نقطہ نظر

آخر آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اتنی سختی کیوں کررہا ہے؟

آئی ایم ایف دو چیزوں پر زور دیتا ہے ایک یہ کہ ان لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جائے جو ٹیکس ادا کرسکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔

مارچ کی 2 تاریخ تھی جب اچانک ہی انٹربینک مارکیٹ میں ایک بھونچال محسوس ہونے لگا اور روپے کی قدر میں ایک مرتبہ پھر تیزی سے گراوٹ دیکھی جانے لگی۔ اس دوران روپیہ بتدریج گرتے ہوئے 18 روپے سے زائد کمی کا شکار ہوا۔

اسی دن فلور ملز ایسوسی ایشن اور حکومت سندھ کے درمیان تنازعے کی وجہ سے ملز ایسوسی ایشن نے کراچی میں گندم کی پسائی بند کرتے ہوئے شہر بھر کی فلور ملز کی بندش کا اعلان کردیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت سندھ آٹے کی قیمت کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ وہ فی کلو گرام آٹا 120 روپے پر فروخت کررہے تھے جو کہ تاریخ کی بلندترین سطح تھی۔ ابھی اس پریس کانفرنس میں سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود میں 3 فیصد کا نمایاں اضافہ کردیا گیا اور بنیادی شرح سود 17 سے 20 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ شرح سود بھی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔

اس سے ایک دن قبل مہنگائی کے جو اعدادوشمار سامنے آئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر دیکھی گئی ہے۔ فروری میں اشیا کی قیمتوں میں 31.5 فیصد اضافہ دیکھا گیا، یعنی ایک مہینے میں اشیا کی قیمتوں میں 31 فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا۔ جبکہ 2 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے میں حساس اشیا (ایس پی آئی)کی قیمتوں میں اضافہ 41 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ان تمام اقدامات سے پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو یہ امید ہوچلی کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی عائد کردہ شرائط حکومت نے پوری کردی ہیں اور جلد اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی دیکھی گئی اور مارکیٹ کا اختتام گزشتہ ہفتے تیزی پر ہوا۔ حکومت بجلی اور گیس کی فی یونٹ قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ضمنی بجٹ میں اضافی ٹیکس لگانے کی شرائط پہلے ہی مکمل کرچکی ہے۔ مگر ہفتے کے اختتام پر یہ پتا چلا کہ آئی ایم ایف نے تمام تر شرائط پر عملدرآمد کیے بغیر اسٹاف لیول معاہدے سے انکار کردیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اتنی سختی کیوں کررہا ہے۔ اس کی وجوہات ماضی قریب اور ماضی بعید میں موجود ہیں۔ آئیے ان وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔

وعدہ خلافیاں

پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ سے یہ معاہدہ سال 2019ء میں عمران خان کی حکومت میں کیا تھا اور اسی وقت یہ بات کی جارہی تھی کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں آئی ایم ایف کا سخت ترین معاہدہ ہے۔ اس معاہدے پر دستخط کے بعد سے ہی معیشت میں گراوٹ دیکھی جارہی تھی۔ اس دوران دنیا کو کورونا وبا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پروگرام پر عملدرآمد عارضی طور پر رُک گیا۔ اس کے بعد حکومت نے معیشت کو چلانے کے لیے بہت سی مراعات دیں جیسا کہ عوام کو نقد رقم کی فراہمی، اسٹیٹ بینک کی جانب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ، قرضوں کی معافی، صنعت کاری کے لیے نئے قرضے، اسپتالوں کی تعمیر کے لیے سستے قرضے وغیرہ۔

ان اقدامات نے معیشت میں اصلاحات اور درستی کے لیے کیے گئے اقدامات پر پانی پھیر دیا۔ جب دنیا میں دوبارہ کاروباری سرگرمیاں بحال ہوئیں تو سال 2021ء کے اختتام اور 2022ء کے آغاز پر حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ بحال کرنے کے لیے جائزہ رپورٹ پر دستخط کیے جس میں روپے کی قدر، اضافی ٹیکس عائد کرنے اور پیٹرول پر لیوی عائد کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ مگر ابھی اس کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ عمران خان نے بجلی کے نرخوں میں 5 روپے اور پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے کی نمایاں کمی کردی۔ ساتھ ہی اس قیمت کو جون تک مستحکم رکھنے کے احکامات جاری کردیے۔

اس کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت قائم نہ رہ سکی۔ عمران خان کے اس عمل سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات اس قدر سستی ہوگئیں کہ جب نئے وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب سے مالی معاونت کی درخواست کی تو وہاں سے جواب ملا کہ بھائی ہم کیسے آپ کی معاونت کریں جب آپ ہم سے بھی سستا پیٹرول اپنے شہریوں کو فروخت کرر ہے ہیں۔

نئی حکومت کے قیام کے بعد مفتاح اسمٰعیل وزیر خزانہ بنے مگر انہیں لندن اور اسلام آباد میں موجود اپنی قیادت کی جانب سے عمران خان کی حکومت کے دوران کیے گئے آئی ایم ایف مخالف اقدامات کو واپس کرنے میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر مفتاح اسمٰعیل وزیراعظم شہباز شریف کو منانے اور اصلاحات کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوگئے اور آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہونے کے ساتھ ایک قسط بھی جاری کردی گئی۔

اپنی ہی جماعت کی ناراضی انہیں لے ڈوبی اور وزیر خزانہ کے طور پر اسحٰق ڈار نے ملکی معیشت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر معیشت کو آئی ایم ایف اہدف سے الگ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ وہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے سہولت دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے سر توڑ کوششیں بھی کیں اور سفارت کاری کو بھی اپنایا مگر آئی ایم ایف کی شرائط سخت سے سخت ہوتی چلی گئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت آئی ایم ایف پاکستان کو کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کی ساکھ

دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ فاتح مغربی طاقتوں نے ایک نیا عالمی معاشی نظام تشکیل دیا جس میں اقوام متحدہ، عالمی ترقیاتی بینک، براعظمی ترقیاتی بینک کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا عالمی مالیاتی ادارہ جس کو آئی ایم ایف کہا جاتا تشکیل دیا گیا۔ آئی ایم ایف کا قیام 1944ء میں عمل میں آیا اور اس کا مقصد مخلتف ملکوں کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف 190 ممالک کی معیشت کی نگرانی کررہا ہے اور ان ممالک کی معیشت کے استحکام کے لیے پالیسی حکمت عملی پر مشاورت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ کسی مالیاتی بحران کا شکار ہوئے بغیر اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بناسکیں۔

یہ ادارہ کم آمدنی والے ممالک کو صفر شرح سود پر قرض فراہم کرتا ہے۔ جبکہ دیگر ملکوں کو کم ترین شرح سود پر قرض دیتا ہے۔ اس قرض کی مالیت ایک ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ ادارہ اپنے رکن ملکوں میں جدید معاشی نظام کے قیام کے لیے تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے اہداف میں تجارتی اور معاشی ترقی اور خوش حالی میں رکاوٹ بننے والی پالیسیوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی شامل ہے۔

جب کوئی ملک اپنی معیشت میں مالیاتی نظم و نسق کو بہتر طور پر قائم رکھنے میں ناکام ہوتا ہے جیسا کہ اچانک سے متعلقہ ملک کی برآمدات کم ہوجائیں یا انہیں قدرتی آفات کا سامنہ کرنا پڑے، تو اس ملک کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے اور اندرون ملک اور بیرون ملک ادائیگیاں کرنے کے لئے فنڈز کی قلت ہوتی ہے۔ تو آئی ایم ایف ہنگامی فنانسنگ فراہم کر کے ان ملکوں کی معیشت کو مستحکم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف اس بات کی یقین دہانی بھی چاہتا ہے کہ وہ ملک اپنے نظام میں ایسی بہتری لائے کہ اس کو پھر آئی ایم ایف کے پاس قرض کے لئے نہ آنا پڑے، جیسا کہ سبسڈیز کا خاتمہ، ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ، طقبہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات کا خاتمہ اور حکومتی خسارے کو کم سے کم کرنا شامل ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی سپورٹ اور پالیسی اصلاحات کی وجہ سے نجی شعبے ، کثیر ملکی مالیاتی اداروں اور بینکوں کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ اور وہ متعلقہ ملک میں نئی سرمایہ کاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔

مگر پاکستان کے معاملے میں اب تک آئی ایم ایف 22 پروگرام دے چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کی معیشت گرداب سے نکلنے میں کامیاب ہی نہیں ہورہی ہے۔ اور ہر آنے والی حکومت کا پہلا کام آئی ایم ایف پروگرام لینا ہوتا ہے۔ ان ڈھیر سارے پروگرام کا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ یا تو آئی ایم ایف کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرسکے یا پاکستان آئی ایم ایف کی اصلاحات پر من و عن عمل نہیں کررہا ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کسی سیاسی اور سفارتی دباؤ کے بغیر کام کرتا ہے۔

دنیا اور خطے کا سیاسی ماحول اور آئی ایم ایف

آئی ایم ایف میں 190 رکن ملک ہیں مگر ہر ملک کا ووٹ دوسرے ملک کے برابر نہیں ہے۔ ہر ملک کے ووٹ کا وزن اس ملک کی معیشت سے لگایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف میں چند مغربی ملکوں جیسا کہ امریکا، مغربی یورپ (یورپی یونین) کے پاس اکثریتی ووٹنگ کا حق ہے۔ اسی لیے امریکا اور یورپ کی جانب سے آئی ایم ایف کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے۔ یورپ اور جی 7 ملکوں کے پاس آئی ایم ایف کے 50 فیصد ووٹنگ کے حقوق ہیں جبکہ وسط اور کم آمدنی والے ملک جو کہ دنیا کی آبادی کا 85 فیصد ہیں، ان کے پاس اقلیتی ووٹنگ کے حقوق ہیں۔ یعنی آئی ایم ایف کو ایک غیر جمہوری ادارے کے طور پر قائم کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد یورپی اور امریکی بالادستی کو قائم رکھنا ہے۔

پاکستان نے ماضی میں آئی ایم ایف کے متعدد پروگرام لیے ہیں جن میں سے صرف دو پروگرام ہی مکمل ہوسکے ہیں۔ ایک پروگرام پرویز مشرف کے دور میں دیا گیا جو کہ آئی ایم ایف کی روایات سے ہٹ کر تخفیف غربت کا پروگرام تھا۔ دوسرا پروگرام مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں مکمل ہوا۔ اس پروگرام میں آئی ایم ایف نے 16 اہداف پورے نہ کرنے کے باوجود پاکستان کو رعایت دی۔ کیونکہ اس وقت پاکستان یورپی اور امریکی ایما پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ تھا اس لیے آئی ایم ایف کے بورڈ اور اسٹاف نے متعدد اصلاحات نہ ہونے کے باوجود نہ صرف پورا قرض فراہم کیا بلکہ اچھی معیشت کی تعریف بھی کی۔

اِس وقت خطے میں خصوصاً افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مغربی طاقتوں کو کسی قسم کی سیاسی مداخلت یا فوج کشی کی ضرورت مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس لیے فنڈ کا رویہ بھی سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے۔ یعنی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آئی ایم ایف ایک پروفیشنل اور حقیقی معیشت کی بحالی کے ادارے کے بجائے ایک ایسے ادارے کے طور پر کام کرتا ہے جو کہ امریکا اور یورپ کی معاشی بالادستی اور سیاست کو دوام دے سکے۔

ڈار نامکس کی ناکامی

پاکستان کے 1998ء میں ایٹمی تجربات کے بعد محمد اسحٰق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا۔ مگر اس وقت وہ معیشت کو مشکلات سے نہ نکال سکے اور 1999ء میں مارشل لا لگ گیا۔ اس کے بعد اسحٰق ڈار کو 2008ء کی کابینہ میں شمولیت کا موقع ملا جس میں انہوں نے بجٹ کی تیاری اور آئی ایم ایف پروگرام کا بنیادی خاکہ مرتب کیا اور وزارت سے علیحدہ ہوگئے، اسحٰق ڈار سال 2013ء میں قائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر خزانہ بنے اور انہوں نے کامیابی سے آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرا پروگرام مکمل کیا۔

مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ آئی ایم ایف کی تشکیل مغربی معاشی اور سیاسی بالادستی کے لیے بھی ہے تو ڈار صاحب کو 2013ء کے بعد آسان ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ ملا اور اس کی تکمیل کے وقت فنڈ نے پاکستان کو 16 اہداف پورے نہ ہونے پر بھی رعایت فراہم کی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت پاکستان کی مغرب کو بہت زیادہ ضرورت تھی جس کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بہت بڑھ گئی تھی۔

ڈار صاحب نے روپے کی قدر کو گرنے سے روکنے اور مہنگائی پر قابو جیسے اقدامات آئی ایم ایف پروگرام ہوتے ہوئے کیے تھے جس پر عالمی فنڈ نے آنکھیں بند رکھیں۔

شاید اسی کامیابی کی وجہ سے اسحٰق ڈار بہت ہی رعونت کے ساتھ یہ دعویٰ کررہے تھے کہ اگر آئی ایم ایف کو ایک نہیں تو دوسری شرط پر راضی کر لیں گے۔ جس نے آئی ایم ایف کے پروگرام کو اپنے پیروں تلے قرار دیا تھا اب آئی ایم ایف نے اس شخص کو ہی زمین تک جھکا دیا ہے۔

پاکستان کو کیا کرنا ہے اور آئی ایم ایف اس سے کیا چاہتا ہے؟

آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے مغربی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتادیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں پاکستان کسی ایسے خطرناک مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں اس کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنا پڑے۔ آئی ایم ایف دو چیزوں پر زور دیتا ہے ایک یہ کہ ان لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جائے جو ٹیکس ادا کرسکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ سبسڈیز کی منصفانہ تقسیم کرتے ہوئے ضرورت مند افراد کو سبسڈی دی جائے اور طبقہ امرا اور اشرافیہ کو سبسڈیز کا فائدہ نہ پہنچے۔ فنڈ پاکستان کے غریب طبقے کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے تمام اگر مگر اپنی جگہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ دنیا آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عمل کیے بغیر پاکستان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے ورلڈ اکنامک فورم پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ اب اس نے دوست ملکوں کی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا ہے۔ وہ براہ راست مالی مدد کے بجائے دوست ملکوں کے ساتھ شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تیار ہے۔ سعودی سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی اپنے اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ اس سے قبل یہی بات ہیلری کلنٹن بھی کہہ چکی ہیں۔

یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف عالمی فنڈ بلکہ اس کے ساتھ کثیر الملکی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان کو فنڈنگ کرسکیں۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔