٹائرڈ فوجیوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ

’لیجنڈ اداکار قوی خان کا انتقال بہت بڑا نقصان ہے‘ شوبز شخصیات کا اظہار افسوس

گلیڈی ایٹرز کو چھٹی شکست، یونائیٹڈ سنسنی خیز مقابلے میں تین وکٹوں سے کامیاب