معاشی بحران سے نکلنے کیلئے این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا، مفتاح اسمعٰیل
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل نے کہا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کرو تو لوگ ناراض ہوجاتے ہیں کے آپ ’پرو-ملٹری‘ بات کررہے ہیں لیکن موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔
کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہوئی، اس کا مقصد یہ تھا کہ صوبوں سے مزید نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ ایک سامراج کی جگہ 4 سامراج بن گئے اور پیسے اور اختیارات مزید نچلی سطح پر منتقل نہ ہوئے۔
مفتاح اسمعٰیل نے کہا کہ ہم 57 فیصد پیسے صوبوں کو دے دیتے ہیں، اس کے علاوہ آزاد کشمیر کو دیتے ہیں اور انسداد دہشتگردی کی مد میں خیبرپختونخوا کو بھی پیسے دیتے ہیں، یہ سب ملا کر 62/63 فیصد پیسے بن جاتے ہیں، اس کے بعد وفاق کے پاس پیسے ہی نہیں رہتے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کرو تو لوگ ناراض ہوجاتے ہیں کہ آپ ’پرو-ملٹری‘ بات کررہے ہیں، لیکن مہنگائی کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو بہرحال اخراجات کو قابو کرنا پڑے گا کیونکہ آپ ان کی استطاعت ہی نہیں رکھتے، اس صورتحال سے نکلنے کے لیے این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔
’حکومت سندھ صرف کراچی سے 200 ارب روپے ٹیکس جمع کرتی ہے‘
سابق وزیرخزانہ نے واضح کیا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ صوبوں کے پیسے کم کریں، صوبوں کو آپ پیسے ضرور دیں لیکن ان کو کہیں کہ اپنے اپنے ٹیکس جمع کریں، حکومت خیبرپختونخوا صرف 30 ارب روپے ٹیکس جمع کرتی ہے، حکومت بلوچستان اتنا بھی نہیں کرتی، حکومت سندھ صرف کراچی سے 200 ارب روپے ٹیکس جمع کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم اس وقت بدترین غذائی قلت کا شکار ہے، 75 برسوں میں ہم اس قوم کو بھوک، پیاس اور جہالت سے آزاد نہ کراسکے، مہنگائی کی حالیہ لہر صرف اشرافیہ کا مسئلہ ہے کیونکہ گاؤں دیہات میں رہنے والا بچہ تو 75 برس سے معاشی بحران کا شکار ہے، پہلی دفعہ آپ لوگ بھی غریب ہوئے ہیں تو آپ لوگوں کے بھی پیٹ میں درد ہونے لگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی بحران سے نکلنے کا ایک طریقہ خاندانی منصوبہ بندی ہے، پاکستان میں سالانہ 55 لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں، یہاں خاندانی منصوبہ بندی پر بات کرنے پر اسلام خطرے میں آجاتا ہے، بنگلہ دیش ہم سے اسی لیے آگے بڑھا کیونکہ وہاں خواتین بھی کام کرتی ہیں اور لڑکیوں کو تعلیم و ہنر دیا جاتا ہے۔
’پاکستان کی سیاست میں آرمی کو اثر و رسوخ بھی کم کرنا ہوگا‘
مفتاح اسمعٰیل نے کہا کہ ہمیں اپنی برآمدات کو جی ڈی پی کے 15 فیصد تک لے کر جانا ہوگا اور ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی بھی 15 فیصد ہونا چاہیے، تعلیم کا فروغ، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور نجکاری انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام اقدامات کے علاوہ پاکستان کی سیاست میں آرمی کو اثر و رسوخ بھی کم کرنا ہوگا، ہم آرمی کو جی ڈی پی کا ڈھائی فیصد دیتے ہیں، یہ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں ہے، مگر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عدالت بھی آرمی چلائے، میڈیا بھی آرمی چلائے۔