پاکستان

عدلیہ میں تعیناتی کیلئے سنیارٹی کا اصول لازمی نہیں ہے، جسٹس عائشہ ملک

مجھ سے پہلے 45 ایسے ججز تعینات کیے جاچکے تھے جو سب سے سینیئر نہیں تھے، اس لیے سنیارٹی کا کوئی لازمی اصول ہے ہی نہیں، جسٹس عائشہ ملک

سپریم کورٹ کی واحد خاتون جج جسٹس عائشہ اے ملک نے اپنی تعیناتی سے جڑے تنازع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ میں تعیناتی کے لیے سنیارٹی کا اصول لازمی نہیں ہے۔

پاکستان ڈویلپمنٹ سوسائٹی کی جانب سے لندن سکول آف اکنامکس (ایل ایس ای) میں منعقدہ فیوچر آف پاکستان کانفرنس کے سیشن میں سپریم کورٹ کی جج نے اپنے کیرئیر میں درپیش چیلنجز اور مواقع کے بارے میں سامعین کو آگاہ کیا، جن میں سے بیشتر خواتین قانون کی طالبہ تھیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مجھے بہت سے چیلنجز کا سامنا رہا، میں جس لا فرم میں میں کام کرتی تھی وہاں میں واحد خاتون ایسوسی ایٹ تھی اور پھر واحد خاتون پارٹنر بنی، بعد ازاں میں لاہور ہائی کورٹ میں ڈیڑھ سال تک واحد خاتون جج رہی، اب میں سپریم کورٹ میں واحد خاتون جج ہوں‘۔

جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ ’مردوں سے بھرے ہال کا تصور کریں، جہاں صرف ایک خاتون موجود ہو، یہ وہ احساس ہے جسے آپ محسوس کرتے ہیں، عدالت میں خواتین کے باتھ رومز ڈھونڈنے سے لے کر لوگوں کے آپ کے ساتھ رویے تک متعدد چیلنجز ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اس تمام سفر میں، میں خوش قسمت رہی ہوں لیکن ضلعی عدلیہ کی بہت سی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے سخت زندگی گزاری ہے اور وہ مختلف پس منظر سے آئی ہیں، انہیں جس بھیڑ کا سامنا ہوتا ہے وہ ہرگز آسان نہیں ہوتا، ان خواتین کی تعداد بہت کم ہے اور وہ جس کمرہ عدالت میں کام کرتی ہیں وہ خواتین کے لیے نہیں بنائے گئے‘۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ان کا سفر اپنے کام میں خواتین کا نقطہ نظر شامل کرنا رہا ہے، ان کے بقول عدلیہ میں یہ نقطہ نظر مکمل طور پر غائب ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک خاتون کی حیثیت سے مجھے زیادہ محنت کرنی پڑی اور یہ دکھانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنی پڑی کہ میں اہل ہوں تاکہ لوگوں کو مجھ پر اعتماد اور بھروسہ ہو۔

لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں اپنی ترقی کے دوران پیدا ہونے والے تنازع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’جب مجھے تعینات کیا جا رہا تھا تب یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ میں سب سے سینیئر جج نہیں ہوں، میں سینیارٹی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر تھی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’درحقیقت مجھ سے پہلے جو جج مقرر کیے گئے تھے وہ بھی سب سے سینیئر نہیں تھے، مجھ سے پہلے 45 ایسے ججز تعینات کیے جاچکے تھے جو سب سے سینیئر نہیں تھے، اس لیے سنیارٹی کا کوئی لازمی اصول ہے ہی نہیں‘۔

جسٹس عاشہ ملک نے کہا کہ عدالتوں کے انتظامی معاملات بھی مردوں نے ہی ترتیب دیے ہیں، اس لیے عمارتوں میں خواتین کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا، حتیٰ کہ خواتین مدعیان کے پاس بھی کوئی محفوظ جگہ نہیں ہوتی جہاں وہ بیٹھ سکیں، جہاں وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں، اپنا حجاب اتار سکیں، اس کے بارے میں واقعی کسی نے سوچا بھی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ان مسائل کے حوالے سے بات کرتی ہوں اور ضلعی عدالتوں میں خواتین ججوں کو اپنی جگہ بنانے کی ترغیب دیتی ہوں، میں خواتین کے بیت الخلا کے لیے بجٹ کا مسئلہ اٹھاتی رہی ہوں، یہ ایک بنیادی لیکن بہت اہم مسئلہ ہے۔

عمران خان کی چیف جسٹس سے اپنی زندگی کو لاحق خطرے کا نوٹس لینے کی درخواست

معروف اداکار قوی خان 80 برس کی عمر میں انتقال کر گئے

بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر چین کے فوجی اخراجات میں اضافہ